میرا لہو اور دستانے
1960کی دہائی میں جوہر آباد لق و دق تھل کے درمیان آباد ہونے والا نیا نیا شہر تھا۔ تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ٹی ڈی اے) کا صدر دفتر اسی شہر میں تھا اس لئے ملک بھر کے نابغۂ روزگار ملازمت کے لئے اس نئے محکمہ میں بھرتی ہو کر یہاں آتے رہتے تھے۔
میرے والد مرحوم چوہدری فیض سرور سلطان کے پرانے کاغذات میں بزمِ جوہر کا ایک کارروائی رجسٹر محفوظ پڑا ہے جس میں ادبی و سماجی مجلس، بزمِ جوہر کی میٹنگز کی تفصیل درج ہے۔
یہ مجالس میرے آبائی گھر ورکرز کالونی میں ہوتی تھیں کیونکہ میرے والد اس بزم کے سیکرٹری جنرل تھے۔ ایسی ہی ایک میٹنگ میں جوہر نظامی، یوسف جبریل اور شکیب جلالی کے شریک ہونے کا ذکر ہے۔
شکیب جلالی (1966-1934) اپنی ملازمت کے سلسلے میں وہاں مقیم تھے، ہو سکتا ہے کہ اسی طرح کی کسی محفل میں انہوں نے یہ شعر بھی سنایا ہو جو آج زبان زدِ عام ہے؎
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
شکیب جلالی نے 32سال کی عمر میں چلتی ٹرین کے سامنے کود کر خودکشی کر لی، رومانوی انگریزی شاعر جان کیٹس 25سال، شیلے 29سال اور لارڈ بائرن 36سال کی عمر میں یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔
حساسیت زیادہ ہو تو عمر لمبی کیسے ہو سکتی ہے؟ شکیب جلالی کا لہو اور دستانوں والا سفر آج مجھے اپنے حسبِ حال لگا، کوئی 20روز پہلے یعنی 18اپریل 2020کو ’’شہباز شریف کہاں کھڑے ہیں؟‘‘ کے عنوان سے میرا ایک کالم شائع ہوا۔
شائع ہونے کے بعد اس کالم پر تبصروں، تجزیوں، ٹاک شوز اور الزامات کی بھرمار ہو گئی۔ 3ہفتے ہونے کو ہیں یہ طوفان ابھی تک تھما نہیں، میں نے صبر سے کام لیا مگر اب کئی لوگ اشاروں کنایوں میں ذاتیات پر اتر آئے ہیں اس لئے جواب دینا لازم ہو گیا ہے۔
ایک قابلِ احترام صحافی نے کالم شائع ہوتے ہی بلا سوچے سمجھے یہ لکھ ڈالا کہ کالم کا مقصد دراصل شریفوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ کاش وہ اسے صرف صحافتی کاوش سمجھتے، سازشی مفروضے پر اپنی کہانی ترتیب نہ دیتے۔
میرے ایک آئیڈیل صحافی نے کالم کے الفاظ کو اپنی تشریح دیتے ہوئے سوال کر ڈالا کہ یہ تو چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش تھی۔ دوستوں نے کالم کو اپنے اپنے رنگ دیے مگر اکثر نے اسے صحافتی نظریے سے نہ پرکھا۔
میرے کالم کے عنوان شہباز شریف نے بہ کمالِ مہربانی شائع شدہ مواد کی تردید نہیں کی بلکہ میرا بھرم رکھنے کی خاطر کوشش کی کہ اس معاملے پر پانی ڈالا جائے تاہم انہوں نے کالم کے مندرجات کی سنگینی کو کم کرنے کے لئے اسے ’’نجی ملاقات‘‘ قرار دیا حالانکہ یہ سراسر ایک صحافتی ملاقات تھی جس میں شعر و شاعری اور عشق و محبت کے موضوعات زیر بحث نہیں آئے نہ ہی اس ملاقات کا مقصد کیک اور پیسٹری کھانا تھا۔
سیاست پر گفتگو ہوئی اور شہباز شریف بار بار کہتے رہے کہ گفتگو کے کچھ حصے آف دی ریکارڈ ہیں۔ اس ناچیز کالم نگار نے صحافتی آداب و اخلاقیات کے مطابق آف دی ریکارڈ کو سینے میں چھپا رکھا ہے اور جو کچھ آن دی ریکارڈ تھا اسے لوگوں کے سامنے پیش کر دیا۔
