وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے جمعرات کو اعلان کیا کہ تعلیمی ادارے 15 جولائی تک بند رہیں گے اور بورڈ کے امتحانات کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد ٹوئٹر پر دلچسپ ٹرینڈز کے علاوہ صارفین پالیسی کے اطلاق کے حوالے سے سوالات پوچھتے نظر آرہے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ابتدائی طور پر تمام تعلیمی اداروں کو یکم جون تک بند رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس ابتدائی فیصلے کے بعد سے سوشل میڈیا پر وقفے وقفے سے طلبا یہ مطالبہ کرتے دکھائی دیے کہ بورڈ کے امتحانات کو ملتوی کر دیا جائے۔
سوشل میڈیا پر بورڈ امتحانات کی منسوخی کے بعد یہ اعلان موضوع بحث بنا رہا جس کے مطابق اس برس تمام طلبا کو گذشتہ سال کے رزلٹ کی بنیاد پر اگلی جماعتوں میں پروموٹ کیا جائے گا۔
بظاہر ملک کے طالب علموں میں ان کے امتحانات کے حوالے سے بڑھتی بے چینی اور سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈز کے جواب میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ حکومت طلبا کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں پرائیویٹ طلبا اور کمپوزٹ امتحان دینے والے بچوں کے حوالے سے کئی سوالات موصول ہوئے ہیں جن کے جوابات وہ اگلے ہفتے پیر کو دیں گے۔
‘کیا اتنا برا ہوں میں ماں‘؟
سوشل میڈیا پر اس پالیسی کے اعلان کے ساتھ ہی #callofuniversityexams ٹرینڈ کرنے لگا اور یونیورسٹی طلبا اپنے ساتھ ‘امتیازی سلوک’ کی شکایت کرتے دکھائی دیے۔
صارفین نے بورڈ کے امتحانات کی منسوخی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’کیا یونیورسٹی طلبا کورونا وائرس سے محفوظ ہیں؟‘
ایک یونیورسٹی طالب علم کچھ زیادہ جزباتی دکھائی دیں اور انھوں نے ایک میم بھی شئیر کی جس میں لکھا تھا کہ ‘کیا اتنا برا ہوں میں ماں؟’
پنجاب کے صوبائی وزیر تعلیم مراد راس نے اس حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ ممکنہ طور پر ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) یونیورسٹیوں کے اعتبار سے بھی ‘اسی طرز کا فیصلہ لے گا’ جو اگلے ہفتے متوقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایچ ای سی کے نمائندے مشاورتی اجلاس میں موجود تھے اور اس منسوخی کے فیصلے سے متفق تھے۔
پرائیویٹ سکولوں کا رد عمل
آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا نے 15 جولائی تک تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’تعلیم دشمن‘ قرار دیا ہے۔
یونیورسٹیوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ امتحانات کے حوالے سے اپنی پالیسی خود ترتیب دیں، اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کاشف مرزا کا کہنا تھا کہ ‘سکولوں کو بھی یہ فیصلہ خود لینا چاہیے ورنہ یہ انصاف کے اصولوں کے منافی ہوگا۔’
صوبہ پنجاب کے وزیر تعلیم نے کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے خدشات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بحث اس بات پر نہیں کہ آیا ‘سکول بند کرنے کا فیصلہ لیا جانا چاہیے کہ نہیں’۔
مراد راس کے مطابق اگر امتحانات کروائے جاتے ہیں تو کورونا منتقل ہونے کا ایک سنگین خطرہ موجود ہے۔ ان کا یہ تک کہنا تھا کہ ‘کلاس روم ایک ٹائم بم کی مانند ہے، ایک بچے سے ہزاروں بچوں کو یہ وائرس منتقل ہوسکتا ہے۔’
’مساجد کے لیے ضابطہ کار ہے تو تعلیمی اداروں کے لیے کیوں نہیں؟‘
آل پاکستان پرائویٹ سکول فیڈیریشن کے صدر کاشف مرزا کے مطابق اگر سماجی فاصلے کا ہی معاملہ تھا تو مساجد کے لیے بھی تو ایک ضابطہ کار جاری کیا گیا تھا اور اسی طرح بازار کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں، وہاں پر قوائد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔
کاشف مرزا نے بی بی سی کو بتایا کہ امتحانات کے سینٹرز میں ضابطہ کار پر عمل کرنا دوسرے مقامات سے قدر آسان ہوگا۔
ان کے مطابق ‘امتحانات کے سینٹرز میں تو بچوں کو ویسے بھی ایک ترتیب سے بٹھایا جاتا ہے، تو ان سینٹرز کے لیے ایک ضابطہ کار جاری کیا جاسکتا تھا۔’
مراد راس نے مساجد کے ساتھ سکولوں کے موازنے پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ’ان طلبا کی تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘مساجد میں لوگ رزاکارانہ طور پر جاتے ہیں، مگر امتحان دینا سب پر لازم ہے’۔
صوبائی وزیر برائے تعلیم کے مطابق حکومت کے پاس وہ وسائل نہیں کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر طلبا پر سماجی فاصلے جیسی پالیسی کا اطلاق کرسکیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے سوالات
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین اس حوالے سے پوچھتے نظر آئے کہ ’اگر ایک طالب علم نے نویں میں بہتر کارکردگی نہیں دکھائی تھی تو اس بنیاد پر ان کا دسویں کا رزلٹ مرتب کرنا کیا ناانصافی نہیں ہوگی۔‘
اس سے متعلق دیگر طلبا فکر مند نظر آئے کہ اس نئی پالیسی کے تحت یونیورسٹیوں میں داخلے پر کیا اثرات پڑیں گے۔
ایک صارف نے میڈیکل کالج میں داخلے کو صرف اینٹری ٹیسٹ کی بنیاد پر کر دینے کی بھی درخواست کی۔
ہوئے مراد راس کا کہنا تھا کہ ‘چیزیں بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں اور فیصلے روزانہ کی بنیادوں پر لیے جا رہے ہیں۔’
بورڈ امتحانات کی منسوخی کے بعد سوشل میڈیا پر ایسے افراد بھی ہیں جو بے حد خوش ہیں اور کھل کر ٹوئٹر پر اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ارتضا نامی صارف نے ایک مزاحیہ تصویر شئیر کی اور لکھا کہ کیسے ‘اتنی خوشی مجھے آج تک نہیں ہوئی’۔
کاشف مرزا کے مطابق تمام شراکت داروں سے سکولوں کی بندش اور امتحانات کی منسوخی کے حوالے سے مشاورت نہیں کی گئی۔ اس کے برعکس پنجاب کی صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ سب کو اس عمل میں شامل کیا گیا ہے۔
البتہ طلبا اس اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ آخر اس پالیسی کا اطلاق ہوگا کیسے؟
اور تب تک سوشل میڈیا پر میمز اور منفرد ٹرینڈز کا سلسلہ جاری رہے گا۔