حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا
کھڑے کھڑے مسکرا رہا ہوں تو میری مرضی
لطیفہ خود کو سنا رہا ہوں تو میری مرضی
میں جلد بازی میں کوٹ الٹا پہن کے نکلا
اب آ رہا ہوں کہ جا رہا ہوں تو میری مرضی
جو تم ہو مہماں تو کیوں نہ آئے مٹھائی لے کر
بٹھا کے تم کو اٹھا رہا ہوں تو میری مرضی
یہ کیوں ہے سایہ تمہاری دیوار کا مرے گھر؟
میں جھاڑو دے کر ہٹا رہا ہوں تو میری مرضی
رقیب کی قبر میں پٹاخے بھی رکھ دیے ہیں
جو قبل دوزخ ڈرا ہوں تو میری مرضی
جو رات کے دو بجے ہیں تم کو شکایتیں کیوں؟
کہ میری چھت ہے، میں گا رہا ہوں تو میری مرضی
میں نادہندہ ہوں بینک تک جانتے ہیں جیدی
تمہارا قرضہ بھی کھا رہا ہوں تو میری مرضی
آخری مصرعے سے فیض کی غزل کا ایک مصرعہ یاد آیا ع
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکا دیا
ڈرامہ نگاری، اداکاری، صداکاری اور مزاحیہ شاعری کا ایک نہایت روشن باب تمام ہوا اور ہم سب کے محبوب اور میری نسل کے بڑھاپے کی طرف تیزی سے گامزن لوگوں کے خاص طور پر محبوب مسٹر جیدی اس جہان فانی سے جہان لافانی کی طرف کوچ کر گئے۔ میں نے اپنی نسل کا جو خاص طور پر ذکر کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ اس زمانے کی پیداوار ہیں جب الیکٹرانک میڈیا کے نام پر اکلوتی شے پی ٹی وی یعنی پاکستان ٹیلی ویژن ہوتا تھا اور چاہے نہ چاہے ہم لوگ اسی کو دیکھنے پر مجبور تھے۔ یہ چاہے نہ چاہے کی وضاحت کر دوں کہ تب پی ٹی وی کے ڈرامے چاہے والی فہرست میں ہوتے تھے اور خبرنامہ نہ چاہے کے زمرے میں آتا تھا۔ تب اطہر شاہ خان کے مزاحیہ ڈراموں کا طوطی بولتا تھا اور وہ خود ان ڈراموں کے مرکزی کردار کے طور پر بڑوں اور بچوں میں یکساں مقبول تھے بلکہ سچ پوچھیں تو بچوں میں زیادہ مقبول تھے۔ تب انتظار فرمائیے، لاکھوں میں تین، باادب با ملاحظہ ہوشیار، ہائے جیدی، ہیلو ہیلو اور برگر فیملی نے بچوں، بڑوں اور بوڑھوں کو جیدی کا اسیر کیے رکھا۔ 1970ء میں میری عمر گیارہ سال تھی۔ یہ عشرہ ہماری جیدی سے یکطرفہ شناسائی کا عشرہ تھا۔ اسی عشرے میں ہم نے بچپن سے لڑکپن کی منزل طے کی، اگلے عشرے میں لڑکپن سے نوجوانی اور اس سے اگلے عشرے میں نوجوانی کی ”نو‘‘ کہیں درمیان میں رہ گئی۔ پھر جوانی بھی رخصت ہوئی۔ اب بڑھاپے کی طرف گامزن ہیں۔ زندگی نے کئی منزلیں طے کر لیں مگر اطہر شاہ خان جیدی سے دلی لگائو اور محبت‘ دونوں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے گئے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اطہر شاہ خان سے تعلق یکطرفہ کے بجائے دوطرفہ ہو گیا تھا۔ میری اطہر شاہ خان سے پہلی ملاقات اسلام آباد ہوٹل میں ہونے والے پی ٹی وی کے مشاعرے کشت زعفران میں ہوئی۔ یہ 1988ء میں پی ٹی وی پر ہونے والا اپنی نوعیت کا پاکستان میں پہلا مکمل مزاحیہ مشاعرہ تھا۔ اس کے پروڈیوسر مرحوم نذیر عامر تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے‘ کیا شاندار پروڈیوسر تھے۔ پہلی ہی ملاقات میں پی ٹی وی پر پڑھے جانے والے کلام کے بارے میں یک سطری ہدایت نامہ اور رہنما اصول بتایا۔ یہ اصول بقیہ ساری عمر کام آیا‘ میرا کلام ہمیشہ پروڈیوسر کی کانٹ چھانٹ سے محفوظ رہا۔ نذیر عامر نے کہا کہ Where there is doubt, cut it out یعنی جہاں شک یا ابہام پیدا ہو، اسے کاٹ دو۔ اطہر شاہ خان سے تب پہلی ملاقات ہوئی۔ یہ اگلی بے شمار ملاقاتوں کا پیش خیمہ تھی۔
مزاحیہ مشاعرے اور اطہر شاہ خان کا تین عشروں تک چولی دامن کا ساتھ رہا۔ میں نے پہلا مشاعرہ بھی اطہر شاہ خان کے ساتھ پڑھا اور کراچی سے باہر اطہر شاہ خان کا آخری مشاعرہ‘ جو بہاولپور میں تھا‘ بھی ان کے ساتھ پڑھا۔ تب میں اور اطہر شاہ خان ایک فارماسیوٹیکل کمپنی فارم ایوو کے ساتھ مشاعروں کی ایک سیریز کر رہے تھے۔ ملتان کے بعد اگلا مشاعرہ جو اس سیریز کا آخری مشاعرہ تھا‘ بہاولپور میں تھا۔ راستے میں اطہر شاہ خان کے ساتھ سفر کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ یہ ہنس مکھ اور خوش باش شخص اپنی صحت کے بارے میں کتنا بے پروا اور غافل ہے؟ دل کا مرض لاحق تھا مگر اپنی پسند کی چیز دیکھ کر ساری زبانی کلامی احتیاطی تدابیر پس پشت ڈال دیتا اور جب ہم سمجھانے کی کوشش کرتے تو فوراً ہی سگریٹ سلگا کر بات کو دھویں میں اڑانے کی کوشش کرتا۔ بہاولپور میں یہ مسئلہ آن پڑا کہ ہوٹل گرائونڈ فلور کے بجائے پہلی منزل سے شروع ہوتا تھا اور اطہر شاہ دو سیڑھیاں بھی نہیں چڑھ سکتے تھے۔ آدھی رات کا وقت تھا اور کوئی متبادل انتظام کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ خیر ہم نے اطہر شاہ خان کو ایک کرسی پر بٹھایا اور پھر اس کرسی کو اٹھا کر پہلی منزل تک لے گئے۔ میں نے ہنس کر کہا: اطہر بھائی! آپ تو ماشاء اللہ کافی وزنی ہیں۔ آگے سے قہقہہ مار کر کہنے لگے: ہم نے اتنے سال خود کو اٹھائے رکھا مگر کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے‘ آپ کو ایک بار اٹھانا پڑا تو طبیعت صاف ہو گئی۔ اس کے بعد اطہر شاہ خان نے کراچی سے باہر جا کر مشاعرہ پڑھنا چھوڑ دیا۔ اطہر شاہ خان سے میرا تعلق ذاتی سے بڑھ کر فیملی کے ساتھ ہو گیا تھا۔ ہوا یوں کہ اطہر شاہ خان کراچی سے مری بذریعہ کار جا رہے تھے اور کار ملتان میں خراب ہو گئی۔ اطہر شاہ خان نے ایک ہوٹل میں اپنی فیملی کے لیے دو کمرے بک کروائے اور مجھے فون کیا کہ ملتان میں گاڑی کہاں سے مرمت کروائی جائے۔ میں نے کہا: آپ ابھی ہوٹل کی ادائیگی نہ کریں اور استقبالیہ پر میرا انتظار کریں۔ میں ڈرائیور کے ساتھ ہوٹل پہنچا۔ اطہر شاہ خان کی گاڑی ڈرائیور کو دی اور کہا کہ وہ اسے مہرجی آٹوز پر فاروق قریشی کے پاس لے جائے۔ باقی وہ خود سب کچھ دیکھ لے گا۔ اور اطہر شاہ خان، بھابھی اور ان کے دو بیٹوں کو لے کر اپنے گھر آ گیا۔ اطہر شاہ خان دو دن میرے پاس رہے اور یہ دن ایسے تھے کہ جیسے گھر میں مسٹر جیدی کے کسی ڈرامے کی شوٹنگ چل رہی ہو‘ ہمہ وقت مذاق، لطیفے اور دل لگی۔ اسی دوران ایک مستقل کھیل یہ شروع ہو گیا کہ میری سب سے چھوٹی بیٹی کو اطہر شاہ خان نے یہ کہہ دیا کہ ہمارے صرف بیٹے ہیں اور گھر میں بیٹی کوئی نہیں۔ یہ بچی ہمیں بڑی پسند آئی ہے۔ اسے ہم کراچی جاتے ہوئے اپنی بیٹی بنا کر ساتھ لے جائیں گے۔ میری چھوٹی بیٹی اس بات پر باقاعدہ ڈر گئی اور جس کمرے میں اطہر شاہ خان ہوتے اس سے کھسک جاتی۔ جس روز اطہر شاہ خان وغیرہ کی روانگی تھی میری بیٹی صبح سے ہی دادی اماں کے کمرے میں چلی گئی اور اطہر شاہ خان کے روانہ ہو جانے کے دو گھنٹے بعد واپس اپنے کمرے میں واپس آئی۔ بعد میں اطہر شاہ خان ہمیشہ اس بیٹی کے بارے میں ہنس کر پوچھتے تھے کہ اب ماشاء اللہ کتنی بڑی ہو گئی ہے۔ بعد میں میری بیٹی نے بھی اس کو ایک عرصہ تک انجوائے کیا۔ کل جب اسے اپنے اطہر انکل کی رِحلت کا پتہ چلا تو دیر تک خاموش رہی۔ ایک شاندار آدمی کو اس دار فانی سے رخصت کے لیے کیا شاندار مہینہ نصیب ہوا۔ اطہر شاہ خان نے ایک طویل علالت کاٹی‘ لیکن اس ساری تکلیف کے دوران ایک نہایت خوش کن امر یہ تھا کہ ان کے بیٹوں نے ان کی ایسی خدمت کی جیسا خدمت کا حق ہے۔ ماشااللہ ان کے بیٹے بڑے تابع فرمان اور خدمت گزار تھے۔ اطہر شاہ خان نے مخلوق میں خوشیاں تقسیم کیں اور میرے مالک نے انہیں صالح اولاد سے نوازا۔ دس مئی بروز اتوار دوپہر فون کی گھنٹی بجی۔ یہ رضی الدین رضی کا فون تھا۔ سلام دعا کے بعد کہنے لگا: خالد بھائی! اطہر شاہ خان جیدی کیلئے آپ کے تاثرات؟ دل کو ایک دھچکا سا لگا۔ میں سمجھ گیا کہ کیا سانحہ رونما ہو چکا ہے۔ میں نے کہا: رضی! دو جملوں میں بات کرنا ممکن ہی نہیں۔ تیس بتیس سال کا تعلق اور تعلق بھی ایسا خوشگوار اور محبت بھرا کہ بیان کرنا ممکن نہیں‘ لیکن صرف اتنا کہ ایک سنہرے دور کا اختتام ہوا۔ اطہر شاہ خان جیدی کا دور۔ ریڈیو سے صداکاری شروع کرنے والا ایسا فنکار جس نے ڈرامہ نگاری، اداکاری اور پھر شاعری میں بالکل نئی طرز کی بنیاد رکھی۔
وہ اپنی طرح کا واحد فنکار تھا جس نے ٹیلی ویژن کو بالکل نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ وہ اپنی طرزِ اداکاری کا موجد بھی تھا اور خاتم بھی۔ پنجاب یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے اور لاہور میں رہنے کے طفیل کراچی میں پلنے بڑھنے والا رامپوری پٹھان پنجابی پر بھی ہاتھ صاف کر لیتا تھا۔ ایک بار لاہور آئے تو میرے ساتھ آغا نثار بھی تھا۔ وہ دن اتنا شاندار اور یادگار تھا کہ اس کا صرف لطف محسوس کیا جا سکتا ہے‘ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے لیے ابدی زندگی میں آسانیاں کرے اور ان کے درجات بلند کرے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ یہ جملہ حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا صرف اور صرف اطہر شاہ خان جیسے لوگوں پر ہی سجتا ہے۔ سو ایک بار پھر دعا ہے کہ حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا۔