کشادہ راستے جو ہم نے دریافت کیے
بحیثیت قوم ہماری خوش قسمتی ہے کہ بہت سی لغزشوں سے ہم آزاد ہیں۔ دنیا کا انداز جو بھی ہو ہمارا انداز اپنا ہے۔ اسی لیے علما اوربعض دانشوران کرام درست ہی کہتے ہیں کہ ہماری ایک الگ مملکت ہے اور اس پہ قدرت کی خاص مہربانی ہے۔
اسی کو لے لیجیے کہ ہندوستانی خوش ہورہے ہیں کہ وہاں شراب کی دکانیں کھل گئی ہیں۔ غالباً اس کورونا بیماری کی وجہ سے جہاں دیگر پابندیاں لگیں اورنارمل زندگی اُلٹ پُلٹ ہوئی شراب جیسے مکروہ کاروبار پہ بھی بندشیں لگیں۔ اب اگر وہاں سے آنے والی خبروں پہ یقین کیاجائے توہندوستانی آپے سے باہر ہورہے ہیں۔ مخصوص دکانوں‘ جو اس مکروہ دھندے سے وابستہ ہیں‘ کے سامنے لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں‘ اورآدم ہے کہ ایک دوسرے پہ چڑھا ہواہے، کس لیے، ایک بوتل شراب کیلئے۔ ایسی خبریں پڑھ کے گھن آتی ہے۔ کیاانسان اتنا بھی کمزور ہوسکتاہے؟ لیکن پھراچنبھا نہیں ہوتا۔ ہندوستانیوں سے اورکیا توقع کی جاسکتی ہے۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ ایسی کمزوریوں اورروشوں سے پاک ہیں۔ ہم سیدھے راستے پہ چلنے والے لوگ ہیں۔ دنیا کاانداز اورہے تو رہے۔ ہمارے لئے فائدے کی بات ہے کہ مغفرت کی راہیں کشادہ ہوگئیں۔ حساب کتاب اُن کا ہوگا۔ ہمارے اچھے اعمال سامنے آئیں گے۔یہ درست ہے کہ ایک زمانہ تھا جب ہندوستان اورباقی دنیا جیسی کمزوریاں یہاں بھی پائی جاتی تھیں۔ واقفانِ حال سناتے ہیں کہ ایک زمانے میں ایسی دکانوں کا یہاں بھی رواج تھا۔ اور تو اور سننے میں آتاہے کہ باقاعدہ میخانے ہوا کرتے تھے۔ سچ پوچھیں تو ایساسُن کے روح کانپ اُٹھتی ہے۔ کیا پاک سرزمین پہ ایسے گھناؤنے کاروبار ہوا کرتے تھے ؟ لیکن ایک خاص عمر کے لوگ بتاتے ہیں کہ ایسا ہوتاتھا۔
بہرحال ایسی حرکتوں سے ہمارا کیالینا دینا۔ انگریز بہت کچھ ورثے میں چھوڑ گئے۔ شاید جو روایت شراب خانوں سے منسلک ہے وہ بھی اس ورثے کا حصہ تھا۔ جہاں ہم نے بہت حد تک اس سے ناتہ توڑنے کی کوشش کی وہاں شراب خانوں والا کام بھی ہم نے بند کردیا۔ بہت سے لوگ تو 1977ء کو ایک منحوس سال کے طورپہ دیکھتے ہیں ‘ لیکن یہ وہی سال ہے جہاں پہ پاکستان کے اصل مقصدکی طرف قوم لوٹی ۔ مخصوص جگہیںں‘ جہاں یہ مکروہ دھند ہ چلتاتھا‘ پہ تالے لگے اورمعاشرہ پاکیزگی کی راہوں پہ چلنے لگا۔ جوئے اورشراب پہ پابندی لگی اوراتوار کی بجائے جمعہ کو چھٹی کادن مقرر ہوا ۔ چھٹی کے معاملے میں پتہ نہیں کن وجوہات کی بنا پہ بہت سال بعد ترمیم کردی گئی لیکن فائدہ اس کا یہ ہوا کہ ایک چھٹی کی بجائے اب ہفتے میں ڈیڑھ چھٹی ہوتی ہے ، آدھے جمعے کی اورپورے اتوارکی ۔ باقی پابندیاں اللہ کے فضل وکرم سے بدستور قائم ہیں اورکوئی مائی کا لال نہیں جو اس اسلامی مملکت میں ان میں تبدیلی کاسوچ بھی سکے ۔