کالم پر تنقید ہوئی یوں محاورتاًمیرا لہو بہنے لگا تو شہباز شریف نے دستانے پہن لئے، یہی دستورِ دنیا ہے۔ میں آج بھی کالم کے ایک ایک لفظ کی صداقت پر قائم ہوں، کسی کو سوٹ نہیں کرتا تو چاہے وہ اسے Ownنہ کرے۔
پارٹی کی وفاداری میں جہاں رانا ثناء اللہ بولے وہاں عطاء اللہ تارڑ جگہ جگہ تردیدیں کرتے پھرے۔ رانا ثناء اللہ کو تو ہم آمریت کے لئے شمشیر برہنہ سمجھتے ہیں، وفاداری میں آکر وہ اس ناچیز صحافی کی ساکھ کیلئے بروٹس کا خنجر نہ بنتے تو اچھا تھا۔
نہ انہیں اس معاملے کا علم ہے نہ وہ وہاں موجود تھے تو پھر تردید کس بات کی؟ عطاء اللہ تارڑ نوجوان ہیں، ابھی سے پارٹی قیادت نے انہیں لائل پور کا گھنٹہ گھر بنا دیا ہے۔ پارٹی کے وکیل بھی ہیں اور ترجمان بھی ہیں اور ساتھ ہی خیر سے صحافیوں کی خبریں سچی یا جھوٹی قرار دینے کا اختیار بھی انہوں نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ اپنے رتبے ضرور بلند کریں مگر کسی کو غلط ثابت کر کے نہیں۔
اب آتے ہیں کالم کی تشریحات، تجزیات اور اعتراضات پر۔ سنا تھا شہر مردہ ہو جائیں تو ہر کوئی مصلحت کی چادر اوڑھ لیتا ہے، قتل ہو جائے تو قاتل دستانے پہن لیتے ہیں، کچھ ایسا ہی اس کالم کے حوالے سے ہوا۔ ہر کسی نے شہباز شریف پر اعتراض کیا کہ وہ کابینہ کے نام کیوں زیر بحث لاتے رہے۔
انتخابات سے ایک ماہ پہلے تک خفیہ ملاقاتیں کیوں کرتے رہے، کیا ڈیل کر رہے تھے جو پوری نہیں ہو سکی وغیرہ وغیرہ۔ یہ دلائل سن کر یقین آ گیا کہ ہمارے جیسے مردہ معاشرے ژولیدہ فکری کا شکار کیسے ہو جاتے ہیں۔ معاملہ سیب اور چاقو کا ہے۔
سیب پر اعتراض ہے کہ تم اس طرح سے کیوں کٹے؟ چاقو سے کوئی نہیں پوچھتا تم نے کیوں سیب کو ایسے کاٹا؟ تیندوے نے پیاسے ہرنوں کو ندی کنارے چیر پھاڑ ڈالا، ہرنوں پر اعتراض کیا جا رہا ہے کہ آپ ندی کی طرف گئے کیوں تھے، کوئی تیندوے سے بھی تو پوچھتا؟
دستِ قاتل پر کسی کو اعتراض نہیں، اعتراض یہ ہے کہ مقتول کی گردن موٹی کیوں تھی؟ واہ بھئی واہ کیا دلائل اور کیا تشریحات، یا بوالعجبی تیرا آسرا۔
ان اعتراضات کو سامنے رکھ کر تو تاریخ نئے سرے سے مرتب کرنا ہو گی، ماننا پڑے گا کہ جناح صاحب نے 11اگست 1947کو جو تقریر کی تھی اسے روکنے والا قائد اعظم سے بھی بڑا اور عقلمند آدمی تھا۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا بھٹو نے پھانسی چڑھ کر بہادری نہیں دکھائی وہ تو اپنے پائوں پر چل کر پھانسی گھاٹ بھی نہ جا سکا، اسٹریچر پر لے جانا پڑا۔
گویا جناح اور بھٹو کے مقام و مرتبے کا فیصلہ ان دو تشریحات سے ہو گا۔ بینظیر بھٹو کو طالبان کا نشانہ بننے میں غلطی طالبان کی نہیں بلکہ بینظیر بھٹو کی تھی۔ نہ وہ اسکیپ ہیج سے باہر سر نکالتیں اور نہ حادثے کا شکار ہوتیں۔ واہ کیا دلیل ہے۔ ان تشریحات کی روشنی میں واقعی شہباز شریف ہی کا قصور بنتا ہے۔ واقعی قصور ہمیشہ سیاستدانوں کا ہوتا ہے۔
جناح، بھٹو، بےنظیر اور شہباز شریف پر الزامات لگتے ہیں یا ان کا لہو بہتا ہے تو ہم سب دستانے پہن لیتے ہیں۔ فقیہِ مصلحت کے لئے یہی طریق مناسب ہے۔ جب قوم دستانے پہن لے تو پھر اسے بہتا ہوا لہو نظر نہیں آتا۔
اس وقت سچ کا قتل ہو رہا ہے، لہو بہہ رہا ہے، کاش دستانے اتار کر اس لہو کی گرمی کو محسوس کریں …