پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے کورونا وائرس سے متعلق اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔
عالمی وبا کورونا وائرس سے متعلق ملکی پالیسی پر تبادلہ خیال کے لیے سینیٹ اجلاس جاری ہے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ اجلاس کا دورانیہ دوپہر 12 سے شام 5 بجے تک رکھا گیا ہے تاکہ تمام اراکین اظہار خیال کرسکیں۔
اجلاس کے آغاز پر کچھ سینیٹرز کی ذاتی وجوہات پر عدم شرکت کی درخواست منظور کی گئی اور افغانستان میں حملے کے نتیجے میں بچوں کی موت کی مذمت بھی کی گئی۔تحریر جاری ہے
سینیٹ اجلاس کے دوران متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)کے سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ ہم جب دیکھتے ہیں کہ کیا ایک عام کو صحت کی سہولیات میسر ہیں تو ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جو لاک ڈاؤن ہے کہ اسےہم نے پب جی یا لڈو کھیل کر گزارنا ہے یا کچھ سیکھنا ہے، 3 ماہ پہلے کی دنیا الگ تھی، آج کی دنیا الگ ہے اور 3 ماہ بعد دنیا مکمل طور پر بدل جائے گی اب ڈیجیٹلائزیشن کا دور ہے۔
میاں عتیق شیخ نے کہا کہ بے روزگار افراد کے لیے کون قانون سازی کرے گا، ٹیکنالوجی کی دوڑ میں 80 کی دہائی کا موقع ہم گنوا چکے ہیں اور اب دنیا پھر وہیں آکر کھڑی ہوگئی ہے۔
سینیٹ اجلاس میں تجاویز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان لیپ ٹاپ اور موبائل فون سے ڈیوٹی ہٹائیں، بینکوں کو خصوصی طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ نوجوانوں کے لیے موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کی خریداری کے لیے آسان اقساط پر قرضے دینے کی ہدایت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے چھوٹے دکانداروں کو آگے بڑھانا ہے تو کابینہ ان کے لیے بی کچھ سوچے کیونکہ آج ہمارا چھوٹا دکاندار بہت پریشان ہے کہ وہ کیسے کاروبار چلائے۔
میاں عتیق شیخ نے کہا کہ مجھے دکھ ہے کہ میرا ڈیجیٹل پاکستان کہاں ہے؟ اگر اس عالمی وبا میں وہ ڈیجیٹل پاکستان نظر نہیں آرہا ہے تو پھر کیا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پوسٹ کورونا ورلڈ میں ہم گھر بیٹھ کر ویبینار کرسکتے ہیں تو اس حوالے سے پالیسی بنائی جائے۔
ان کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا کہ جس روز پاکستان میں وبا پھیلی تو ایک افراتفری پھیل گئی، 4 مارچ کو جس طرح اجلاس ختم کیا گیا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
مشاہداللہ خان نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ اپوزیشن کے کہنے پر اجلاس بلائے گئے حکومت کو یہ اجلاس خود بلانے چاہیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ صرف کورونا وائرس کےبارے میں بات کرنے کا کہا گیا اب تو بچے بچے کو معلوم ہے کہ کورونا کیا ہے، وزیراعظم نے کورونا وائرس سے متعلق اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سے اپیل ہے کہ قومی اتفاق رائے پیدا کرے، کشمیر کمیٹی کے چیئرمین پر 13 لوگوں نے واک آؤٹ کیا جو تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا ’حکومت شہباز شریف سے، بلاول بھٹو زرداری، سراج الحق سمیت دیگر رہنماؤں سے بات کریں، ہمیں اپنا دشمن کیوں سمجھتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اسی وبا میں ختم نبوت کی بات ہوئی، ان معاملات کو چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے، اپنے ایمان کو وزن دیں اور اس مسئلے کو مت چھیڑیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’شکور نامی قادیانی آپ کی شکایتیں لگاتا ہے تو آپ کی ٹانگیں کانپتی ہیں، تل ابیب میں مودی کسی قریشی کو گلے لگاتا ہے آپ اس کو کیوں نہیں سمجھتے، اس مسئلے کو کیوں اٹھارہے ہیں‘۔
انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ اس مسئلے پر سب کا اتفاق ہے اور ہمارا ایمان ہے، اس مسئلے کو چھیڑنے سے گریز کریں‘۔
سینیٹ میں چین کا پاکستان کے کورونا وائرس سے متعلقہ معاملات میں کردار پر کردار ادا کرنے پر قرار داد پیش کی گئی جسے متفقہ طور پر منظورکرلیا گیا۔
قرار داد میں چین کے خلاف کورونا وائرس کے حوالے سے مخصوص حصوں کی جانب سے بے بنیاد پروپگینڈا کے کی مذمت بھی کی گئی۔
’کورونا کا ٹیسٹ مدت کیا جائے‘
سینیٹ میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے ایک بستی کی مثال پیش کی ہے جس نے اللہ کی نعمتوں سے نوازا گیا تھا تاہم انہوں نے ناشکری کی جس کے بعد ان پر عذاب آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’رب کریم نے ہم پر عذاب آیا ہے اور ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ عذاب ہم پر کیوں آیا، کائنات کا نظام عدل اور انصاف پر قائم ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کے بعد یہ وبا 16ویں مرتبہ آئی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اس وبا نے خوشحال علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا، مسلمان ہونے کے ناطے ساری انسانیت کے حوالے سے ہمیں نجات کا راستہ تلاش کرنا ہے اور دنیا کو یہ راستہ پیش کرنا ہے‘۔
سراج الح کا کہنا تھا کہ ’اللہ کی سنت ہے کہ جب عذاب آتا ہے تو اس میں برے لوگوں کے ساتھ وہ مسلمان جو برائی کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے وہ بھی اس کا شکار ہوتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وبا کی وجہ سے کچھ کمزوریاں سامنے آئی ہیں، پہلی بار ہمیں معلوم ہوا کہ 22 کروڑ عوام کے لیے صرف 13 سو وینٹی لیٹرز ہیں اور اس وبا کے دوران بھی ہماری قیادت ایک پیج پر نہیں آسکی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’کہنے کو تو سب نے ماسک لگائے ہیں مگر اپنی زبان کو لگام نہیں دے سکے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک اور چیز جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا بجٹ سوشل سیکٹر پر خرچ نہیں ہوتا بالکہ انتظامی معاملات پر خرچ ہوتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ غریب عوام کے پاس اتنا پیسہ کہاں کہ وہ 9 ہزار روپے کا کورونا کا ٹیسٹ کرائیں، ہمیں اس ٹیسٹ کو مفت کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ اپوزیشن کی درخواست پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایوان بالا کا پہلا اجلاس 12 مئی کی صبح طلب کیا گیا تھا۔
سینیٹ اجلاس سے متعلق ضابطے کے تحت اجلاس سے قبل تمام سینیٹرز کورونا وائرس کا ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا تھا۔