اقوام متحدہ کی غریب ممالک میں کووڈ-19 سے جنگ کیلئے6.7 ارب ڈالر تعاون کی اپیل
اقوام متحدہ نے حکومتوں، کمپنیوں اور ارب پتی افراد سے درخواست کی ہے کہ غریب ممالک میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کے لیے فوری طور پر 6 ارب 70 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے، ساتھ ہی خبردار کیا ہے کہ ناکامی کی صورت میں بھوک، وبا، قحط اور مزید کشیدگی پھیلے گی۔
اقوام متحدہ کے سماجی ادارے کے سربراہ مارک لووکوک کا کہنا تھا کہ کووڈ-19 نے اب ہر ملک اور دنیا میں تقریباً ہرکسی کو نشانہ بنایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے 25 مارچ کوابتدائی طور پر 2 ارب ڈالر کی اپیل میں اضافہ کیا جارہا ہے کیونکہ پہلے ہی سرمایے میں کمی، روزگار کے خاتمے، خوراک کی فراہمی میں تنزلی، قیمتوں میں اضافہ اور بچوں کے خوراک اور ویکسین کے ختم ہونے کے شواہد آگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں اگلے 3 یا 6 مہینوں میں وبا کے عروج پر پہنچنے کا امکان نہیں ہے۔
لووکوک نے ویڈیو بیان میں اپیل کرتے ہوئے کہا کہ غریب ترین ممالک کو دوہرے کووڈ-19 کا صحت پر اثر، عالمی معاشی بحران اور وائرس کو روکنے کے لیے مقامی سطح پر کئے گئے اقدامات سے پڑنے والے اثرات کاسامنا ہے۔
دنیا کو خبردار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس مسئلے، بھوک، غربت اور بیماری کے بڑھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور ساتھ معاشی سرگرمیاں، برآمدات، بیرونی سرمایہ، سیاحت اور صحت کا نظام دباؤ میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن اور معاشی اثرات کا مطلب یہ ہے کہ بھوک کی وبا کروڑوں افراد کی منتظر ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے کاکہنا تھا کہ سال کے آخر تک 26 کروڑ 50 لاکھ افراد کو قحط سے بچانے کے لیے دو بنیادی راستے ہیں جن میں پہلا پیسے کی فراہمی اور سپلائی چین کی رسد کو آسان بنانا۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ نے امیرممالک سے ہر وقت فنڈنگ جاری رکھنے کی درخواست کی ہے لیکن وبا ایک مرتبہ کا بحران ہے اور تباہی مچادی ہے اس لیے امیر ترین لوگوں اور امیر ترین کمپنیوں سے امداد فراہم کرنے کی اپیل کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
ڈیوڈ بیسلے نے کہا کہ میرا مطلب چند لاکھ کی نہیں بلکہ میں کروڑوں اور اربوں ڈالرز کی بات کررہا ہوں۔
انہوں نے دنیا بھر میں سپلائی چین کے جمود کو بھی توڑنے پر زور دیا اور کہا کہ اقوام کو یقین کرلیناچاہیے کہ ہم نے برآمد اور درآمد پر پابندی عائد نہیں کی، سرحدوں کی معطلی، بندرگاہوں کی بندش اور تقسیم کے مقامات پر پابندی نہیں لگائی۔
معاشی پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چند ممالک نے برآمد پر پابندی عائد کردی ہے جس سے غذائی اجناس کی فراہمی میں بدترین اثر پڑرہا ہے۔
ڈیوڈ بیسلے نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر افریقہ کے شہری علاقوں میں نوجوان کورونا وائرس کے معاشی اثرات کے باعث روزگار کھوبیٹھتے ہیں تو ان کے پاس مداوا کے لیے بینک اکاؤنٹ بھی نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے پاس خوراک بھی نہیں ہے تو وہ احتجاج، تصادم، کشیدگی اور توڑ پھوڑ کریں گے جس کا خمیازہ دنیا کو حقیقت تسلیم کرکے فوری اقدامات کرنے کے مقابلے میں دیر کرنے سے سو گنا زیادہ بھگتناپڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر دنیا نے معقول فنڈنگ نہیں کی تو اس سے تباہی ہوگی۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے کہا کہ ہم ایک متناسب شرح سے قحط کا سامناکررہے ہیں اور اگر ہم نے کچھ نہیں کیا تو قحط چ نہیں سکتے اور کچھ کرنے کا وقت اب ہے۔
اقوام متحدہ کے سماجی ادارے کے سربراہ مارک لووکوک نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ابتدائی 2 ارب ڈالر کی اپیل میں اب تک ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جس میں یورپ جرمنی، برطانیہ، یورپی یونین کمیشن کے علاوہ جاپان، خلیج فارس، کینیڈا اور دیگر ممالک کا تعاون بھی شامل ہے۔
اس اپیل میں مزید 9 غریب ممالک کو شامل کیا گیا ہے جس کے بعد یہ تعداد 54 ہوئی ہے جبکہ ابتدائی طور پر بینن، ڈی جبوتی، لائبیریا، موزمبیق، پاکستان، فلپائن، سیرالیون، ٹوگو اور زمبابوے شامل تھے۔
لووکوک کا کہنا تھا کہ اس فہرست میں مزید ممالک کو ممکنہ طور پر شامل کرنے کے لیے جائزہ لیا جارہا ہے۔