نواز شریف کو بیماری نے آ لیا اور وہ بھی کس وقت؟ مریم نواز نے پہلے سکوت اختیار کیا اور پھر باہر جانے کے لیے درخواست دے دی۔ تو کیا نواز شریف کے بیانیے کا پرچم، اب شہباز شریف تھامیں گے؟
شہباز شریف صاحب کا اپنا بیانیہ ہے اور یہ نواز شریف کے بیانیے سے یکسر مختلف ہے۔ وہ مقتدر قوتوں کی سرپرستی میں قائم سیاسی نظم کا حصہ بن کر شریکِ اقتدار ہونا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے کا واحد دروازہ یہی ہے۔ نواز شریف بھی پہلی مرتبہ اسی سے گزر کر وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچے تھے۔ اب عمران خان بھی اور ان دونوں کے درمیان آنے والے سب وزرائے اعظم اور صدور بھی۔
اس دروازے سے گزرنے کے لیے مخصوص قد کاٹھ کی ضرورت ہے۔ جو ذرا طویل قامت ہو، جیسے شاہد خاقان، تو اسے گزرنے کی اجازت نہیں ہے۔ نواز شریف بھی اب کچھ فربہ ہو چلے تھے۔ ان حضرات کی قامت و جسامت کے لیے اڈیالہ جیل کا دروازہ موزوں تھا یا کوٹ لکھ پت کا۔ شہباز شریف اڈیالہ جیل کے بجائے ایوانِ اقتدار میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور اسی در کے سوالی ہیں، اسی لیے، نواز شریف کے بیانیے سے لا تعلق ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر اس بیانیے کا وارث کون ہے؟
نواز شریف صاحب اس بیانیے کے موجد ہیں نہ خاتم۔ یہ عوامی بالا دستی کا بیانیہ ہے جسے آئینی بیانیہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے اس کا علم نواز شریف صاحب کے ہاتھ میں تھا۔ یہی بیانیہ ہے جو ‘ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے میں مجسم ہو گیا۔ انہوں نے اس عَلم کو تھامے رکھا، یہاں تک کہ بیماری نے ان کا گھیراؤ کر لیا۔ میرا حسنِ ظن ہے کہ وہ اس کے بعد بھی اسے اٹھائے رکھنے پر مصر تھے کہ انسانی رشتوں کے دباؤ نے انہیں باہر جانے پر مجبور کر دیا۔
خیال تھا کہ مریم اس کو پوری توانائی کے ساتھ تھام لیںگی۔ ان کی طرف سے جاری مسلسل خاموشی مگر اب سکوتِ مرگ کا تاثر دینے لگی ہے۔ باپ کی تیمارداری کو خاموشی کا ایک جواز مانا جا سکتا تھا‘ مگر اب تو یہ بھی باقی نہیں رہا۔ اب تو فرصت ہے۔ پھر یہ خاموشی کیوں؟ اس سوال کا کوئی جواب میں تلاش نہیں کر سکا۔ لوگ مگر خاموش نہیں ہیں اور وہ غلط یا صحیح، جواب دے رہے ہیں۔
لوگوں کا جواب ایک ہی ہے۔ یہ خاموشی کسی ڈیل کا نتیجہ ہے اور یہ نواز شریف صاحب کی بیرونِ ملک روانگی سے الگ نہیں۔ نون لیگ کی باگ اب شہباز شریف صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اس جماعت کو ایک بار پھر ایوانِ اقتدار کے راستے کا مسافر بنا دینا چاہتے ہیں۔ چونکہ اس کا ایک دروازہ اور ایک ہی راستہ ہے، اس لیے اب اس پر پیش قدمی کا آغاز ہو گیا ہے۔ مریم نواز کی خاموشی دراصل بے بسی یا باپ سے محبت کا اظہار ہے۔
یہ قرینِ قیاس ہے مگر میں سوچتا ہوں کہ عزیمت کا راستہ تو باپ بیٹی نے اپنی مرضی سے چنا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ملک میں جیل کا دروازہ ان کا منتظر ہے، انہوں نے کلثوم نواز کو بسترِ مرگ پر چھوڑا اور پاکستان کا رخ کیا۔ یہاں آ کر مشکلات برداشت کیں۔ کل ماں کی محبت اگر آڑے نہیں آئی تو آج باپ کی محبت کیوں دیوار بن گئی؟ عزیمت کے راستے پر چلنے والوں نے رخصت کا انتخاب کیوں کیا؟
میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں؛ تاہم، میرے نزدیک یہ سوال ایک دوسرے سوال سے جڑا ہوا ہے۔ کیا نون لیگ اس بیانیے سے دست بردار ہو کر اقتدار تک پہنچ پائے گی؟ یہ طے ہے کہ عمران خان ان کے راستے میں مزاحم ہوں گے۔ وہ چونکہ فسطائی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے انہوں نے ہیجان کی اس فضا کوکم نہیں ہونے دیا جو اپوزیشن میں ان کا طرہ امتیاز تھا۔ وہ پوری کوشش میں ہیں کہ نون لیگ پر اظہار اور سیاست کے سب دروازے بند کر دیے جائیں۔
