پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد دو ہفتے قبل 9000 کے قریب تھی اور اب 30000 سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ یکم اپریل سے کووڈ 19 سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً ایک ہزار نئے مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ ‘اگر حفاظتی تدابیر نہ اختیار کی گئیں تو جولائی کے وسط تک پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔’ اس کے بعد ان میں اضافہ ہو گا یا کمی واقعہ ہو گی وہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوں گے۔
ڈاکٹروں اور طبی ماہرین کو ڈر ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ملک میں صحت کا نظام اس بوجھ کو برداشت نہیں کر پائے گا کیونکہ پاکستان میں تمام تر سرکاری ہسپتالوں کو ملا کر بھی تو مریضوں کی اتنی گنجائش نہیں۔
کورونا کے تمام متاثرین کو ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں ہو گی لیکن اگر ان میں سے نصف یا ایک چوتھائی افراد بھی ہسپتال آ گئے تو کیا ان کے لیے وہاں جگہ ہوگی بھی یا نہیں؟
کراچی کے شہری ڈاکٹر فرقان الحق کا حال ہی میں کورونا سے اپنے گھر پر انتقال ہوا۔ انھیں ہسپتال کا بستر نہیں مل پایا تھا۔ ان کی اہلیہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ ‘ اپنے شوہر کو خود اسٹریچر پر ڈال کر ہسپتال لے کر گئیں۔۔۔ انھیں بتایا گیا کہ ہسپتال میں بستر میسر نہیں۔’
پاکستان میں ڈاکٹروں نے کورونا کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کر رکھا ہے، ڈاکٹر فرقان الحق کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ان کی عکاسی کرتا ہے۔ یعنی ایک ایسا وقت جب گھر پر قرنطینہ میں رہنے والے کورونا کے مریض کو ہسپتال کی ضرورت پڑے گی اور یا تو ان کے لیے جگہ نہیں ہوگی یا انطیں وقت پر ہسپتال میں جگہ نہیں ملے گی۔
پاکستان میں موجود ہسپتالوں اور ان میں میسر سہولیات کے حوالے سے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدشات حقیقت پر مبنی ہیں۔
پاکستان کے ہسپتالوں میں کتنے بستر میسر ہیں؟
پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق مالی سال 2018 کے اختتام تک پاکستان کے ہسپتالوں میں مجموعی طور پر 132227 بستر موجود تھے جو ملک بھر کے 1279 سرکاری ہسپتالوں اور 5671 ڈسپنسریوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
آبادی کے حجم کے حساب سے صوبہ پنجاب کے 388 ہسپتالوں میں بستروں کی کل تعداد 60191 ہے۔ اس کے بعد صوبہ سندھ میں 39564 بستر، صوبہ خیبر پختونخوا میں 22154، صوبہ بلوچستان میں 7747 اور وفاقی دارالحکومت میں 2571 بستر میسر تھے۔
تاہم یہ تمام بستر کورونا کے مریضوں کے لیے مختص نہیں کیے جا سکتے۔ پاکستان کے اقتصادی سروے کے مطابق مالی سال 2017 کے اختتام تک ملک میں ہر 1580 افراد کو ہسپتال کا ایک بستر میسر تھا۔
کورونا کے مریضوں کے لیے کتنے بستر دستیاب ہیں؟
پاکستان میں اوسطاً ہر 1580 مریضوں کے لیے ایک بستر موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ابتدا میں تمام تر ہسپتالوں کے اندر کورونا کے مریضوں کے لیے محض 1122 بستر مختص کر پایا۔ مریضوں کی بڑھتی تعداد کے پیشِ نظر اس تعداد کو بڑھا کر تین ہزار سے زیادہ کیا گیا لیکن وہ بھی کم پڑ گئی۔ اس کے بعد عارضی فیلڈ ہسپتال قائم کیے گئے۔
اسی طرح صوبہ سندھ میں حکومت نے تمام اضلاع میں فیلڈ ہسپتال قائم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ فیلڈ ہسپتالوں میں میسر بستروں کی تعداد کو ملا کر اس وقت پاکستان میں کورونا کے مریضوں کو دستیاب ہسپتال کے بستروں کی تعداد 19 ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔
کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کا تناسب کیا ہے؟
15 فروری سے 15 مارچ تک ایک ماہ کے دوران پاکستان میں کورونا کے صرف 50 کے قریب مصدقہ مریض تھے۔ اگلے پندرہ روز میں یہ تعداد لگ بھگ 2000 اور اس سے اگلے پندرہ روز میں تقریباً 6000 تک پہنچ چکی تھی۔
مریضوں میں اضافے کی یہ شرح دوگنی سے زیادہ تھی جو آنے والے دنوں میں بڑھتی رہی۔ گذشتہ دس روز میں پاکستان میں روزانہ ایک ہزار سے زیادہ افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔
اگر اسی تناسب سے مریضوں کی تعداد میں اضافہ جاری رہا ہے تو جون کے وسط تک پاکستان میں کورونا کے ایک لاکھ سے زیادہ مریض ہو جائیں گے اور اگر وبا کو نہ روکا گیا تو جولائی کے وسط تک یہ تعداد دگنی ہو جائے گی، جس کی عالمی ادارہ صحت نے پیش گوئی کر رکھی ہے۔
بستروں کی موجودہ تعداد کافی ہو گی؟
