منتخب تحریریں

کووِڈ پارٹیاں

Share

کرونا وائرس کی وجہ سے پھیلی وباء کے لئے اب Covid-19کی اصطلاح استعمال ہونا شروع ہوگئی ہے۔لفظوں سے کھیلنے والے اسے بنیاد بناکر مزید لسانی تراکیب بھی ایجاد کررہے ہیں۔ مثال کے طورپر ایک لفظ آیا ہے “Covidiot” ۔”Covid”اور “Idiot”کے اشتراک سے بنایا یہ لفظ اس ’’احمق‘‘ کو بیان کرتا ہے جو ان دنوں بھی قبل از کرونا ایام والی روزمرہّ زندگی احتیاطی تدابیر اختیار کئے بغیر گزارے چلاجارہا ہے۔گھر سے نکلتے ہوئے ماسک نہیں پہنتا۔ اپنے ہاتھوں کو بارہا صابن سے دھونے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔منگل کی رات امریکہ میں مقیم چند دوستوں سے گفتگو کے بعد ’’تازہ خبر‘‘ یہ ملی ہے کہ نیویارک اور واشنگٹن جیسے شہروں میں “Covid Parties”کا اہتمام شروع ہوگیا ہے۔کرونا کے حوالے سے ابھی تک جو Dataجمع ہوا ہے وہ واضح انداز میں بتارہا ہے کہ پچاس سال سے کم عمر والے لوگ کرونا وائرس کی زد میں آجائیں تو اپنے جسم میں فطری طورپر موجود مدافعتی نظام کی بدولت ازخود صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ ’’جگاڑ‘‘ لہذا یہ لگائی جارہی ہے کہ لاک ڈائون کی وجہ سے گھروں میں محصور ہوئے پچاس برس سے کم عمر والے افراد کسی ایک مقام پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہوجائیں۔ محفل سے لطف اندوز ہوکر گھروں کو لوٹ جائیں۔ چند روز بعد کرونا کی علامات نمودار ہوں تو تنہائی اختیار کرتے ہوئے صحت یابی کا انتظار کریں۔فرض یہ بھی کیا جارہا ہے کہ کرونا سے صحت یاب ہوئے شخص پر یہ وائرس دوبارہ جان لیوانداز میں حملہ آور نہیں ہوتا۔ عالمی ادارہ صحت اگرچہ بہت سختی سے اس تاثر کو جھٹلارہا ہے۔جواں سال لوگ مگر مہم جوئی کے عادی ہوتے ہیں۔Covid Partiesمنعقد کئے چلے جارہے ہیں۔انہیں گماں ہے کہ یہ پارٹیاں بالآخر ان کے شہروں میں وسیع پیمانے پر Herd Immunityمتعارف کروانے میں کامیاب ہوں گی۔پیر کے روز سے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بھی لاک ڈائون کو ’’نرم‘‘ کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔حقیقت اگرچہ یہ رہی کہ بیشتر علاقوں میں لاک ڈائون نامی شے ہمیں شاذ ہی نظر آئی۔ محلوں کی رونق کافی حد تک برقرار رہی۔چند بار گھر سے سودا سلف خریدنے نکلا تو یہ محسوس ہوا کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد لاک ڈائون کو طویل تعطیلات کی مانند لے رہی ہے۔خاندان کو گاڑیوں میں لادکر’’تفریح‘‘ کے مواقع تلاش کئے جارہے ہیں۔لاک ڈائون میں نرمی کے بعد بڑے کاروبار اور دوکانیں کھلیں تو پاکستان کے کئی شہروں کی سڑکوں پر ٹریفک جام کے مناظرنظر آئے۔مجھے گماں ہوا کہ نیویارک یا واشنگٹن کے نوجوانوں کی مانند پاکستان کی اکثریت نے بھی Covid Partyسے لطف اٹھانا شروع کردیا ہے۔