Site icon DUNYA PAKISTAN

ذہنی صحت: کوئی شخص نفسیاتی مریض یا سائیکوپیتھ کیسے بنتا ہے؟

Share

پروفیسر جیمز فیلن ایک نفسیاتی مریض ہیں اور ماہر علم الاعصاب ہونے کی وجہ سے انھوں نے حیرت انگیز طور اپنے مرض کی خود تشخیص کر لی۔

پروفیسر فیلن یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اروین کیمپس میں علم نفسیات اور انسانی برتاؤ کے پروفیسر ہیں۔ وہ ایک تجربہ کر رہے تھے جس میں وہ قاتلوں کے دماغ کے سکین کا تجزیہ رہے تھے اور کنٹرول گروپ کے طور پر اپنے خاندان کے افراد کو استعمال کر رہے تھے۔

جب انھوں نے آخری سکین دیکھا تو اس کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’یہ واضح طور پر پیتھالوجیکل ہے‘، یعنی اس میں مرض صاف ظاہر ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جب انھوں نے یہ کہا تو جو ٹیکنیشن ان کے پاس سکین لے کر آئے تھے انھیں گھورنے لگے۔

انھوں نے کہا: ‘میرا خيال تھا کہ وہ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں سمجھ گیا، تم نے ایک قاتل کو میرے اہل خانہ کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہے۔ لیکن انھوں نے جواب دیا کہ ‘یہ حقیقی ہے۔’

’اس لیے میں نے کہا کہ یہ شخص خواہ کوئی بھی ہو، اسے کھلے بندوں سماج میں گھومنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ شاید یہ بہت ہی خطرناک آدمی ہے۔ آج تک میں نے جتنے کیسز دیکھے ہیں، ان میں سب میں سے اس کے اندر سب سے خراب نفسیاتی مرض کا رجحان ہے۔‘

‘اس لیے میں نے وہ ٹیگ کھینچا جس پر نام لکھا ہوا تھا۔۔۔ اور پتہ چلا کہ وہ میں ہی ہوں۔’

کیا تمام ذہنی مریض خطرناک ہوتے ہیں؟

پروفیسر جم کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس میں سات افراد پر قتل کے الزامات لگ چکے ہیں

لیکن فیلن نے کبھی کوئی قتل نہیں کیا ہے اور خود کو وہ ایک ‘اچھا انسان’ کہتے ہیں۔ تو پھر وہ کس طرح ایک سائیکوپیتھ یا ذہنی مریض ہو سکتے ہیں۔

وہ کہتہے ہیں: میں سماج نواز سائیکوپیتھ ہوں۔ میرے اندر سماج مخالف مجرمانہ خصلت نہیں ہے [جیسا کہ بعض میں ہوتی ہے]۔

ایک اندازے کے مطابق ہر سو میں سے ایک شخص سائیکوپیتھ ہوتا ہے۔

ہر چند کہ بہت سے پرتشدد مجرم اس زمرے میں آتے ہیں لیکن فیلن کے معاملے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر سائیکوپیتھ پرتشدد نہیں ہوتا۔

تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوگ پیدا ہی سائیکوپیتھ ہوتے ہیں یا پھر اس کا تعلق ان کی پرورش سے ہے؟

سائیکوپیتھ والا دماغ

دماغ کے سکین سے پتہ چلا ہے کہ پر تشدد سائیکو پیتھ اور غیر سائیکو پیتھ کے دماغ میں کیا فرق ہوتا ہے

دماغ کے سکین سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ پرتشدد سائیکوپیتھ اور غیرسائیکوپیتھ کے دماغ کے بعض حصوں میں مختلف سرگرمی ہوتی ہے۔

پرتشدد سائیکوپیتھ کے دماغ کے سامنے والے حصے میں گرے (سرمئی) مادہ کم ہوتا ہے جو کہ لوگوں کے جذبات کو سمجھنے کے لیے اہم تصور کیا جاتا ہے۔ یہ حصہ اس وقت حرکت میں آتا ہے جب ہم اخلاقیات پر سوچنے لگتے ہیں۔

سائیکوپیتھ کے دماغ میں ایمگڈالا یعنی لوزہ کا حصہ واضح طور پر کم ہوتا ہے اور یہ حصہ عام طور پر خوف کے احساس سے جڑا ہوتا ہے۔

اگر کم عمری میں ان فرق یا اختلافات کو دیکھا جا سکے تو اس سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ سائیکوپیتھ ہونے کی بنیاد جینیاتی ہے۔

لیکن اگر ہم دماغ کو ایک عُضلہ یا پٹھا تصور کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سائیکوپیتھ اس حصے کو مشق کروانے میں ناکام رہتے ہیں جس سے ان میں نسبتاً کم سرگرمی ہوتی ہے اور یہ تربیت یا ماحول کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

فیلن کے خاندان کی مثال لے لیں۔

خاندان میں ذہنی مریض

لیزی بورڈن کو سنہ 1893 میں اپنے والد اور سوتیلی ماں کو قتل کرنے کے الزام سے بری کیا گیا تھا

سنہ 2005 میں دماغ کے سکین کو الٹ پلٹ کر پہیلی کی طرح دیکھنے کے بعد ہی فیلن کے لیے چیزیں ترتیب میں آنے لگيں۔

انھوں نے محسوس کیا کہ ان کی سائیکوپیتھ والی خصلت ان سے نہیں شروع ہوئی بلکہ ان کے خاندان کے شجرے میں مبینہ طور پر سات قاتل تھے۔

