راولپنڈی پولیس میں پہلی بار خواجہ سرا پولیس اہلکار بھرتی
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر راولپنڈی میں پہلی بار ایک خواجہ سرا پولیس اہلکار کو بھرتی کیا گیا ہے جو اگلے چند روز میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔
راولپنڈی پولیس کے حکام کے مطابق ریم شریف نامی خواجہ سرا کو تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد بھرتی کیا گیا ہے۔
راولپنڈی پولیس ہیڈ کوارٹر کے ایک اہلکار محمد ارشد کے مطابق ریم شریف کی بھرتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد اُنھیں پولیس سٹیشن میں آنے والے لوگوں اور خاص طور پر خواجہ سراؤں کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے تربیت بھی دی گئی ہے۔
اہلکار کے مطابق ریم شریف کی تعیناتی راولپنڈی میں واقع خواتین پولیس سٹیشن میں کی جائے گی۔
اہلکار کے مطابق اس پولیس سٹیشن میں خواجہ سراؤں کے مسائل کو سننے کے لیے راولپنڈی پولیس کے اعلیٰ حکام نے ایک علیحدہ سے ڈیسک بنایا ہے تاکہ وہاں پر ان کے مسائل کو سنا جا سکے۔
راولپنڈی پولیس ہیڈ کوارٹر کے اہلکار کے مطابق عمومی طور پر جو پولیس اہلکار اپنی ذمہ داریاں ڈیسک پر ادا کرتے ہیں ان کا بنیادی پے سکیل 14واں ہوتا ہے۔
اہلکار کے مطابق ریم شریف کو بھی وہی یونیفارم دیا جائے گا جو وویمن پولیس سٹیشن میں تعینات خواتین پولیس اہلکاروں نے زیب تن کیا ہوتا ہے۔
پولیس اہلکار کے مطابق ریم شریف ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لیے بڑے سرگرم رہے ہیں۔ راولپنڈی کے ضلعی رابطہ آفس کے ایک اہلکار تنویر کے مطابق اس وقت ضلعے میں خواجہ سراؤں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے۔
سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے پولیس میں خواتین پولیس سٹیشن بنانے کی منطوری دی تھی اور راولپنڈی میں خواتین کا پہلا پولیس سٹیشن قائم کیا گیا جبکہ اس سے پہلے ہر تھانے میں دو خواتین پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا تھا۔
سینٹرل پولیس آفس صوبہ پنجاب کے شعبہ تعلقات عامہ کے ایک اہلکار محمد وقاص کے مطابق صوبے کے باقی صوبوں میں واقع خواتین پولیس سٹیشنز میں بھی مرحلہ وار خواجہ سراؤں کو بھرتی کیا جائے گا۔
شی میل رائٹس آف پاکستان کی سربراہ الماس بوبی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جو آخری مردم شماری ہوئی تھی اس کے مطابق پورے ملک میں خواجہ سراوں کی تعداد ساڑھے دس ہزار کے قریب ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ہزاروں ایسے افراد کو خواجہ سراؤں کی صف میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو خواجہ سرا کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔
الماس بوبی کے مطابق جو لوگ چراہوں اور سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں، وہ خواجہ سرا نہیں ہیں۔
پاکستان میں خواجہ سراؤں کی شناخت کے لیے سنہ 2009 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی یعنی نادرا کو مذکورہ افراد کے شناختی کارڈ بنانے کا حکم دیا تھا اور ان کے لیے شناختی کارڈ میں خواجہ سرا کا الگ سے ایک خانہ بنایا گیا تھا۔
سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد شناختی کارڈ جاری کرنے کا معاملہ کچھ دیر کے لیے التوا کا شکار ہو گیا تھا تاہم سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دوبارہ نادرا کے حکام کو خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے احکامات دیے تھے۔