ہماری حکومت Herd Immunityکی اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کررہی ہے۔کرونا کی وجہ سے نازل ہوئی بلاپر گہری نگاہ رکھنے والے مگر ٹھوس بنیادوں پر یہ محسوس کررہے ہیں کہ ہمارے ہاں لاک ڈائون میں محض نرمی نہیں لائی گئی۔بغیر اعلان کئے بلکہ Herd Immunityکے راستے پر چلنے کا فیصلہ ہوا۔ بدھ کے روز کرونا کے بارے میں مسلسل لکھنے والے فہد حسین نے اسی خدشے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے اخبار کے لئے ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے۔

Herd Immunityکے پیچھے کلیدی سوچ یہ ہے کہ اگر روزمرہّ زندگی قبل از کرونا ایام کے مطابق بحال کردی جائے تو ہماری آبادی کی کم از کم 70فی صد تعداد ہر صورت محفوظ رہے گی۔ بقیہ 30فیصد میں سے جو لوگ اس وباء کی زد میں آگئے تو فطری مدافعتی نظام کی بدولت تنہائی اختیار کرتے ہوئے ازخود ٹھیک ہوجائیں گے۔وباء کے مریضوں کی بہت کم تعدا دکو ہسپتالوں سے رجوع کرنے کی ضرورت محسوس ہوگی۔پیر کے روز سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے جو اجلاس شروع ہوئے ہیں ان میں تقاریر کرتے ہوئے عمران حکومت کے وزراء اس ضمن میں بارہا اطمینان کا اظہارکررہے ہیں کہ عالمی رحجان سے قطعی برعکس پاکستان میں کرونا کی وجہ سے ہوئی اموات کی شرح پریشان کن نہیں رہی۔ بہت ہی کم مریضوں کو Ventilatorsکا سہارا درکار ہوا۔ بہت ہوشیاری سے لہذا پیغام یہ دیا جارہا ہے کہ فروری کے آخری ہفتے سے شروع ہوکر اس ماہ کے پہلے دس دنوں تک کرونا کے حوالے سے جو Dataجمع ہوا ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے کاروبار زندگی بتدریج بحال کردیا جائے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ سوچ یہ پنپ رہی ہے کہ پاکستانی معیشت کو بچانے اور دیہاڑی داروں کو فاقہ کشی سے محفوظ رکھنے کے لئے Herd Immunityکا راستہ اختیار کرلیا جائے۔میرے پاس اس راستے کی مخالفت کے مؤثر دلائل موجود نہیں ہیں۔سویڈن یورپ کا ایک بہت ہی تعلیم یافتہ اور امیر ملک ہے۔ اس نے شروع دن سے ہی Herd Immunityکا راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔اس کی بدولت سویڈن میں سکینڈے نیویا کے دیگر ممالک یعنی ڈنمارک وغیرہ کے مقابلے میں کرونا کی وجہ سے ہوئی اموات کی شرح یقینا زیادہ رہی۔ وباء کا شکار ہوئے لوگوں کی اکثریت مگر 70سال کی عمر پارکرچکی تھی۔ان کی ایک کثیر تعداد مگربرسوں سے بوڑھے لوگوں کے لئے بنائے Old Homesمیں قیام پذیر تھی۔اپنے ہمسایہ ممالک کے برعکس سویڈن میں لیکن معاشی جمود کی کیفیت نظر نہیں آئی۔زندگی وسیع تر تناظر میں ’’معمول‘‘ کے مطابق رواںرہی۔پاکستانیوں کا مزاج ویسے بھی اپنی ترکیب میں ’’خاص‘‘ ہے۔’’جو رات قبر میں آنی ہے اسے کوئی ٹال نہیں سکتا‘‘ والی سوچ صدیوں سے ہمارے دل ودماغ میں موجود ہے۔’’یہ جینا بھی کوئی جینا ہے؟