زبانی کلامی ’’اصول پسندی‘‘
منگل کی شام قومی اسمبلی میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی تقریر نہ سن سکا۔ مسئلہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی یا سینٹ کا اجلاس سہ پہر کے کسی وقت شروع ہو تو The Nation کے لئے پریس گیلری والا کالم لکھنے اور اسے بروقت دفتر پہنچانے کے لئے ساڑھے سات بجے کے بعد پارلیمان میں موجود رہنا میرے لئے ناممکن ہوجاتا ہے۔ گھر پہنچ کر کمپیوٹر کھولنے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔
شاہد خاقان عباسی کو کئی ہفتوں سے نیب نے گرفتار کررکھا ہے۔ان سے تفتیش بظاہرمکمل ہوچکی ہے۔ان دنوں اڈیالہ جیل میں بند ہوئے اپنے خلاف چلائے مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔قومی اسمبلی کے قواعد میں واضح طورپر یہ طے کردیا گیا ہے کہ سنگین ترین الزامات کے تحت گرفتار ہوئے رکن قومی اسمبلی کو بھی اس ایوان میں عوام کے منتخب کردہ نمائندے کی حیثیت میں موجود رہنے کا ’’حق‘‘ حاصل ہے۔اس ’’حق‘‘ کے حصول کے لئے سپیکر ایک پروڈکشن آرڈر جاری کرتے ہیں۔اس آرڈر کی تکمیل ریاست کے ہر ملازم کے لئے ضروری ہے۔
مجھے آج بھی وہ دن نہیں بھولا جب 1985میں زندگی میں پہلی بار رپورٹنگ کے لئے قومی اسمبلی کی عمارت میں داخل ہواتھا۔پریس گیلری کی جانب لے جاتی سڑھیوں کارُخ کیا تو وہاں سے ’’چھن چھن‘‘ کی آواز آرہی تھی۔ میں نے حیرت سے اس آواز کا ماخذ ڈھونڈنا چاہا تو دریافت ہوا کہ لاہور سے ایک منتخب ہوئے رکن روحیل اصغر شیخ بھی ہیں۔ وہ ان دنوں قتل کے سنگین الزام کے تحت جیل میں تھے۔اپنے عہدے کا حلف اٹھانے مگر بیڑیوں سمیت لاہور جیل سے اسلام آباد لائے گئے تھے۔پرانے لاہوری ہوتے ہوئے ہم ایک دوسرے کے شناسا تھے۔ اسمبلی کی راہداری میں روایتی جپھی کے ساتھ ان سے سرسری گفتگو بھی ہوئی تھی۔
گرفتار شدہ اراکینِ اسمبلی کو پروڈکشن آرڈر کے تحت پارلیمان کے اجلاسوں میں لانے کی روایت وطن عزیز میں کئی برسوں سے جاری ہے۔ 1985کے بعد آئی کئی حکومتوں نے اس پرعملدرآمد میں ہچکچاہٹ دکھائی۔شیخ رشید کو ’’ناجائز اسلحہ‘‘ رکھنے کے الزام میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سزا سنائی تو مرحوم نصیر اللہ بابر اور ڈاکٹر شیرافگن کے ایما پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت نے ’’سزا یافتہ مجرم‘‘ کو ایوان میں لانے سے انکارکردیا۔اس سے قبل نواز شریف صاحب کی پہلی حکومت کے دوران آصف علی زرداری کو بھی ایوان میں نہیں آنے دیا جاتا تھا۔ سپیکر قومی اسمبلی کے ان دنوں گوہر ایوب خان تھے۔ وہ پروڈکشن آرڈر جاری کرتے۔ مرحوم جام صادق علی سندھ کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں اپنے ’’قیدی‘‘ کو اسلام آباد بھیجنے سے انکار کردیتے۔ اس ضمن میں ان دنوں کے بااختیار صدر غلام اسحاق خان ان کی بھرپور سرپرستی فرماتے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران ہی چودھری شجاعت حسین صاحب کو سینٹ کے اجلاس میں لانے کے ’’جرم‘‘ میں مرحوم اقبال حیدر کو وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ یوسف رضا گیلانی ان دنوں قومی اسمبلی کے سپیکر ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے اس وقت تک اسمبلی کے اجلاس کی صدارت نہ کرنے کا فیصلہ کیا جب تک شیخ رشیدکو جیل سے ایوان میں نہیں لایا جاتا۔پروڈکشن آرڈر کے حوالے سے تماشے لہذا مسلم لیگ اور پی پی پی کی دونوں حکومتوں کے دوران جاری رہے۔
بالآخر بہت کچھ گنوانے کے بعد آئین میں اٹھارویں ترمیم کرتے وقت قومی اسمبلی کے قواعد میں صراحتاََ لکھ دیا گیا کہ سینٹ چیئرمین یا قومی اسمبلی کا سپیکر جب کسی رکن پارلیمان کی ایوان میں موجودگی کا حکم جاری کرے تو اس کی تعمیل ہر سرکاری کارندے کے لئے لازمی ہوگی۔
تحریک انصاف کی حکومت مگر اس ضمن میں روایتی لیت ولعل سے کام نہیں لیتی۔ وہ خود کو ’’تبدیلی‘‘ کا پیامبر کہتی ہے۔اس کا اصرار ہے کہ قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہیے۔ اس جماعت کی ’’انقلابی‘‘ نگاہ میں ہمارے بیشتر سیاست دان ’’چور اور لٹیرے‘‘ ہیں۔اپنے اقتدارکو انہوں نے حرام کی کمائی جمع کرنے کے لئے استعمال کیا۔یہ کمائی منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بھیجی گئی۔ وہاں قیمتی جائیدادیں خریدی گئیں۔
اگست 2018میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد عمران خان صاحب ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کا کڑا احتساب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔وہ ہرگزگوارہ نہیں کرسکتے کہ قومی خزانے کو ’’ڈھٹائی سے لوٹنے والے ڈاکو‘‘ کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار ہونے کے باوجود پارلیمان میں آئیں اور خود کو ’’معزز‘‘ دکھاتے ہوئے قوم کو ’’بھاشن‘‘دیں۔
اسد قیصر ان دنوں قومی اسمبلی کے سپیکر ہیں۔وہ اپنے ’’قائد‘‘ کو خفا کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ انہیں مگر ایوان بھی چلانا ہے۔گرفتار شدہ اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہوں تو اپوزیشن شورشرابہ مچانا شروع ہوجاتی ہے۔ایوان کی کارروائی چلانا ناممکن ہوجاتا ہے۔
اپوزیشن کو ذرامطمئن کرنے کے لئے انہوں نے حال ہی میں ’’ایہہ منظور تے ایہہ نا منظور‘‘ کی طرز پر پروڈکشن آرڈر جاری کرنا شروع کردئیے ہیں۔ان پر عملدرآمد مگر ہو نہیں پاتا۔ان کے مقابلے میں چودھری پرویزالٰہی جب بھی حمزہ شہباز کو پنجاب اسمبلی میں لانے کا حکم جاری کریں تو فوری تعمیل ہوجاتی ہے۔اسد قیصر اس کے باوجودشرمندہ نہیں ہوتے۔ اپوزیشن بھی پروڈکشن آرڈر کی دہائی مچاتے اب تھک ہوچکی ہے۔ ’’اسی تنخواہ‘‘ پر گزارہ کرنے کو تقریباََ آمادہ۔