یہ درست ہے کہ ان جائز پابندیوں کی وجہ سے اِدھر اُدھر سے خبریں آتی ہیں کہ دونمبری میں بہت اضافہ ہوگیاہے ۔ لیکن ایسی خبروں پہ زیادہ کان نہیں دھرنے چاہئیں۔ انسان کے بارے میں کیاکہاجاتاہے کہ خطا کاپتلا ہے ۔ اچھے سے اچھے معاشرے میں کچھ لوگ ہوں گے جو مشکوک راستوں پہ چلیں گے ۔ ہمارے ہاں اگر کچھ لوگ دونمبری کے راستوں سے متاثر ہوئے ہیں تشکرکامقام ہے کہ بیشتر معاشرے کی سمت تودرست ہے۔
کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جھوٹ اورفریب معاشرے میں بہت ہے۔کیا دیگر معاشرے ایسی چیزوں سے پاک ہیں؟ جوجھوٹ اور فریب کے پیمانے امریکا جیسے ملک میں ہیں اُن کا تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اگریہاں عیاری ہے تو چھوٹی قسم کی۔ ہم بس اِدھراُدھر کونے کاٹتے ہیں۔سیاستدان اورنیتا قسم کے لوگ ہاتھ مارتے ہیں تو وہ بھی چھوٹی قسم کا۔ کسی نے کچھ آٹے کے ساتھ کرلیا،کسی نے چینی کے معاملے میں کچھ ہنردکھا دیا۔ صحیح معنوں میں نیتاؤں کے چال چلن دیکھنے ہوں تو آدمی ہندوستان جائے۔ وہاں ہاتھ بڑے پیمانے کا مارا جاتاہے اوراس میں کوئی حیرانگی کی بات بھی نہیں ہونی چاہیے۔ کمبخت ملک ہی اتنا بڑا ہے اوراس کی معیشت نے بھی لازمی طورپہ ہم سے بڑا ہوناہے۔ اب دیکھ لیجیے کراچی کے سیٹھ، سیٹھ تو ہیں لیکن اپنے مخصوص دائروں میں۔ ممبئی والے سیٹھ تو یہاں موجود نہیں۔ مافیا قسم کے لوگوں کا بھی یہی حال ہے ۔ مثال کے طورپہ لاہور کے ٹاپ ٹین دیکھ لیجیے۔ اُن کے بارے میں کہانیاں بہت گھڑی اورسُنی جاتی ہیں لیکن اُن کے حالات اورکارناموں کا جائزہ لیاجائے تو وہ پینڈو قسم کے لوگ لگتے ہیں۔ صحیح انڈرورلڈ توممبئی کی ہے۔ داؤد ابراہیم جیسا کردار تو لاہور یاکراچی میں کبھی پیدا نہیں ہوا۔ہو بھی نہیں سکتا۔ یہاں کا سٹیج محدود ہے ، چاہے سٹیج انڈسٹری کا ہو یا جرائم کا۔ جہاں داؤد ابراہیم پیدا نہیں ہوا آپ کو یہاں کوئی ٹاٹا یا برلا بھی دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ یہاں کے سیٹھوں کی وارداتیں بھی محدود پیمانوں کی ہیں۔ صحیح معنوں میں تو انڈسٹری ہندوستان کے سیٹھوں نے لگائی‘ جو ریلائنس انڈسٹری ہندوستان میں امبانیوں کی ہے یہاں کے سیٹھوں کی سوچ سے باہر ہے۔