بدھ کے روز خان صاحب نے وزارتِ قانون کو ہدایت کی ہے وہ ایسا قانون بنائیں جس کے تحت ‘مجرم اور مفرور‘ میڈیا پر نہ آ سکیں۔ ان مجرموں اور مفروروں سے ان کی مراد شریف خاندان اور نون لیگ ہے۔ مشیرِ اطلاعات نے بڑی حد تک اس ابہام کو اپنی پریس بریفنگ میں کھول دیا ہے۔ عمران خان صاحب اس مقصد کے لیے قانون کو بے دردی کے ساتھ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ واجد ضیا صاحب کو غالباً اسی لیے ایف آئی اے کا ڈائریکٹر جنرل بنایا گیا ہے۔ بدھ کو انہوں نے خان صاحب سے ملاقات کی اور اپنے ادارے کے لیے مزید وسائل مانگے۔ وزیر اعظم نے بغیر کسی تامل کے، ان کے سب مطالبات تسلیم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ یہ ایک ایسے وزیر اعظم کا فیصلہ ہے جو سب اداروں کے اخراجات کو کم کرنا چاہتا ہے‘ لیکن اس معاملے میں اس نے خزانے کا منہ کھول دیا ہے۔
یہی نہیں، وہ اپنی پارٹی سے چن چن کر ایسے افراد کو ترجمانی کا فریضہ سونپ رہے ہیں جو سب سے زیادہ دریدہ دہن ہیں۔ دوسری طرف ان کے کارکن لندن میں نواز شریف صاحب کے گھر میں حملہ آور ہو رہے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ عمران خان نون لیگ کے خلاف کس سطح کی مزاحمت کو فروغ دے رہے ہیں۔ اگر یہی سب کچھ ہونا تھا تو نون لیگ کو نواز شریف کے بیانیے سے دست بردار ہو کر کیا ملا؟
خان صاحب نواز شریف کو باہر جانے سے تو نہ روک سکے لیکن ان کے عزائم واضح ہیں۔ معلوم نہیں کہ نون لیگ کے حلقوں میں اس صورت حال کا کتنا ادراک ہے۔ اگر شہباز شریف صاحب کو ڈیل کے بعد بھی یہی کچھ سمیٹنا تھا تو کیا شاہد خاقان اور رانا ثنا اللہ کا راستہ بہتر نہیں تھا؟ کم از کم عزتِ سادات تو باقی رہتی۔ شاہد خاقان کا قد قدرت نے اونچا بنایا تھا، انہوں نے عزیمت کا راستہ چن کر اس قامت کا بھرم رکھا ہے۔
نون لیگ شہباز شریف صاحب کا بیانیہ اختیار کرنے کے بعد، کیا ایوانِ اقتدار تک پہنچ پائے گی؟ کیا نون لیگ کے خلاف عمران خان کے جارحانہ رویے کو مقتدر قوتوں کی تائید حاصل ہے؟ میرے پاس ان سوالات کا جواب نہیں لیکن ان کا گہرا تعلق آنے والے حالات سے ہے۔ ان کے جواب سے یہ فیصلہ ہو گا کہ کون کون ایک پیج پر ہے۔ میری اصل دلچسپی تو اس بیانیے سے ہے، نواز شریف نے جس کا عَلم اٹھایا تھا۔ اگر یہ بیانیہ باقی نہیں ہے تو ایوانِ اقتدار میں افراد کی آمدورفت سے کوئی جوہری فرق نہیں پڑے گا۔ یہ ممکن ہے کہ موجودہ حکومت کی نا اہلی سے قوم کی جان چھوٹ جائے‘ معیشت و سیاست میں قدرے استحکام آ جائے؛ تاہم جب تک ہمارے سیاسی رویے آئین سے متصادم رہیں گے، پاکستان میں حقیقی امن اور استحکام نہیں آ سکتا۔
میرا احساس یہ ہے کہ اس ملک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اصل مسئلے کا اندازہ ہو گیا ہے۔ عوام کی شعوری سطح بلند ہو رہی ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے۔ اس لیے یہ بیانیہ کسی طور لاوارث نہیں رہے گا۔ اگر موجودہ سیاست دان اسے نہیں تھامیں گے تو کوئی نئی سیاسی قوت ابھرے گی جو اس عَلم کو اٹھا لے گی۔ عین ممکن ہے کہ ملک کے طول و عرض میں اٹھنے والی آوازیں جمع ہو جائیں اور ایک تحریک میں ڈھل جائیں۔
اس سے پہلے لیکن مجھے تصادم کے امکانات بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر اس ملک کو فسطائی انداز سے چلایا گیا، سیاسی جماعتیں صرف اقتدار کی سیاست کرتی رہیں اور اہلِ صحافت نے ان پابندیوں کو گوارا کر لیا تو عوام ایک طرف ہوں گے اور سیاسی جماعتیں ایک طرف۔ قومی سیاسی جماعتوں سے عوامی لا تعلقی نیک شگون نہیں ہے۔تاریخ نے ایک طویل عرصے کے بعد پنجاب کو یہ موقع دیا تھا کہ وہ سب اکائیوں کی آواز بنے اور حقیقی معنوں میں بڑے بھائی کا کردار ادا کرے۔ افسوس کہ اس موقع کو گنوا دیا گیا۔ شہباز شریف اگر نواز شریف کے بیانیے کا علم تھام لیتے تو یہ وفاق کی مضبوطی کا باعث ہوتا۔
نواز شریف کی بیماری قدرت کا فیصلہ ہے لیکن اقتدار کی سیاست نون لیگ کا اپنا فیصلہ ہو گا۔ سب لوگ اپنے اپنے فیصلوں کے نتائج کے خود ذمہ دار ہیں۔ دنیا میں بھی، آخرت میں بھی۔ گروہی اور اجتماعی فیصلوں کی نتیجے کے لیے ہمیں، آخرت کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ نتیجہ یہیں نکلے گا اور نکلنے والا ہے۔