تحریک انصاف کو نئے الیکشن کمشنر کی تعیناتی اور سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ایک اہم ترین قانون پاس کروانے کی خاطر اب اپوزیشن کے تعاون کی ضرورت ہے۔سوکھے دھان کو اس کے سبب بارش کے چند قطرے ملنے کی امید اپوزیشن کے مردہ ہوئے دلوں میں لہذا جاگ گئی ہے۔
خواجہ سعد رفیق پروڈکشن آرڈر کے تحت قومی اسمبلی میں آگئے ہیں۔ منگل کی شام یہ سہولت شاہد خاقان عباسی کو بھی میسر ہوگئی۔ سابق وزیر اعظم نے مگر ایک مختصر تقریر کے بعد اسد قیصر کو بے تحاشہ شرمسار کیا اور ایوان سے واک آ ئوٹ کرگئے۔ بنیادی طورپر ان کا اصرار یہ رہا کہ پروڈکشن آڈر کے تحت قومی اسمبلی ہی کے ایک اور رکن رانا ثناء اللہ کو ایوان میں کیوں نہیں لایا جارہا۔ ’’قانون‘‘ فیصل آباد سے منتخب ہوئے رکن اسمبلی کے لئے ’’مساوی کیوں نظر نہیں آرہا۔
پروڈکشن آرڈر کے حوالے سے اُٹھے قضیہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ تحریک انصاف کے ’’انقلابی‘‘ پیغام سے بے حد متاثر ہوئی ہمارے میڈیا کی صاف ستھری سیاست کے فروغ پر مامور بے شمار دبنگ اور مقبول ترین آوازوں نے بھی خلقِ خدا کے ایک مؤثر حصے کو اس امر پر قائل کردیا ہے کہ ’’چور اور لٹیرے‘‘ کسی رعایت کے حق دار نہیں ۔ پارلیمان کی رکنیت انہیں ’’معتبر‘‘ نہیں بناتی۔ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک روارکھنا چاہیے جو چوری چکاری کے الزامات کے تحت تھانوں اور جیلوں میں محبوس عام ’’وارداتیوں‘‘ کے ساتھ روارکھا جاتا ہے۔
خلقِ خدا کے دلوں میں جاگزیں ہوئی اندھی نفرت وعقید ت پر مبنی اس سوچ سے آپ کو اتفاق یا اختلاف کا بھرپور حق حاصل ہے۔ٹھوس اور تلخ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ اس کالم کے لکھنے تک قومی اسمبلی کے قواعد میں واضح طورپر یہ لکھا گیا ہے کہ کسی بھی الزام کے تحت گرفتار ہوئے رکن اسمبلی کو اس کے اجلاس میں شرکت کے لئے ہر صورت لایا جائے گا۔
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو مناسب اکثریت حاصل ہے۔اپنی ’’انقلابی‘‘ سوچ کو بروئے کار لانے کے لئے فی الفور قومی اسمبلی کے قواعد وضوابط طے کرنے والی کمیٹی کا اجلاس بلائے اور مذکورہ شق کو حذف کردے۔اس کے بجائے قواعد میں بلکہ صراحتاََلکھ دیا جائے کہ گرفتار ہوا رکن اسمبلی اس وقت تک ایوان میں آنے کا حق نہیں رکھتا جب تک کہ عدالتیں اسے بری نہ کریں یا کم ازکم ضمانت پر رہا نہ کردیں۔ اس ضمن میں زبانی کلامی ’’اصول پسندی‘‘ کیوں دکھائی جارہی ہے۔
ابھی تک موجود قانون کے مطابق کسی بھی الزام کے تحت گرفتار ہوئے رکن اسمبلی کو یہ ’’حق‘‘ حاصل ہے کہ وہ ایوان کے اجلاس میں شرکت کے لئے وہاں لایا جائے۔ اگراپنے ہی ایک ساتھی رکن کے لئے واضح الفاظ میں لکھے قانون پر قومی اسمبلی عمل نہیں کرواپاتی تو میرے اور آپ جیسے عامی اس ادارے کی جانب سے لاگو کئے دیگر قوانین کا اتباع کیوں کریں؟