‘‘ والا سوال بھی ہماری اکثریت کو جان بچانے کے لئے ضروری شمار ہوتی تراکیب بروئے کار لانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ایک جارح کھلاڑی کی شہرت کے حامل عمران خان صاحب جبلی طورپر عوام میں مقبول خیالات سے بخوبی آگا ہ ہیں۔ اسی باعث وہ لاک ڈائون کو ’’اشرافیہ‘‘ کی ترجیح ٹھہراتے رہے۔دیہاڑی داروں اور کم آمدنی والوں کی مشکلا ت کا بارہا تذکرہ کرتے ہوئے Herd Immunityکے تصور کو پھیلاتے محسوس ہوئے۔محض حقائق پر نگاہ رکھیں تو پاکستان جنوبی ایشیاء کا واحد ملک نہیں جہاں کرونا نے ویسی قیامت برپا نہیں کی جو اٹلی اور امریکہ جیسے ممالک میں نظر آئی۔ایک ارب 30کروڑ کی آبادی والے بھارت میں جہاں نئی دلی ،ممبئی اور کلکتہ جیسے شہر ہیں اور لاکھوں افراد کچی بستیوں میں ہجوم کی صورت آباد ہیں کرونا کی وجہ سے ہوئی اموات کی شرح عالمی تناسب کے مقابلے میں بہت کم رہی۔ جنوبی ایشیاء میں ابھرے حقائق نے عالمی سطح پر مستند گردانے کئی ماہرینِ وبائی امراض کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اس ’’خاص بات‘‘ کا سراغ لگایا جائے جو جنوبی ایشیاء کے لوگوں کو کرونا سے تقریباََ محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ اس حوالے سے کئی تھیوریاں ہمارے سامنے آئی ہیں۔سب سے مقبول یہ تھیوری رہی کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بچوں کو پیدائش کے بعد مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے جو ٹیکے لگائے جاتے ہیں وہ شاید ان کے جسم میں فطری طورپر موجود مدافعتی نظام کو توانا تر بنادیتے ہیں۔کرونا اسی باعث جنوبی ایشیاء میں قیامت خیز مناظر نہیں دکھاپایا۔ ملیریا سے بچائو کے لئے استعمال ہوئی ادویات اور سپرے وغیرہ کا ذکر بھی ہوا۔عالمی ادارئہ صحت مگر ان ’’ٹامک ٹوئیوں‘‘ سے متاثر نہیں ہورہا۔ اسے بدستور یہ خدشہ لاحق ہے کہ کرونا کا وائرس جنوبی ایشیاء میں اپنا حتمی اثر دکھانے کے لئے شاید مزید کچھ ماہ لے سکتا ہے۔اسی باعث جون 2020کا فکرمندی سے انتظار ہورہا ہے۔چند ماہرین اس مہینے میں ابھری ممکنہ تصویر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ستمبر2020کے بارے میں پیش گوئیوں سے خوفزدہ ہوئے اجتناب برت رہے ہیں۔ربّ کریم سے ہم رحم کی فریاد کے علاوہ اور کچھ لہٰذا کر ہی نہیں سکتے۔وبائی امراض کے ضمن میں رپورٹر سے کالم نگار ہوا صحافی قطعاََ جاہل ہے۔میرے سادہ لوح اور امید پرست دل ودماغ کو جبلی طورپر مگر یہ محسوس ہورہا تھا کہ شاید ہمارے ہاں گرمی کی شدت کرونا پھیلاتے وائرس کو کافی حد تک بے بس بنادے گی۔جمعرات 14مئی کی صبح مگر بجلی کی کڑک دارآواز نے مجھے بیدار کیا۔یہ کالم ختم کرتے ہوئے دوپہر کے بارہ بج چکے تھے۔ موسلادھار بارش اور بجلی کی کڑک بدستور جاری تھی۔مئی کے مہینے میں بے موسم کی ہوئی یہ بارشیں میرے وسوسوں بھرے دل کو خوفزدہ بنارہی ہیں۔