صحتیاب اور ہلاک والے افراد کو نکال دیا جائے تو پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد اس وقت بھی 20 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ وفاقی محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے تقریباً پانچ سے چھ ہزار افراد اس وقت ہسپتالوں میں جبکہ باقی کو قرنطینہ مراکز میں رکھا گیا ہے۔
یاد رہے کہ صحتیاب ہونے والے افراد میں ایک بڑی تعداد اُن زائرین کی تھی جو ابتدا میں ایران سے آئے تھے۔ آنے والے دنوں میں قرنطینہ مراکز سے کتنے افراد صحتیاب ہوتے ہیں اور کتنے لوگوں کو ہسپتالوں میں بھیجنے کی ضرورت پڑتی ہے، یہ ابھی معلوم نہیں۔
یہ بھی نہیں معلوم کہ نئے مریضوں میں ایسے افراد کی تعداد کتنی ہو گی تاہم اگر 20000 مریضوں میں 5000 کو ہسپتال کی ضرورت پڑتی ہے تو اس تناسب سے جولائی کے وسط تک دو لاکھ میں سے 50000 کورونا کے مریضوں کو ہسپتال جانے کی ضرورت ہو گی۔
اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے اگلے دو ماہ میں پاکستان کو کورونا کے مریضوں کے لیے 30000 سے زیادہ بستر درکار ہوں گے۔
کیا صوبے یہ بوجھ برداشت کر سکتے ہیں؟
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں محکمہ صحت کے مطابق تاحال کورونا کے مریضوں کے لیے 7753 بستر موجود ہیں۔ ان میں 4500 سے زائد بستر اُن فیلڈ ہسپتالوں میں ہیں جو خصوصی طور پر وبا سے نمٹنے کے لیے قائم کیے گئے تھے۔
محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کے مطابق ابتدا میں ہسپتالوں کے اندر آئسولیشن سنٹر یا ہائی ڈیپینڈنسی یونٹ کے نام سے قائم کیے گئے مقامات پر بستروں کی تعداد 1100 سے کچھ زیادہ تھی۔ اس تعداد کو بعد ازاں بڑھایا گیا تاہم حکومت کو فیلڈ ہسپتال قائم کرنا پڑے۔
اسی طرح وفاقی محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ سندھ میں کورونا کے مریضوں کے لیے 4688 بستر موجود ہیں۔ صوبائی محکمہ صحت کے مطابق ابتدا میں آئسولیشن بستروں کی تعداد 450 سے کچھ زیادہ تھی جبکہ قرنطینہ مراکز کو ملا کر بستروں کی کل تعداد 8000 کے لگ بھگ بنتی تھی۔
خیال رہے کہ پنجاب اور سندھ میں اس وقت مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو دونوں صوبوں میں انفرادی طور پر 10000 سے تجاوز کر چکی ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں صوبائی محکمہ صحت کے مطابق بستروں کی تعداد 3046 کے قریب تھی جس کو بڑھا کر اب 4093 تک لایا گیا ہے جبکہ صوبہ بلوچستان میں ابتدا میں بستروں کی تعداد 927 تھی جس کو بڑھا کر 2136 کیا گیا ہے۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مریضوں کی تعداد باالترتیب 4000 اور 2000 سے زیادہ ہو چکی ہے۔
پاکستان کتنے بستر بڑھا سکتا ہے؟
صوبہ پنجاب کے وزیرِ علٰی عثمان بزدار کی طرف سے حال ہی میں ایک پیغام میں بتایا گیا تھا کہ صوبے میں کورونا کے مریضوں کے لیے مختلف شہروں میں فیلڈ ہسپتال قائم کر دیے گئے ہیں جن میں بستروں کی تعداد 4500 ہے جسے ضرورت پڑنے پر 10000 تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
سب سے بڑا ایک ہزار سے زائد بستروں پر مشتمل فیلڈ ہسپتال لاہور کے ایکسپو سنٹر میں بنایا گیا تھا جو اس وقت آدھے سے زیادہ بھر چکا ہے۔
اسی طرح صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں 1200 بستروں پر مشتمل ایک فیلڈ ہسپتال ایکسپو سنٹر میں پاکستانی فوج کی مدد سے تیار کیا گیا تھا جبکہ سندھ حکومت نے صوبے کے مختلف اضلاع میں 10000 بستروں کی مجمموعی گنجائش کے فیلڈ ہسپتال قائم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اسی طرح خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے بھی فیلڈ ہسپتال بناے کا اعلان کر رکھا ہے۔
کیا فیلڈ ہسپتال آسان حل ہے؟
پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم زیادہ تر فیلڈ ہسپتالوں میں تاحال معمولی سے درمیانے درجے کے بیمار کووڈ 19 کے مریضوں کو رکھا جا رہا ہے۔ زیادہ علیل ہونے والے مریضوں کو ہسپتالوں میں قائم آئی سی یو میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ تاہم آنے والے دنوں میں یہ صورتحال بدل سکتی ہے۔
تاہم معمولی نوعیت کے مریضوں کی مناسب دیکھ بھال کو یقینی بنانے کے لیے لگ بھگ ہر 30 بستروں کے لیے 84 ڈاکٹروں کی ضرورت ہوتی ہے جو چھ چھ گھنٹوں کے دورانیے میں کام کرتے ہیں۔ یعنی فیلڈ ہسپتالوں کے لیے حکومتوں کو نئے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف بھرتی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
لاہور کے ایکسپو سنٹر ہسپتال کے لیے بھی نئے ڈاکٹر بھرتی کیے گئے تھے۔ تاہم اسی فیلڈ ہسپتال میں موجود مریضوں نے حال ہی میں مسلسل دو روز ہسپتال سے گندگی نہ اٹھانے اور ناقص سہولیات کی فراہمی پر انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا تھا۔