انڈین صحافی آرتی ٹکو سنگھ کا عمران خان پر مضمون اور سوشل میڈیا پر قہقہے
پاکستانی اور انڈین صارفین کے درمیان سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر آئے دن گھمسان پڑا ہوا ہوتا ہے۔ کبھی کرکٹ کے معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ لعن طعن ہو رہی ہوتی ہے تو کبھی سیاسی اور علاقائی معاملات پر دونوں کے مابین مغلظات کا طوفان برپا ہوا ہوتا ہے۔
ان معاملات میں دونوں ممالک کے جانے پہچانے صحافی بھی پیچھے نہیں رہتے اور موجودہ حالات، جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں، تو وہ بھی کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جس میں ایک دوسرے کو زچ کیا جائے۔
شاید ایسا ہی کچھ سوچتے ہوئے انڈیا کے خبر رساں ادارے انڈو ایشین نیوز سروس (آئی اے این ایس) سے منسلک صحافی آرتی ٹکو سنگھ نے پاکستان وزیر اعظم عمران خان کو آڑے ہاتھ لینے کی کوشش کی۔
اپنے ادارے کے لیے لکھی گئی ایک خبر میں انھوں نے ‘انکشاف’ کیا کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے حوالے سے جاری ایک رپورٹ کو الٹا پکڑا ہوا تھا جس کو دیکھتے ہوئے انھوں نے دعوی کیا کہ سمارٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستان کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو قابو کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
اپنی خبر میں آرتی ٹکو سنگھ نے مزید تفصیلات دیتے ہوئے لکھا کہ ‘وزیر اعظم کو ان کے ساتھی نے اشارہ کیا کہ وہ رپورٹ کو الٹا پکڑے ہوئے تھے جس کے بعد وہ شرمندہ ہوئے اور بڑبڑانے لگے۔’
ٹوئٹر پر اپنا تعارف ’خارجہ اور سٹریٹیجک افئیرز کی مدیر’ کے طور پر کرانے والی اور انڈیا کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہمدرد سمجھے جانے والی آرتی ٹکو سنگھ نے جس پاکستانی اخبار ’دا ڈیپینڈنٹ‘ میں لکھے گئے مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان پر خبر لکھی وہ ایک طنزیہ مضمون تھا جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔
آرتی ٹکو سنگھ کے اس مضمون کی اشاعت کے بعد ٹوئٹر پر صارفین بے حد محظوظ ہوئے اور انھوں نے ان پر طنز کے تیر کی بوچھاڑ کر دی۔
پاکستانی صحافی ضرار کھوڑو نے ٹویٹ میں لکھا: ’یہ تو زبردست ہو گیا۔ انڈین ’صحافی‘ نے اس طنزیہ تحریر کو سنجیدگی سے لے کر ایک پورا مضمون لکھ ڈالا اور اس پر اپنی بائی لائن بھی لے لی۔‘
آرتی ٹکو سنگھ کا یہ مضمون آئی اے این ایس کی ویب سائٹ سے تو فوراً حذف ہو گیا اور اُن کی ٹوئٹر ٹائم لائن پر بھی اس بارے میں کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔
لیکن انٹرنیٹ پر ایک دفعہ کوئی چیز ایک دفعہ آ جائے تو وہ پھر جاتی نہیں ہے، بلکہ سکرین شاٹس کی صورت میں ابد تک موجود رہتی ہے، اور ایسا ہی کچھ ان کے مضمون کے ساتھ ہوا۔
جرمنی میں مقیم پاکستان صحافی عمر علی نے ٹویٹ میں لکھا کہ نہ صرف آئی اے این ایس بلکہ دیگر انڈین جریدوں نے سوچے سمجھے بغیر یہ خبر استعمال کی ہے۔
