فرانس، متحدہ عرب امارات، مصر، یونان اور قبرص کی طرف سے مشرقی بحیرہ روم اور لیبیا میں انقرہ کی پالیسیوں پر تنقید کے بعد ترکی نے منگل کو ان پانچ ملکوں پر ’برائی کی طاقتوں‘ کا اتحاد ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
انتہائی سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے ترکی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہمی اکسوے نے کہا ہے کہ ’یہ پانچ ملک مشرقی بحیرہ روم میں افراتفری اور عدم استحکام پھیلانا چاہتے ہیں اور لیبیا میں جمہوریت قائم ہونے کی امیدوں کو لا پرواہ اور جارح آمروں کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں‘۔
مذکورہ پانچ ملکوں کے وزرا خارجہ نے پیر کو ٹیلی فون پر ایک کانفرس کال کی جس میں مشرقی بحیرہ روم کی صورت حال پر غور کیا گیا جہاں ترکی تیل اور گیس کی تلاش میں سمندر کی تہہ میں کھدائی کر رہا ہے اور یہ حصہ قبرص کی اقتصادی حدود میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کانفرنس کال میں لیبیا کی صورت حال پر بھی غور کیا گیا۔
ترکی نے گذشتہ سال لیبیا کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے ساتھ فوجی تعاون اور سمندری حدود کے تعین کے بارے میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
ترکی کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت مشرقی بحیرہ روم کی وسیع سمندری حدود میں اسے بلا شرکت غیر اقتصادی حقوق حاصل ہو گئے ہیں اور اس کی منظوری کے بغیر اس حدود میں توانائی کے کسی منصوبے کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔
یونان اور قبرص نے اس معاہدے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاہدہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور ان سمندری حدود میں ان کے حق پر اثرا انداز ہوتا ہے۔
ان پانچ ملکوں نے کہا ہے کہ یہ ترکی کی طرف سے ایک سال کے اندر غیر قانونی طور پر قبرص کی اقتصادی سمندری حدود میں کھدائی کی چھٹی کوشش ہے۔ ترکی لسانی بنیادوں پر تقسیم قبرص کو ایک ریاست کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتا اور اس کی تمام سمندری حدود کو ترک سنمدری حدود تصور کرتا ہے۔
مشرقی بحیرہ روم میں تیل اور گیس تلاش کرنے والے بحری جہازوں کے ساتھ ترکی نے اپنی بحریہ کے جنگی جہازوں کو بھیجا تھا اور اس کا اصرار ہے کہ وہ ان سمندروں میں پائے جانے والے قدرتی وسائل پر اپنے اور ترک قبرص کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔
قبرص سنہ 1974 میں اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا جب ترکی نے قبرص کو متحد رکھنے کے حامیوں کی بغاوت کے بعد اس پر حملہ کر دیا تھا۔
ان پانچوں ملکوں کے وزرا نے مشترکہ بیان میں لیبیا میں ترکی کی مداخلت کی مذمت کی ہے اور ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ لیبیا کو اسلحہ فراہم کرنے سے متعلق بین الاقوامی پابندیوں کی پاسداری کرے۔ مزید براں یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ شام سے غیر ملکی جنگجوؤں کو لیبیا بھیجنے کا سلسلہ بھی بند کرے۔
ان پانچوں ملکوں نے اعلان کیا کہ یہ اقدامات شمالی افریقہ میں لیبیا کے ہمسایہ ملکوں اور یورپ کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔
ان ملکوں کے بیان کے ردعمل میں ترکی کی وزارت خارجہ نے یونان اور قبرص پر ترکی کے ساتھ مذاکرات کرنے سے گریز کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور مصر کے بارے میں کہا ہے کہ وہ اپنے عوام کے مفادات کے تحفظ میں ناکام ہے۔
متحدہ عرب امارات پر تنقید کرتے ہوئے ترک وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس نے ترکی کی مخالفت میں اس اتحاد میں شمولیت اختیار کی ہے جبکہ فرانس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ وہ غیر قانونی طور پر اس اتحاد کی سرپرستی کر رہا ہے۔
ترک وزارتِ خارجہ نے کہا کہ ‘ہم ان تمام ملکوں پر زور دیں گے کہ وہ عقل سے کام لیں اور بین الاقوامی قوانین اور طریقوں کے مطابق عمل کریں۔’
ترک وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ خطے میں امن اور استحکام ’برائی کی طاقتوں کے اتحاد‘ سے نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے ہی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
قبرص کا تنازع
1955 – قبرص والوں نے یونان کے ساتھ الحاق کے لیے برطانوی حکومت کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔
1960 – برطانیہ سے آزادی کے بعد یونانی قبرص کی اکثریت اور ترک قبرص کی اقلیت کے مابین اقتدار کی تقسیم ہوئی۔
1963 اور 1964 – فرقہ وارانہ فسادات ہوئے
1974 – قبرص کے صدر آرچ بشپ مکریوس کا تختہ یونانی فوج کے مدد سے الٹ دیا گیا۔ ترکی نے قبرص میں اپنی فوجیں بھیجیں جنھوں نے اس کے تین چوتھائی شمالی علاقے پر قبضہ کر لیا۔
1983 – رؤف دینکتاش نے شمالی قبرص کو جمہوریہ ترکی سے الگ کر دیا جسے صرف ترکی تسلیم کرتا ہے۔
2004 – منقسم قبرص نے ترک قبرصیوں کی جانب سے پیش کیے گئے اقوام متحدہ کے امن معاہدے کے بعد یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تاہم یونانی قبرصیوں نے اس کو مسترد کردیا۔