قومی اسمبلی کے ورچوئل اجلاس کی بجائے اپوزیشن کے اصرار پر باقاعدہ اور باضابطہ اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ ہو گیا۔ سوموار کے سہ پہر تین بجے شروع ہونے والا، ہفتے بھر کا اجلاس عملاً تین دن ہو گا۔۔۔ سوموار، بدھ اور جمعہ۔۔۔ اور تینوں دن سہ پہر تین بجے سے شام چھ بجے تک۔
سوموار کی سہ پہر اڑھائی بجے تک (جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے) قائد حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف لاہور ہی میں تھے۔ گویا افتتاحی سیشن میں ان کی شرکت کا کوئی امکان (اور ارادہ) نہ تھا۔ بدھ اور جمعہ کے اجلاسوں میں بھی ان کی شرکت کے متعلق یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔
کیا جنابِ وزیراعظم اجلاس میں تشریف لائیں گے؟ رموزِ مملکت راحنرواں دانند۔ وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے پہلے، بنی گالہ سے قوم کے نام اپنے غیرسرکاری خطاب میں انہوں نے پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وقفہ سوالات کے دوران اپنی موجودگی کوتو وہ ہر صورت یقینی بنائیں گے۔ لیکن کئی اور وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی شاعر کے روایتی محبوب کا وعدہ بن کر رہ گیا۔
وزیراعظم صاحب کے حامی، اپوزیشن کے غیرذمہ دارانہ رویّے کو اس کا سبب ٹھہراتے۔ ان کے بقول وزیراعظم جب بھی اجلاس میں آئے، اپوزیشن نے ”سلیکٹڈ‘‘ کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وزیراعظم ایوان میں تشریف لانے کی بجائے اپنے چیمبر میں بیٹھ کر سی سی ٹی وی پر کارروائی دیکھنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔
ہمیں 2002 والی پارلیمنٹ کے اجلاس سے جنرل پرویز مشرف کا خطاب یاد آیا۔ پارلیمنٹ سے صدر کا سالانہ خطاب پارلیمانی روایت ہی نہیں، آئینی تقاضہ بھی ہے۔ پرویز مشرف تشریف لائے تو اپوزیشن نے شدید مخالفانہ نعروں سے ان کا خیرمقدم کیا۔ یہ سلسلہ ان کی پوری تقریر کے دوران جاری رہا لیکن کمانڈو صدر نے بھی ہمت نہ ہار ی! البتہ ان کی پیشانی پر پسینے کے قطرے ضرور نمودار ہوتے رہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ پسینے کے یہ قطرے پریشانی کے ہوں۔ اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ ہمیں بچپن اور لڑکپن میں کھانے کے دوران پسینہ آ جاتا تھا۔یہ سلسلہ یونیورسٹی کی دنوں تک جاری رہا۔ ہاسٹل کے میس میں ہمیں اکثر اس صورتِ حال کا سامنا ہوتا۔ یہ معاملہ اپنے پسندیدہ ترین کھانے کے دوران بھی رہتا۔ کچھ قطرے پشیمانی کے بھی ہوتے ہیں جو اللہ کو پسند ہیں۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
ہم پارلیمنٹ کے اجلاس سے صدر جنرل پرویز مشرف کے خطاب کی بات کر رہے تھے۔ انہوں نے تقریر مکمل کی اور اپوزیشن کی طرف مکے لہراتے ہوئے ایوان سے تشریف لے گئے۔ وہی بات کہ ”میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں‘‘۔ یہ پارلیمنٹ سے صدر صاحب کا پہلا اور آخری خطاب تھا۔ جناب شیرافگن وفاقی وزیر پارلیمانی امور تھے۔ صدر صاحب کے آئندہ خطاب کے بارے میں استفسار پر ان کا جواب ہوتا، صدر اس بدتہذیب اور بدتمیز اپوزیشن سے خطاب کے لیے کیوں آئیں؟ شیرافگن نیازی نے اپنی سیاست کا آغاز مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علما پاکستان سے کیا تھا۔ پھر وہ پیپلز پارٹی میں آ گئے۔ اکتوبر 2002 کا الیکشن بے نظیر کے ٹکٹ پر لڑا۔ الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی کے جو ایک درجن سے زائد ارکان ”پیٹریاٹس‘‘ ہو گئے تھے، ان میں شیرافگن بھی تھے۔ ان پیٹریاٹس کے ووٹوں کے باوجود ظفراللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہو سکے۔ سپاہ صحابہ والے اپنا احسان جتانے کے لئے دعویٰ کیا کرتے کہ یہ ووٹ مولانا اعظم طارق کا تھا۔ قومی اسمبلی کی رکنیت کے دوران ہی مولانا اعظم طارق موٹروے کے راستے اسلام آباد داخل ہوتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بن گئے تھے۔ شرافگن نیازی نے جنرل پرویز مشرف کے بدترین دنوں میں بھی وفاداری نبھائی اور عدلیہ بحالی کی تحریک کے دنوں میں ایک شام، لاہور کی مزنگ روڈ پر وکلا کے تشدد کا نشانہ بھی بنے۔ اب ان کے صاحبزادے امجد خان نیازی اب میانوالی کی اس نشست سے پی ٹی آئی کے ایم این اے ہیں۔
پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران صدر غلام اسحاق خاں اور فاروق لغاری کو بھی ”گو ،گو‘‘ کے نعروں کا سامنا ہوتا۔ البتہ صدر رفیق تارڑ، جناب آصف زرداری اور ممنون حسین صاحب اپوزیشن کے اس جارحانہ رویے سے محفوظ رہے۔
قارئین سے معذرت کہ لاک ڈائون کی گھٹن میں ہمارے قلم کی آوارہ خرامی کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے۔ ہم جناب وزیراعظم کی، ملک کے سب سے بڑے منتخب ادارے میں، آمد کی بات کر رہے تھے جو اس کی طاقت کا منبع و محور ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب خاصی باقاعدگی سے ایوان میں آیا کرتے، یہ الگ بات کہ یہ ان ہی کا دور تھا جب اپنی عددی اکثریت کے زور پر، اہم ترین آئینی ترامیم بھی بلڈوز ہوئیں اور اپوزیشن ارکان کو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے ایوان سے باہر پھینک دیا گیا۔ مفتی محمود جیسی بھاری بھرکم شخصیت کے لیے دو سارجنٹس کی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔ وزیراعظم محمد خاں جونیجو بھی خاصی باقاعدگی کا اہتمام کرتے لیکن اس حوالے سے سب سے شاندار ریکارڈ یوسف رضا گیلانی کا رہا۔ یوں بھی ہوا کہ وہ کسی غیرملکی دورے سے واپس آئے، اور ائیر پورٹ سے سیدھے ایوان کا رخ کیا۔ اس حوالے سے ہمارے میاں صاحب اور محترمہ بے نظیر صاحبہ کا ریکارڈ چنداں قابلِ رشک نہیں۔
قومی اسمبلی کا موجودہ اجلاس، کورونا کے بدترین بحران کے حوالے سے ہو رہا ہے۔ کورونا کرائسس شروع ہوا تو بلاول بھٹونے اپنی پارٹی کی طرف سے حکومت کو غیرمشروط تعاون کی پیشکش کی۔ ان کا کہنا تھا، ”سلیکٹڈ‘‘ کہنے کو بہت مدت باقی ہے۔ کورونا بحران کے اس چیلنج میں بھی ہمیں قومی اتحاد و یک جہتی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف لندن سے آخری فلائٹ پکڑ کر وطن پہنچے۔ وہ بھی حکومت کو غیرمشروط تعاون کی پیشکش کر رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے 40 ہزار انصار الاسلام کی خدمات پیش کر دیں۔ جناب سراج الحق اور سینیٹر پروفیسر ساجد میر بھی پیچھے نہ رہے۔ لیکن دوسری طرف کا رویہ کیا تھا؟ اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ کورونا کیسز (اور اس کے نتیجے میں اموات) میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر چیخ پکار کر رہے ہیں اور کوئی ان کی سننے والا نہیں۔ الٹا ان پر بھی سیاست بازی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ وفاق اور سندھ میں مستقل تصادم اور کشمکش کی کیفیت ہے۔ اور اُدھر لاک ڈائون میں نرمی کا اعلان ہے۔ حکومت کے اپنے اتحادی، چودھری برادران نیب کی 19 سال پرانی فائلیں کھلنے پر ہائی کورٹ پہنچ گئے ہیں۔ نیب نے شہباز شریف سے چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نئے کیس میں 18 مئی کو جواب طلب کر لیا ہے۔ فرزند لال حویلی، عید کے بعد نیب کے ٹارزن بننے کا اعلان کر رہا ہے، جو وکٹ کے دونوں طرف کھیلے گا۔
ادھر بلوچستان میں دہشت گردی پھر سر اٹھا رہی ہے۔ جمعے کو پاک فوج کا میجر اور پانچ فوجی ریموٹ کنٹرول دھماکے میں شہید ہو گئے۔ اور بھارتی فوج کا ایک سابق افسر سینے پر ہاتھ مار کر دہشت گردوں سے رابطے کا اعتراف کر رہا ہے۔