فیلن کو یاد آیا کہ بہت سال پہلے ان کی والدہ نے انھیں ایک کتاب دی تھی جو ان کے پردادا لکڑ دادا کے بارے میں تھی جو کہ 1670 کی دہائی میں تھے اور وہ امریکہ کی نوآبادیات میں پہلا کیس تھے جنھوں نے اپنی والدہ کا قتل کیا تھا۔

اور فیلن کے شجرے میں ایک کزن لیزی بورڈن پر سنہ 1882 میں اپنے باپ اور اپنی سوتیلی ماں کا کلہاڑی سے قتل کرنے کا الزام تھا۔ وہ ان الزامات سے متنازع طور پر بری ہو گئی تھیں لیکن اس جرم کی ہولناک دھمک آج تک زندہ ہے۔

فیلن کا کہنا ہے کہ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ بعض معاملوں میں کس طرح ان میں سائیکوپیتھ والی خصلت آئی ہے۔

مثال کے طور پر وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنے کسی رشتے دار کے جنازے کو نظرانداز کر سکتے ہیں اگر انھیں پتہ ہو کہ اسی دن کوئی مزیدار پارٹی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انھیں ‘پتہ ہے کہ یہ اچھی بات نہیں ہے۔’

‘بات تو یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ کوئی چیز بری ہے لیکن پھر بھی میں اس کی پروا نہیں کرتا۔ مجھے پتہ نہیں کہ اسے کیسے کہیں گے جب آپ اس حالت میں ہوں اور آپ کا خیال ہو کہ ‘وہ درست نہیں ہے’ پھر ‘مجھے اس کی ذرہ برابر پروا نہیں۔’

تو پھر اگر فیلن کے پاس ویسا دماغ ہے اور قاتل کا جین بھی ہے تو وہ پھر ویسے کیوں نہیں ہیں؟

سائیکوپیتھ اور ان کا ماحول

خوشگوار بچپن برے جین کے اثرات کو ختم کر سکتا ہے

اس کا جواب یہ ہے کہ جین حرکت میں آتا ہے یا نہیں یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کے بچپن میں کیا ہوا تھا۔

فیلن کہتے ہیں کہ ‘اگر آپ میں مبینہ طور پر زیادہ خطرے والے جین ہیں اور آپ کے بچپن میں آپ کا استحصال ہوتا ہے تو پھر اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ آپ جرائم والی زندگی جیئیں گے۔

وہ کہتے ہیں: ‘اگر آپ کے پاس ویسا جین ہے لیکن آپ کا استحصال نہیں ہوا تو پھر زیادہ خطرہ نہیں ہے۔ جین اپنے آپ میں اپنے جداگانہ ہونے کے باوجود آپ کی خصلت کو بہت زیادہ متاثر نہیں کرتا لیکن بعض حالات میں اس سے بہت زیادہ فرق پڑتا ہے۔’

فیلن کہتے ہیں کہ ان کا ‘بچپن ناقابل یقین طور پر شاندار تھا’ جس نے ان کے بد قسمت جین کو مسترد کر دیا۔

انھوں نے کہا: ‘جب میں اپنے (خاندان کی) پرانی تصویریں یا فوٹیج دیکھتا ہوں تو میں مسکراتا ہوں اور کسی چنڈول کی طرح خوش ہوتا ہوں اور میری ساری زندگی ایسا ہی رہا ہے۔ اس بات کا بہت امکان ہے کہ اس چیز نے تمام جینیاتی عانصر کے صاف کر دیا۔’

کارآمد سائیکوپیتھ

کم جذباتی لگاؤ والے لوگوں کے مثبت پہلو بھی ہوتے ہیں

جب بات اس بارے میں کی جائے کہ کیا کوئی زندگی میں آگے جا کر مجرمانہ زندگی گزارے گا تو کہا جا سکتا ہے کہ اس حالت میں جین کی بہت اہمیت ہے لیکن وہ ہر چیز نہیں ہے۔

جہاں تک فیلن کا تعلق ہے تو ان کا کہنا ہے کہ چیزوں کو غیر جذباتی طور پر دیکھنے اور ‘جذبات کی رو میں نہ بہنے’ کا بھی اپنا مثبت پہلو ہے۔

ایک چیز تو ان کے بارے میں کہی جا سکتی ہے کہ جب بھی رشتہ داروں کو یا دوستوں کو ضرورت پڑی ہے تو لوگوں نے ان سے رابطہ کیا ہے۔

انھوں نے کہا: ‘میں ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ سکتا ہوں، وہ روتے رہیں گے لیکن میں جذباتی طور پر اس کا جواب نہیں دوں گا۔ لیکن مجھے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور میں ان کی مدد کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں ان کے سامنے اس طرح سرد لیکن درست اور سنجیدہ تجزیہ پیش کرتا ہوں۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘میں ذہنی ہم احساسی کے معیار پر بہت آگے ہوں لیکن جذباتی ہم آہنگی کے معاملے میں بہت پیچھے۔ پتہ چلتا ہے کہ (مجھ جیسے) لوگ سماج کے لیے زیادہ کام کرتے ہیں، زیادہ پیسے دیتے ہیں، وہ واقعتا چیزوں کو پورا کرنے میں زیادہ شریک ہوتے ہیں۔

‘لیکن وہ گلے مل کر رونے میں اچھے نہیں ہوتے۔’

Exit mobile version