Site icon DUNYA PAKISTAN

وبا پر یقین نہ کرنے کے بارے میں

Share

اس سے پہلے کہ کراچی یونیورسٹی کے کسی زبدۃ العلما طالب علم کے سفال تحقیق میں طوفان اٹھے، مسافر اقرار کرتا ہے کہ یہ عنوان آرتھر کوئسلر کے مضمونOn Disbelieving the Atrocities سے اخذ کیا ہے۔ آرتھر کوئسلر کو عام طور سے ناول نگار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ظلمتِ نیم روز (Darkness at Noon) ان کا شہرہ آفاق ناول ہے۔ 1904میں پیدا ہونیوالے اس آسٹرین دانشور دانشوکا اصل میدان فلسفہ سائنس اور سیاسی سماجیات تھے۔ 1940کے لگ بھگ ہٹلر کے نازی عقوبت خانوں کی دہشت ناک خبریں پھیلنے لگیں۔ امریکہ سمیت اتحادی ممالک میں اہلِ دانش کی اکثریت نے ہولو کاسٹ کی تفصیلات کو جنگی پروپیگنڈہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ آرتھر کوئسلر نے تو جنوبی فرانس کے بدنامِ زمانہ کیمپ ورنے میں قید کاٹ رکھی تھی۔ اس نے ذاتی تجربے کی روشنی میں لکھا کہ ظلم، ناانصافی، تشدد اور آفت ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو انسان ذاتی دفاع کے اضطراب میں حقیقت سے انکار پر مائل ہو جاتے ہیں، کمرے میں موجود ہاتھی سے انکار کرتے ہوئے دروازے کے نقش و نگار کی تحسین میں پناہ لیتے ہیں۔ سوویت یونین میں اشتراکی تجربے کے نقطہ عروج پر منحرف روسی دانشور ریاستی جبر پر تنقید کرنے سے پہلے کارل مارکس اور لینن کی توصیف میں تشبیب لکھنا نہیں بھولتے تھے۔ ہم عصر ایران میں استبداد پر انگلی اٹھانے والے بھی فروری 1979ءکے بنیادی حقائق کا تجزیہ نہیں کرتے۔ چین میں ثقافتی انقلاب کی پوری حقیقت بیان کرنے کیلئے ملک بدر ہونا پڑتا ہے۔ عبداللہ حسین نے لکھا، ’یہ منزلوں کا کوچ ہے جو فراموشی کی طرف رواں ہے، یاد کی رحم دلی ہے کہ منزل منزل پر ہمارا ساتھ چھوڑتی رہتی ہے‘۔ مسافر کہتا ہے کہ نہیں، انسان کی تخلیقی کاوش تین نقطوں سے عبارت ہے، ظلم کی یادداشت، موجود کا جشن اور فردا کا خواب۔

خود اپنے ہاں دیکھیے۔ المیہ مشرقی پاکستان کے بعد ریاست نے عوام کے خلاف دو بڑے جرائم کیے۔ مذہبی انتہا پسندی کی آبیاری کی اور کراچی میں لسانی سیاست کا پودا لگایا۔ گزشتہ چالیس برس میں دنیا کے کسی ملک نے، کولمبیا کے استثناکے ساتھ، زمانہ امن میں اتنی جانیں قربان نہیں کیں جتنی قیمت اہلِ پاکستان کو ادا کرنا پڑی۔ ہم ایسے گانٹھ کے پورے ہیں کہ 15جون 2014کی صبح ہم نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی شروع کی اور سہ پہر تک کم از کم سرکاری اعلامیے میں اس کا نام و نشان مٹا ڈالا۔ یہ آئے روز وزیرستان میں ہمارے بیٹے نامعلوم کون شہید کر رہا ہے۔ تیس برس تک کراچی میں خون کی ہولی نے عروس البلاد کی ایک نسل مٹا ڈالی، تہذیب تباہ کر دی۔ 21اگست 2016ءکی رات تک ہمیں منزل نہیں، رہنما چاہئے تھا۔ 22اگست کی صبح نمودار ہوئی تو کراچی کی دیواروں سے دیو کا سایہ غائب ہو چکا تھا۔ افلاک کے پردے پر خالد مقبول صدیقی نمودار ہو چکے تھے۔ کسی کو تابِ سوال نہیں کہ حکیم سعید اور محمد صلاح الدین کے لہو سے زمیں رنگین ہو رہی تھی تو محترم عمران اسماعیل اور فیصل واوڈا کہاں ہوتے تھے۔ شام نگر والی کٹیا میں اظہر جعفری اور مسافر مگوچیوں کے سالن اور گرم چپاتیوں سے انصاف کر رہے تھے۔ اچانک جعفری مرحوم نے عجیب تیقن کے لہجے میں کہا، اسامہ بن لادن کا کوئی وجود نہیں۔ میرا لقمہ کٹوری اور ہونٹوں کے درمیان معلق ہو گیا۔ بن لادن کو میں نے واقعی نہیں دیکھا، باجوڑ سے کچلاک اور کراچی سے لاہور تک قبرستان آباد ہوتے دیکھے ہیں۔ میں نے تو خیر کورونا وائرس بھی نہیں دیکھا۔ صرف یہ معلوم ہے کہ دنیا بھر میں دو لاکھ چوراسی ہزار تابوت اُٹھ چکے۔ سینکڑوں اموات وطنِ عزیز میں ہو چکیں۔ ان بےنام صورتوں کا شمار نہیں جو اعلان کیے بغیر خاموش بستیوں کے مکین ہو گئے۔ ہم نے نو مئی کو لاک ڈائون کے معمے میں ایک گرہ بڑھا دی ہے، بازاروں میں کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔ ناصر نے کہا تھا، شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد۔۔۔ لیکن مجھے تو علی افتخار جعفری یاد آ رہے ہیں… گریہ کرتا ہوں کہ ویران ہوئے جاتے ہیں شہر؍ محو آزار رسانی کوئی سنتا ہی نہیں۔