لیکن پاکستانی صارفین نے تو جو مذاق اڑایا وہ اپنی جگہ، آرتی ٹکو سنگھ کے اس مضمون پر انڈین صارفین نے بھی مزے لے لے کر ان کی غلطی اجاگر کی۔
اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چند روز قبل انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے تین فوٹو جرنلسٹس کو صحافت کا سب سے معتبر اعزاز ‘پلٹزر پرائز’ ملا تھا جس پر آرتی ٹکو سنگھ نے کافی ناراضگی کا اظہار کیا اور اسے انڈین مخالف قرار دیا تھا۔
اُن ٹویٹس کی روشنی میں کئی صارفین نے آرتی ٹکو سنگھ کے عمران خان کے بارے میں لکھے گئے مضمون پر تبصرہ کیا کہ شاید اس تحریر کی وجہ سے وہ پلٹزر جیت جائیں۔
یورپین پریس فوٹو ایجنسی کے لیے کام کرنے والے سرور کاشانی نے تبصرہ کیا کہ ’بالآخر اب ہمارے پاس ایک پلٹزر جیتنے والی خبر آ ہی گئ۔ وہ صحافی جو کشمیر کے پلٹزر جیتنے سے اس قدر نالاں تھیں کہ وہ ایک طنزیہ مضمون کو سمجھی ہی نہ سکیں۔‘
ترکی میں مقیم پاکستان صحافی شہریار مرزا نے صرف یہ لکھ کر تبصرہ کیا کہ ’اور دوسری طرف کشمیر کو پلٹزر اعزاز ملا۔۔۔‘ تو دوسری طرف صارف شاہد سراج نے لکھا کہ آرتی ٹکو سنگھ کو پلٹزر نہ ملنے کا غم تھا۔
انڈیا کی ہی ماہر معیشت اور مختلف بین الاقوامی اداروں کے لیے لکھنے والی روپا سبرامنیان نے آرتی ٹکو سنگھ کے لیے طنزیہ طور پر صحافی کا لفظ استعمال کیا تو دوسری طرف ایک اور صحافی ودیا کرشنن نے آرتی ٹکو سنگھ کو ’قومی شرمندگی‘ کہا۔
بات صرف پاکستانی اور انڈین صارفین پر نہیں رکی بلکہ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے لیے لکھنے والی صحافی ماریا ابی حبیب نے بھی ان کی مضمون پر ٹویٹ میں کہا کہ ‘ایک خبر رساں ادارکی کی ویب سائٹ نے پاکستان پر خبر کرنے کے لیے ایک طنزیہ مضمون کا سہارا لیا۔’
ابتدا میں اس مضمون کو چھاپنے والے پاکستانی جریدے دا ڈیپینڈینٹ کے ایک دوسرے ٹوئٹر ہینڈل ’ناٹ دا ڈی پینڈینٹ‘ نے آرتی ٹکو سنگھ کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ آپ اصل خبر اور طنزیہ خبر میں فرق سمجھنا سیکھیں۔
حالانکہ یہ جریدہ اپنی خبروں پر بہت نمایاں اور واضح طور پر انھیں ’سیٹائر‘ یعنی طنزیہ مضمون کے طور پر پیش کرتا ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ’دا ڈی پینڈینٹ’ کی کوئی خبر اس طرح سے سنجیدگی سے لے لی گئی ہو۔
سنہ 2017 اس جریدے کی ایک خبر جس میں مریم نواز کے منسوب ایک بیان میں کہا گیا کہ معروف برازیلین فٹبالر نیمار کی فرانسیسی کلب کو ریکارڈ قیمت میں فروخت نواز شریف کی معاشی پالیسی کا نتیجہ ہے۔
بظاہر ایک واضح طور پر مضحکہ خیز خبر کو پاکستان مسلم لیگ نواز کی رہنما حنا بٹ نے ٹوئٹر پر اصل خبر سمجھ کر ٹویٹ کر دی۔
اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ 2018 میں پیش آیا جب پاکستان بھر میں ڈیم فنڈ کا چرچا تھا اور ‘دا ڈی پینڈینٹ’ نے پاکستانی نژاد امریکی ارب پتی شاہد خان کے حوالے سے خبر لکھی کہ انھوں نے غلطی سے ایک ارب ڈالر ڈیم فنڈ میں عطیہ کر دیے ہیں۔
اس خبر کے بعد شاہد خان کی جانب سے باضابطہ تردید جاری کی گئی کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔
بشکریہ بی بی سی اُردو