’بھوک سے ایک انسان مرے تو المیہ ہے۔ دس لاکھ مر جائیں تو محض اعداد ہیں‘ ( جوزف اسٹالن)۔
انفرادی موت زخم اور اجتماعی موت مرہم۔ یعنی درد کا حد سے گذر جانا دوا ہو جانا۔
میں نے پارٹیشن دیکھی نہیں بس کہانیاں سنی ہیں کہ بیس لاکھ انسان قتل اور لگ بھگ ایک کروڑ بے گھر ہوئے۔ جن پر گزری وہ واقعات سناتے ہوئے ذرا بھی افسردہ نہیں ہوتے۔ ان کی گفتگو میں بس یہ خلش جھلکتی ہے کہ جو ہوا اچھا نہیں ہوا۔ البتہ سننے والوں کی آنکھیں آج بھی کہیں نہ کہیں اشک بار ہو جاتی ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ اس کا عملی جواب مجھے آٹھ اکتوبر 2005 کو ملا جب 40 سیکنڈ کے زلزلے نے زمین الٹ دی۔
اسلام آباد کے مارگلہ ٹاورز سے خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر تک گری ہوئی عمارتیں، ملبے میں پھنسی ان گنت لاشیں، کراہتے ہوئے بے شمار زخمی، بھانت بھانت کی سینکڑوں ریسکیو ٹیمیں، راشن اور کمبل لینے والوں کی قطاریں، 24 گھنٹے آپریشن میں مصروف خیمہ ہسپتالوں کے سرجن، ڈاکٹر، رضاکار۔
بربادی و بے بسی کی حکمرانی مگر سوگ کو سناٹا نگل گیا تھا اور آنسو سہم کر آنکھوں کے اندر ہی کہیں دبک گئے تھے۔
کون کس سے کس کی تعزیت کرے؟ کسی کے دو، کسی کے پانچ کسی کے دس گزر گئے۔ کس کی چھت سلامت رہی کہ دوسرے کی بے گھری پر ترس کھائے۔
نفسا نفسی و اجتماعیت، انسانیت و سفاکی، ہمدردی و بے حسی سب گڈمڈ اور موت اعداد کے سانچے میں ڈھل رہی تھی۔ اجل کے میٹر سے ہندسے گر رہے تھے۔
آج پندرہ برس بعد بھی آپ بالاکوٹ، گڑھی حبیب اللہ یا مظفر آباد جائیں تو کوئی خود سے پندرہ برس پہلے گذر جانے والے المیے پر بات نہیں چھیڑتا۔ بہت ہی کریدیں تو زیادہ سے زیادہ یہ شکوہ ہوتا ہے کہ سرکار نے بحالی کے جو وعدے کئے وہ پورے نہیں ہوئے۔ لوگ اپنے پیاروں کے تفصیلی ذکر سے بچتے ہیں۔ کہیں پندرہ برس میں جمنے والا کھرنڈ رسنے نہ لگے۔
آج کا کراچی دیکھ کے کسی اجنبی کو گمان تک نہیں گذرتا کہ اس شہر نے کم ازکم بیس برس تک روزانہ کتنی لاشیں اٹھائیں ہوں گی۔ جب 1985 میں ایک طالبہ بشری زیدی کی ایک وین تلے کچلے جانے کی خبر آئی تو پورا شہر غم و غصے سے بھر گیا۔ اخبارات حکومت کے پیچھے پڑ گئے۔
مگر اس کے بعد کے برسوں میں 35 ہزار مرے کہ 40۔ ان کی موت نے اعداد کی چادر اوڑھ لی۔ جس دن خبر آتی کہ آج صرف دس لوگ قتل ہوئے اس روز کو لوگ ایک پرامن دن سمجھتے۔ 20 سے زائد کی خبر ہی دو کالمی اور 50 سے زائد کی خبر ہی شہہ سرخی بننے کی مستحق قرار پاتی۔
یہی کچھ موجودہ وبا میں بھی ہو رہا ہے۔ فروری کے آخری ہفتے میں جب پاکستان میں کورونا کے پہلے مریض کا پتہ چلا ہے تو پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر دن بھر یہ مریض موضوع بنا رہا اور حکومت کو بھی صرف ایک مریض سامنے آنے پر سائیکلو اسٹائیل تسلی دینا پڑی کہ حالات قابو میں ہیں گھبرانا نہیں ہے۔
آج جب خبر آتی ہے کہ پچھلے چوبیس گھنٹے میں ملک میں کورونا کے تقریباً دو ہزار نئے مریض سامنے آئے ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ کل کی چالیس اموات کے برعکس آج صرف چوبیس ہوئی ہیں تو یہ سب جسم میں کوئی سنسنی یا اطمینان پیدا نہیں کرتا۔
جوں جوں وقت گزر رہا ہے ہر مریض اور ہر موت اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کا ایک اور نامعلوم صفر بن رہی ہے۔
جب پہلے ایک سو لوگ کورونا پازیٹو نکلے تو لاک ڈاؤن ہو گیا اور شہروں میں سناٹا چھا گیا۔ اب تعداد تیس ہزار سے اوپر نکل رہی ہے تو حکومت بے خوف ہو کر لاک ڈاؤن اٹھا رہی ہے اور لوگ بازار بھر رہے ہیں۔
شروع شروع کے دنوں میں سوشل آئسولیشن کی کسی حد تک حکمرانی تھی۔ آج سوشل آئسولیشن ہی آئسولیٹ ہو گئی ہے۔
ابتدائی دنوں میں مقابلہ موت اور زندگی کا بتایا جا رہا تھا۔ آج کہا جا رہا ہے کہ دنگل زندگی اور بھوک کے درمیان ہے۔ آپ وائرس سے مرنا پسند کریں گے یا بھوک سے؟ یعنی انسان نے کتنی تیزی سے نیا نارمل قبول کر لیا۔
جیسے زلزلے کے بعد متاثرہ لوگوں نے اپنی اداسیوں کو تالا لگا کر ایک ڈیڑھ ماہ بعد کاروبارِ حیات کھول لیا کیونکہ زندہ رہنے والوں کو تو بہرحال زندہ رہنا ہے۔
مگر کسی اور قدرتی و انسانی آفت اور موجودہ آفت میں ایک بنیادی فرق ہے۔ زلزلہ ایک بار آیا اور تھم گیا، جتنے مرنے تھے مر گئے۔ کراچی میں ایک خونی دور آیا مگر اسے جاری رکھنا اور روک دینا انسان کے بس میں تھا۔
سو جنھوں نے سوئچ آن کیا تھا انھوں نے ہی سوئچ آف کر دیا۔ تاہم کورونا ایک مسلسل غیر محسوس زلزلہ ہے اور اس کا سوئچ کہاں ہے؟ دنیا اب تک ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہی ہے۔
لیکن پیٹ تو اندھا ہے اور ہم سب اس اندھے کی گھومتی لاٹھیاں۔