جمہوریت ریاست اور شہری کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم کرتی ہے۔ آمریت عوام سے اخفا اور خوف کا تعلق رکھتی ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن کے روبرو ایک بڑے صاحب نے فرمایا کہ جنہیں خوف ہے، انہیں خوف آنا چاہیے۔ موصوف مارچ 2012کے بعد پاکستان میں نظر نہیں آئے۔ خدا جانے انہیں کاہے کا خوف ہے، ان کے خلاف تو کوئی مقدمہ بھی نہیں۔ جمہوری ثقافت کی غیرموجودگی میں ایک مخصوص اجتماعی ذہن مرتب ہوتا ہے۔ چند اشارے دیکھیے۔ فرد اور اجتماع میں نرگسیت جنم لیتی ہے۔ کائنات کا مرکزہ ہماری قوم ہے اور قوم بھی کیا ہے، دراصل تو ہماری ذاتِ اقدس نے آسمان کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ ہمارے کیسے میں دھیلا نہیں، ناکردہ کاری ہماری لوح پر لکھی ہے مگر کس کے منہ میں دانت ہیں کہ ہمارا نام پوچھے۔ دوسرا یہ کہ ساری دنیا ہماری دشمن ہے۔ ہم ایسے منتخب روزگار ہیں کہ دن رات ہمارے خلاف سازشیں ہوا کرتی ہیں۔ تیسرا یہ کہ انکار حقیقت میں ہمارا ثانی نہیں۔ غلام اسحاق مرحوم کے بطخ کے بارے میں قول کو بہت شہرت ملی، فرمایا، میں نے کہہ دیا کہ بطخ نہیں تو بطخ نہیں ہے۔ افسوس کہ دنیا ایسے دعوے نہیں مانتی۔ ہماری دشمن جو ٹھہری۔ چوتھا یہ کہ ہم انصاف، حقوق، جمہوریت اور آزادی کے من مانے معنی متعین کریں گے۔ جسے ماننا ہے مانے، جسے نہیں ماننا، جہنم میں جائے۔ پانچواں یہ کہ ہم کرہ ارض پر آنکھ کی پتلی ہیں، دنیا کا فرض ہے کہ ہمارے منہ میں نوالہ ڈالے۔ ہمہ وقت کشکول اٹھائے کھڑے ہیں۔ نائن الیون ہوا تو سیاہ چشمہ صحافی نے لکھا، ڈھنگ سے سودا کیا جائے تو بہت امداد مل سکتی ہے۔ کورونا کی وبا آئی تو شیخ رشید نے یہی کہا۔ تاریخ خود کو دہرائے یا نہیں دہرائے، المیہ خود کو دہرائے جاتا ہے۔ آخری بات یہ کہ خوف کے پتھر تلے دبے ہوئے اجرامِ خاکی علت اور معلول کا تعلق سمجھنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ تدبیر کی عرق ریزی میں کون پڑے، ہمارے لیے رقت کی دولت بہت ہے۔ بہت گڑگڑاتے ہیں لیکن معیشت کی ناؤ موج صبا کے جھونکے سے لرزاں ہوئی جاتی ہے۔ اب صوبوں کے سامنے دست سوال دراز کیا ہے، دیکھیے، پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض…

Exit mobile version