لیکن ہمیں اس تقابل سے کیا لینا دینا۔ ہرمعاشرہ اپنی راہ کا تعین کرتاہے۔ ہم بھی اپنے فیصلے بہت پہلے کر چکے۔ قائد اعظم کی سوچ ایسی نہ ہوگی لیکن اُن کے بعد کے نیتاؤں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں ایک نظریاتی مملکت بننا ہے ‘ اوریہ ہم نے بن کے دکھایا۔ ہرچیز میں حوالہ اپنے نظریات کادیا۔ پاکیزگی کی اپنی راہیں تلاش کیں۔ 1977ء میں کسی نئی چیز کی بنیاد نہ ڈالی گئی بلکہ ابتداکی روشوں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے آپ کوکتنا ماڈرن لیڈر سمجھتے تھے لیکن 1977ء کے ہنگاموں میں اُن کی ایسی درگت بنی کہ انہیں بھی نظریات کے ستارے دن کی روشنی میں نظر آنے لگے۔ جب گولی چلنے سے بھی کام نہ بنا تو انہوں نے نظریات کی ڈھال کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی ۔
اُن کے وزیر مذہبی امورمولانا کوثر نیازی تھے۔ روایت ہے کہ یہ مولاناکی رائے تھی کہ مولویوں اورجماعت اسلامی والوں کو روکناہے توحفاظتی تدابیر کی جائیں۔ اسی سوچ کا مظہر جوئے اورشراب پہ پابندی تھی۔ جب بھٹو مخالف تحریک اپنے زوروں پہ تھی تو 15اپریل 1977ء کو ان پابندیوں کا اعلان ذوالفقار علی بھٹو نے کیا ۔ سمجھا جارہاتھا کہ یہ اعلان ہوتے ہی تحریک دم توڑ دے گی۔ ہوا اس کے بالکل اُلٹ۔ مولوی صاحبان اورجماعت اسلامی والوں نے دھوکا کیا کھانا تھا ، اُن کا ولولہ مزید تیزہوا جب انہوں نے دیکھا کہ بھٹو کے قدم پھسل رہے ہیں۔ تحریک میں زیادہ زورآیا اوربھٹو مزید کمزور ہوتے چلے گئے ۔
کچھ اُن کے بخت بھی ہار چکے تھے۔ جہاں اُن کی کوشش ہونی چاہیے تھی کہ پاکستان قومی اتحاد کے رہنماؤں سے معاملات جلد طے کئے جائیں‘وہ مذاکرات کو طول دیتے رہے‘ اورعین درمیان میں مشرقی وسطیٰ کے طوفانی دورے پہ نکل پڑے۔ اس حرکت کی کوئی تُک نہ تھی لیکن یونانی ڈرامہ نویس یو رپڈیز (Euripides)نے کیا کہاتھاکہ جن کو خدا مارنا چاہتاہے پہلے انہیں پاگل بنا دیتاہے ۔ بھٹو کتنے ذہین سیاست دان تھے لیکن پورے اس ہنگامی دور میں یوں لگتاتھا جیسے انہوں نے اپنی ذہانت کو خیر باد کہہ دیاہے ۔ جب فوج آئی تو یوں لگا کہ یہ بھی ایک منطقی نتیجہ ہے ۔
جمہوریت کی شمعیں کیاتھیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے خود ہی کوئی کسر نہ چھوڑ رکھی تھی۔ اُن کے دورِ اقتدار میں ہی یہ شمعیں بہت مدھم ہوچکی تھیں لیکن جیسی بھی تھیں بوٹوں کی چاپ سے وہ گل ہوگئیں۔ پاکستانی تاریخ کے طویل ترین مارشل لاء کاآغاز ہوا ۔ گیارہ سال تک قوم نظریات کی باتیں سنتی رہی ۔ لیکن سوچنے کامقام ہے کہ جنرل ضیاء کو گئے تقریباً بتیس سال ہوچکے ہیں۔ اُن کے جانے کے بعد ہماری آبادی میں دس کروڑ کااضافہ ہواہے‘ لیکن جو چھاپ قوم کے عمومی مزاج پہ وہ چھوڑ گئے وہ اب تک قائم ہے ۔ بہت کچھ ہوچکا ، دنیا بدل گئی ،لیکن شکرہے کہ جو کشادہ راہیں ہم نے اپنے لیے چنیں وہ ویسے ہی قائم ہیں ۔