سائنس

فیس بک سپریم کورٹ: وہ ادارہ جو مارک زکربرگ کی بھی نہیں سنے گا

Share

کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ آپ نے فیس بک یا انسٹا گرام پر کوئی پوسٹ شئیر کی ہو اور آپ کی وہ پوسٹ ہٹا دی گئی ہو؟ یقیناً ہم میں سے اکثر کے ساتھ کبھی نہ کبھی ایسا ضرور ہوا ہے۔ یوں تو یہ شکایات سننے کے لیے فیس بک کا اپنا نظام موجود ہے لیکن ہر کوئی اِس سسٹم سے مطمئن نظر نہیں آتا۔

فیس بک پر کونسا مواد رہنے دیا جائے اور کونسا ہٹایا جائے اِس بارے میں بحث نہ صرف متنازعہ بلکہ پیچیدہ بھی ہے۔ لیکن اب ان مسائل سے نمٹنے کے لیے فیس بک نے ایک ایسا نظام بنانے کا ارادہ کیا ہے جو ادارے کی انتظامیہ سے بھی بالاتر ہو گا۔

یہ آزاد بورڈ جسے کچھ لوگ ’فیس بک سپریم کورٹ‘ کا نام دے رہے ہیں فیس بک اور اس کے بانی اور چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ کے فیصلوں کو رد کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔

اسے ’کانٹینٹ اوورسائٹ بورڈ‘ کا نام دیا گیا ہے جس کے ابتدائی 20 ممبران میں ڈیجیٹل حقوق کی سرگرم پاکستانی کارکن نگہت داد بھی شامل ہیں۔

کانٹینٹ اوورسائٹ بورڈ کیا ہے؟

فیس بک

فیس بک کے مطابق بورڈ نفرت پر مبنی مواد، ہراسانی اور عوام کے تحفظ جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرے گا۔ اوورسائٹ بورڈ میں دنیا بھر سے انسانی حقوق کے کارکن، آئینی و قانونی ماہرین اور ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹس شامل کیے گئے ہیں۔

یہ افراد فیس بک اور انسٹاگرام پر مواد شامل کرنے یا اسے ہٹانے کے بارے میں فیصلے کریں گے جس پر فیس بک عمل کرنے کا پابند ہو گا۔

بورڈ کے فیصلے اور ان پر عملدرآمد 90 دن کے اندر کیا جائے گا جبکہ مخصوص حالات میں فیس بک 30 دن کی نظرثانی کی درخواست کر سکتا ہے۔ بورڈ ممبران فیس بک کو پالیسی سفارشات بھی دے سکیں گے جس کا جواب کمپنی عوامی سطح پر دینے کی پابند ہو گی۔

بورڈ کیسے کام کرے گا؟

فیس بک

پاکستانی ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹ نگہت داد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نگرانی بورڈ سوشل میڈیا صارفین کو فیس بک اور انسٹاگرام پر مواد کو جانچنے کے طریقہ کار کے بارے میں واضح اور آسان انداز میں معلومات فراہم کرے گا۔

’روایتی فیس بک اپیل سسٹم کے مقابلے میں اوورسائٹ بورڈ کے ممبران مکمل آزاد ہیں اور وہ فیس بک کے ملازم نہیں۔ ابتدا میں ایسے سوشل میڈیا صارفین بورڈ میں اپیل دائر کر سکیں گے جن کا مواد فیس بک نے اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا ہے۔ اس کے بعد ہم صارفین کو یہ اختیار بھی دیں گے کہ وہ کسی مخصوص مواد کو فیس بک سے ہٹانے کی درخواست دے سکیں۔‘

نگہت داد کے مطابق اوورسائٹ بورڈ فیس بک کی جانب سے اپنے پلیٹ فارم پر موجود مواد کے بارے میں کیے جانے والے فیصلوں پر بھی نظرثانی کرے گا۔ اس دوران بورڈ یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ آیا یہ فیصلے اظہار رائے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی ضابطوں اور فیس بک اور انسٹا گرام کے قوانین کے مطابق ہیں یا نہیں۔

’بورڈ کی کوشش ہو گی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ فیس بک بین الاقوامی انسانی حقوق کے ضابطوں کی پاسداری کرے جس کا مطلب یہ ہے کہ بورڈ فیس بک کو اپنے قوانین پر نظرثانی کرنے یا ہٹائے گئے مواد کو دوبارہ بحال کرنے کی ہدایات بھی دے سکتا ہے۔‘

کام آسان نہیں!

نگہت داد

فیس بک کے ہیڈ آف گلوبل افیئرز نک کلیگ نے خبر رساں ادارے رؤئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا صارفین کو فی الحال اپنی توقعات کو محدود رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ بورڈ کو اپنی ساکھ بنانے میں وقت لگے گا۔

‘میں نہیں چاہتا کہ لوگ یہ امید کرنا شروع کر دیں کہ اپنے آغاز سے ہی یہ بورڈ کامیابی کے سفر پر چل پڑے گا۔ ایسا صرف اس وقت ممکن ہوگا جب آنے والے ماہ و سال میں بورڈ انتہائی حساس نوعیت کے کیسز سننا شروع کرے گا۔’

نگہت داد کے مطابق بورڈ ممبران کو احساس ہے کہ انھیں ابتدا سے ہی کئی ہزار درخواستیں موصول ہوں گی جن سب پر نظرثانی ممکن نہیں ہوگی۔

‘بورڈ ایسے کیسز کو ترجیح دے گا جو یا تو ایک سے زائد صارفین کو متاثر کر رہے ہوں گے، رائے عامہ کے لیے اہم ہوں گے یا پھر فیس بک کی پالیسیوں پر سوال اٹھا رہے ہوں گے۔

فی الحال بورڈ انتہائی اہم درخواستوں پر نظرثانی کرے گا جس کے بعد فیصلے کیے جائیں گے اور ان فیصلوں کے پیچھے کارفرما سوچ کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا جائے گا۔’

تبدیلی کا ذریعہ

نگہت داد

نگہت داد پرامید ہیں کہ فیس بک کا ‘کانٹینٹ اوورسائٹ بورڈ’ تبدیلی کا ذریعہ بنے گا اور انھیں فخر ہے کہ وہ اس تبدیلی کا حصہ ہیں۔

‘میری رائے میں آزاد اور شفاف آن لائن کمیونٹیز عوام کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ بھی کرتی ہیں۔ اور یہ بے انتہا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو یقین ہو کہ وہ اپنی بات بلا خوف و خطر کر سکتے ہیں۔’

فیس بک انتظامیہ نے نگرانی بورڈ کے لیے اگلے چھ برسوں میں 130 ملین ڈالرز مختص کیے ہیں اور یہ اس سال کے اواخر میں کام شروع کرے گا۔ مستقبل میں بورڈ ارکان کی تعداد 20 سے بڑھا کر 40 کر دی جائے گی۔

ماہرین کے مطابق ‘فیس بک اوورسائٹ بورڈ’ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ کیا وہ کوئی ایسا فیصلہ کر سکے گا جو فیس بک کے مالی مفادات سے متصادم ہو اور یہی بات اس بورڈ کی ساکھ کا تعین کرے گی۔