ہم لوگ اپنے مشاہیر میں سے کبھی کسی کو بہت یاد کرتے ہیں اور کبھی کسی کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ یہ کام ہر دور میں ہوتا رہا ہے اور یہ کام ان دنوں بھی ہو رہا ہے۔ ان دنوں جنہیں یاد کیا جاتا ہے اور بہانے بہانے سے یاد کیا جاتا ہے ان کے بڑا بلکہ بہت بڑا ہونے میں کوئی شبہ نہیں لیکن جنہیں ہم بھلا بیٹھے ہیں، وہ بھی تو اپنے دائرے میں کسی سے کم نہیں تھے۔ ان بھلائے جانے والوں میں ایک ابوالاثر حفیظ جالندھری بھی ہیں۔
حفیظ صاحب کے تصور سے میرے ذہن میں یادوں کے قمقمے سے جل اُٹھتے ہیں۔ ابوالاثر سے میرا پہلا تعارف آج سے پچپن ساٹھ برس پیشتر جامع مسجد اے بلاک ماڈل ٹائون لاہور کی ڈیوڑھی میں ہوا تھا، فن تعمیر میں منفرد اس انتہائی خوبصورت مسجد میں میرے والد ماجد پیرزادہ بہاء الدین قاسمیؒ اپنے اُستاد مفتی محمد حسن صاحبؒ (جامعہ اشرفیہ) کے حکم پر وزیر آباد میں اسکول کی ملازمت چھوڑ کر بطور خطیب تشریف لائے تھے۔ اس مسجد کی ڈیوڑھی میں دیواروں پر جو ٹائلیں لگی تھیں، ان میں ماڈل ٹائون کے ان اہلِ دل مکینوں کے نام کندہ تھے جنہوں نے قیام پاکستان سے قبل ہندو آبادی کی اکثریت والی بستی میں اس مسجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، ان میں ایک نام حفیظ جالندھری کا بھی تھا، اس وقت میں بہت کم عمر اور بے ادب بھی تھا چنانچہ میں اس نام کی اہمیت سے پوری طرح تو واقف نہ تھا، لیکن یہ نام مجھے کچھ مانوس سا لگتا تھا تاہم ابوالاثر سے میرا یہ پہلا تعارف تھا جو مسجد کی ڈیوڑھی میں لگی اس ٹائل کی وساطت سے ہوا جس پر ان کا نام کندہ تھا، ان دنوں میں نے نیا نیا سائیکل چلانا سیکھا تھا چنانچہ گھر میں کسی فرد کو بازار سے کوئی چیز منگوانا ہوتی، میں سائیکل چلانے کے شوق میں اپنی خدمات پیش کرتا کیونکہ بغیر کسی کام کے بھائی جان ضیاء الحق قاسمی (مرحوم) اپنی نئی نویلی سائیکل کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے ۔ اس کے بعد میں گھر والوں کو
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
کی کیفیت میں مبتلا کر کے سڑکیں ناپنے لگتا اور گھر واپس جانے سے پہلے ماڈل ٹائون کا رائونڈ مکمل کرتا جو ڈھائی میل گولائی میں واقع تھا اور جس میں اے، بی، سی، ڈی، ای ، ایف، جی اور ایچ بلاک واقع ہیں۔ حفیظ صاحب کا گھر جی بلاک میں تھا، میرا گزر ادھر سے بھی ہوتا جہاں گھنے درختوں سے اٹے ہوئے ایک گھر میں حفیظ صاحب رہتے تھے، بہت دفعہ جی چاہا کہ کسی روز اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹائوں، مگر ہمت نہیں پڑتی تھی تاہم کچھ برس گزرنے کے بعد جب میرے شعور نے آنکھیں کھولیں تو حفیظ جالندھری سے میرا تعارف ہوا اور مجھے پتہ چلا کہ؎
سلام اے آمنہ کے لال اے محبوب سبحانی
والا سلام جو میں کئی بار سن چکا ہوں وہ حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا ہے۔ پاکستان کے دور دراز شہروں میں منعقد ہونے والے تبلیغی جلسوں میں ابا جان تقریر کیلئے جاتے تو اکثر اوقات مجھے اپنے ہمراہ لے جاتے۔ عشاء کی نماز کے بعد شروع ہو کر رات کو دو تین بجے ختم ہونے والے ان جلسوں میں، میں نے مسجد کی چٹائیوں پر لیٹے نیم خوابیدہ عالم میں علمائے کرام کی زبان سے جو شعر سنے تھے مجھے پتہ چلا کہ اِن میں سے بھی کئی شعر حفیظ جالندھری کے تھے۔ ذرا ’’بالغ‘‘ ہونے پر ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ والا نغمہ اور تھوڑی سی عملی زندگی کے تجربے کے دوران ؎
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
والے شعر کی معنویت بھی سمجھ میں آئی۔
حفیظ صاحب سے جب ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور جب اس میں مکمل احترام کے ساتھ ساتھ بے تکلفی کا عنصر بھی شامل ہوتا چلا گیا تو مجھ پر یہ بھید کھلا کہ جو بات حفیظ صاحب کے دل میں ہوتی ہے وہ بہرحال ان کی زبان پر آکر رہتی ہے۔ حفیظ صاحب اپنی بات کبھی کڑوے اور کبھی میٹھے انداز میں بہرحال کہہ دیتے تھے۔ ان کی محبت اور نفرت دونوں بہت عمیق تھیں، جس کو ناپسند کرتے تھے برسرِ محفل اِس پر چبھتے ہوئے جملوں کی بوچھاڑ کر دیتے اور اسے اپنا دفاع کرنا مشکل ہو جاتا اور جس سے محبت کرتے اس سے یہ محبت سنبھالنا مشکل ہو جاتی۔ مشاعرے میں بہت کم کسی کو داد دیتے تھے، نوجوان شاعروں میں سے خالد احمد وہ خوش نصیب تھا جس کے متعلق حفیظ صاحب کی رائے تھی کہ اس شخص کو لفظوں کا شعور حاصل ہے۔(جاری ہے)