Site icon DUNYA PAKISTAN

اڑتالیس ارب روپے کا ڈاکہ

Share

عمران خان صاحب کی دور اندیشی اور مستقبل بینی کی صلاحیتیں تو ایسی ہیں کہ داد کا لفظ چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ اس پر تو قربان ہونے کو دل کرتا ہے۔ اب حالیہ کرکٹ سیریز کا رزلٹ دیکھیں۔ آسٹریلیا نے ٹیم کو مار مار کر دنبہ بنا دیا اور ایک اننگز اور اڑتالیس رنز سے دوسرا ٹیسٹ میچ جیت لیا ہے۔ اب اس کارکردگی پر کیا کہیں؟ یہ تو ایک الگ بحث ہے کہ اتنی بری شکست کرپٹ پاکستان میں تو ممکن تھی آخر اس کرپشن سے پاک پاکستان میں اور خاص طور پر کپتان کے دور حکومت میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی اس شرمناک شکست کی کیا وجوہات ہیں۔ فی الوقت تو مجھے داد دینی ہے حکومت کی دور اندیشی کی۔
میرا خیال ہے (خیال غلط بھی ہو سکتا ہے) کہ حکومت کو آسٹریلیا میں اس بدترین شکست کا پہلے سے ہی اندازہ تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا؟ آخر کو ہمارے ورلڈ کپ 1992ء کے ہیرو کی ملک پر حکومت ہے اور اگر ان کے دورِ اقتدار میں کرکٹ کے بارے میں بھی درست پیشین گوئی نہ ہو سکے تو پھر بڑے شرم کا مقام ہے۔ مجھے اس صورتحال پر دور اندیشی کے معاملے میں اردو کا وہ مشہور و معروف شعر یاد آ رہا ہے جس میں پروانے کو شمع کی لو سے جلنے سے بچانے کیلئے دور اندیشی کے طور پر شہد کی مکھی کو باغ میں جانے سے روکنے کی تاکید کی گئی تھی تاکہ نہ شہد کی مکھی باغ میں جائے، نہ پھولوں سے رش کشید کر کے شہد بنائے، نہ پھر اس شہد کو محفوظ کرنے کیلئے موم کا چھتہ بنائے، نہ ہی اس موم سے شمع بنے اور نہ اس شمع کے جلنے سے پروانہ اپنی جان سے جائے۔ شعر اس طرح ہے:
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا
اتنی ہی دور اندیشی کا مظاہرہ ہماری کپتانی حکومت نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی آسٹریلیا روانگی اور متوقع نتائج کو سامنے رکھ کر کیا۔ سابقہ حکومت کی کرپشن نے جہاں ہر چیز برباد کر کے رکھ دی‘ وہیں ملک میں کرکٹ کا سارا ڈھانچہ بھی اسی کے ہاتھوں برباد ہو چکا ہے۔ حالانکہ گزشتہ پندرہ ماہ میں کپتان کی حکومت نے کرکٹ بورڈ سارے کا سارا تبدیل کر دیا ہے۔ چیئرمین کی کرسی پر جناب احسان مانی کو بٹھایا ہے۔ ڈائریکٹر وسیم خان کو مقرر کیا۔ ہیڈ کوچ اپنے مسٹر ٹک ٹک مصباح الحق ہیں۔ کرکٹ میں کرپشن ختم کرنے کی غرض سے مصباح الحق کو ہی چیف سلیکٹر کے عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔ وقار یونس کو بائولنگ کوچ بنایا۔ سارے کا سارا کرکٹ بورڈ تبدیل کر دیا۔ کرکٹ ٹیم اپنی مرضی سے بلا جبر و کراہ منتخب کی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ نجم سیٹھی کے بارے میں جناب عمران خان کے کمنٹس اور ریمارکس زیادہ دور کی بات نہیں کہ کسی کو یاد نہ ہوں۔ کرکٹ ٹیم کو اوج ثریا پر پہنچانے کے دعویداروں کے دور حکومت میں عالم یہ ہے کہ آئی سی سی کرکٹ رینکنگ میں ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے۔ ون ڈے کرکٹ میں پاکستان چھٹے پائیدان پر کھڑا ہے اور ٹی ٹوئنٹی میں صرف ایک نمبر کی سبقت کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ انگلینڈ کے ساتھ پانچ میچوں کی 20,20 سیریز میں ایک میچ بلا نتیجہ ختم ہوا باقی چار میں پاکستان کو شکست ہوئی۔ حتیٰ کہ ایک ون ڈے میچ میں افغانستان نے پاکستان کی ٹیم کو بری طرح ہرا دیا۔ اب نئے پاکستان میں یہ صوورتحال ہے کہ صرف لے دے کر ایک ٹی ٹوئنٹی ہے جس میں ٹیم پہلے نمبر پر ہے لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پہلے بھی ٹیم اسی مرتبے پر ہی تھی لیکن ریٹنگ کافی بہتر تھی اور اب محض ایک پوائنٹ کا فرق رہ گیا ہے اور یہ فرق اب صرف اگلی ایک سیریز کی مار ہے کہ گزشتہ دو تین ٹی ٹوینٹی سیریز میں جو کارکردگی رہی ہے اس کو سامنے رکھیں تو اب یہ پوزیشن بھی قصہ ماضی بننے کے قریب ہے۔
قارئین! معذرت خواہ ہوں کہ پھر بہک کر کسی اور طرف نکل گیا۔ بات حکومت کی دور اندیشی کی ہو رہی تھی کہ حکومت کو اندازہ تھا کہ آسٹریلیا میں ہماری منتخب کردہ کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کیا رہے گی اور وہ کس منہ سے واپس پاکستان آئے گی۔ لوگ باگ اس کا کس طرح استقبال کریں گے۔ ایسی صورتحال میں روایتی طور پر استقبال کے لیے سب سے مقبول اور مشہور چیز اپنے ٹماٹر ہوتے ہیں۔ حکومت نے ٹماٹر تین سو روپے فی کلو گرام کر کے بد خواہوں کے منصوبے پر پانی پھیر دیا اور اپنی منتخب کردہ ٹیم کو ملک واپسی پر کسی ناخوشگوار قسم کے استقبال اور ٹماٹر بازی سے صاف بچا لیا۔ ایسی دور اندیشی اور مستقبل بینی پر حکومت کو جتنی داد دی جائے کم ہے۔ حالانکہ حکومت کو روز مرہ کی بنیاد پر ہزاروں ”بھسوڑیاں‘‘ ہیں۔ ایک اکیلی حکومت آخر کیا کیا کرے؟ بس اسی دور اندیشی کے طفیل سرکار نے احتیاطاً ٹماٹر ہی اتنے مہنگے کر دیئے کہ کوئی مائی کا لعل ٹیم کی پاکستان آمد پر اسے ٹماٹر بھی نہ مار سکے۔ اسے کہتے ہیں پلاننگ اور دور اندیشی۔
ٹماٹر کی قیمت سے یاد آیا کہ چلیں ٹماٹر کی حد تک تو یہ بات مانی جا سکتی ہے کہ بھارت سے درآمد بند ہے۔ ملکی پیداوار ابھی مارکیٹ میں آنی شروع نہیں ہوئی اور مشہور زمانہ معاشی کلیہ ”سپلائی اینڈ ڈیمانڈ‘‘ اپنی پوری حشر سامانی کے ساتھ اپنی سچائی ثابت کرنے آ موجود ہوا، لیکن ایک سوال ایسا ہے جس کا جواب کوئی بزرجمہر دے دے تو بندہ تا عمر مشکور رہے گا۔ وہ یہ کہ سال 2018-19 کے کرشنگ سیزن سے حاصل کردہ چینی جو مل مالکان کے گوداموں اور ذخیرہ اندوزوں کے پاس پڑی ہوئی تھی ہینگ اور پھٹکڑی لگے بغیر سات آٹھ ماہ کے اندر اندر پینتالیس روپے فی کلو سے ستر روپے کلو کیسے ہو گئی؟ گزشتہ سال یہ قیمت چالیس روپے سے بھی کم تھی۔ گزشتہ سے پیوستہ سیزن کی بات چھوڑیں۔ صرف گزشتہ کرشنگ سیزن 2018-19 کی بات کر رہا ہوں۔ یہ سیزن نومبر 2018ء سے شروع ہو کر مارچ اپریل 2019ء میں ختم ہوا۔ مارچ 2019ء میں چینی کی قیمت 45 روپے فی کلو گرام تھی۔ یہ چینی اپنی تمام تر لاگت کے ساتھ تیار ہو کر مارکیٹ میں آ چکی تھی۔ اس تیار کردہ چینی کی بیشتر مقدار ابھی مل مالکان کے گوداموں میں یا انہی کے فرنٹ مینوں کے سٹوروں میں پڑی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چینی پینتالیس روپے سے ستر روپے فی کلو تک چلی گئی ، یعنی بیٹھے بٹھائے چینی کی قیمت میں پچپن فیصد اضافہ ہو گیا۔ یہ سارا منافع کس کی جیب میں گیا ہے؟ یہ کوئی ملین ڈالر سوال نہیں ہے اور نہ ہی کوئی راکٹ سائنس ہے کہ کسی کی سمجھ میں نہ آئے۔
ہر حکومت میں شوگر مافیا شامل ہوتا ہے۔ پہلے والوں کی حکومت از خود شوگر مافیا تھی۔ رمضان شوگر ملز، اتفاق شوگر ملز، چوہدری شوگر ملز، کشمیر شوگر ملز، حسیب وقاص شوگر ملز اور برادرز شوگر ملز میاں نواز شریف اور ان کے چچا زاد بھائیوں کی تھیں۔ تب میاں نواز شریف کے زیر سایہ ایک Cartel بنا ہوا تھا۔ اور پھر شوگر ملوں کے حوالے سے آصف علی زرداری کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ حکومت بدل گئی، کارٹل کے ساجھے دار بدل گئے لیکن کارٹل بہر حال موجود ہے۔ اس بار اس کارٹل نے جو چھکا مارا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ 2018-19 میں چینی کی کل پیداوار6.7 ملین میٹرک ٹن تھی۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ آدھی چینی 45 روپے فی کلو فروخت ہوئی اور باقی آدھی چینی یعنی 3.35 میٹرک ٹن پینتالیس اور ستر روپے کی درمیانی اوسط ساڑھے ستاون روپے کلو روپے پر فروخت ہوئی۔ اس حساب سے 3.35 ملین میٹرک ٹن یعنی تینتیس لاکھ پچاس ہزار میٹرک ٹن۔ اگر اس کے کلو گرام بنائیں تو ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ یہ تین ارب پینتیس کروڑ پچاس لاکھ کلو گرام بنتے ہیں اور ساڑھے بارہ روپے فی کلو گرام کی لوٹ مار کی کل رقم بیالیس ارب روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔ جو بنی بنائی گوداموں میں پڑی ہوئی چینی پر بیٹھے بٹھائے شوگر مافیا نے ہماری جیب سے نکال لیے ہیں اور حکومت کو کوئی پروا نہیں کہ لٹنے والے ہم اور آپ تھے اور لوٹنے والے وہ لوگ ہیں جو لوٹنے والوں کو پکڑنے پر مامور سمجھے جاتے ہیں۔ سو انہیں کون پکڑتا؟ ادھر چپ کر کے ہمیں اور آپ کو کم از کم (میں نے سارے اعداد کم از کم والے فرض کیے ہیں) بیالیس ارب روپے کا چونا لگا دیا گیا ہے اور قوم تین سو روپے کلو والے ٹماٹروں کو رو رہی ہے جو تھوڑے ہی عرصے میں دوبارہ بیس پچیس روپے کلو ہو جائیں گے مگر چینی کی قیمت اب دوبارہ کم ہوتی نظر نہیں آ رہی کہ اب چینی بنانے والے اور قیمت پر قابو پانے والے ایک ہیں۔

Exit mobile version