دنیا میں اگر کروڑوں نہیں تو لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو ہاتھ نہیں دھوتے۔ وہ صفائی کے اتنے سادہ سے طریقے کو نہیں اپناتے اور ہم انھیں ہاتھ دھونے پر کیسے مائل کر سکتے ہیں؟
فاکس نیوز کے ایک مشہور اینگر پیٹ ہیگسیتھ نے 2019 میں کہا کہ ’میرا نئے سال کا عہد یہ ہے کہ میں ایسی چیزیں آن ایئر کہوں گا جنھیں میں پہلے کہنے میں ہچکچاتا تھا۔‘
پیٹ ہیگستھ نے اپنے بارے میں جو پہلی بات کہی اس سے انٹرنیٹ پر آگ سی لگ گئی۔ انھوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ میں نے پچھلے دس برسوں سے ہاتھ نہیں دھوئے۔‘
ان کے اس انکشاف پر خوب بحث ہوئی۔ ہیگسیتھ اکیلے ایسے شخص نہیں ہیں جو ہاتھ دھونا معیوب سمجھتے ہیں۔ اداکارہ جنیفر لورینس نے 2015 میں اس وقت لوگوں کو حیران کیا جب انھوں نے کہا کہ وہ باتھ روم میں جانے کے بعد کبھی ہاتھ نہیں دھوتیں۔
ان دونوں لوگوں نے بعد میں کہا کہ انھوں نے مذاق میں ایسا کہا تھا۔
2015 میں نارتھ شمالی کیرولائنا میں ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نے کہا کہ ان کی نظر میں ریستوران کے ملازمین کے لیے بار بار ہاتھ دھونے کی شرط غیرضروری ہے۔
دس برسوں تک ہاتھ نہ دھونا تو شاید کوئی ورلڈ ریکارڈ ہو لیکن یہ ہر کسی کے مشاہدے میں ہے کہ باتھ روم میں جانے کے بعد ہاتھ نہ دھونے کا رجحان کافی پھیلا ہوا ہے۔
2015 میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ باتھ روم جانے کے بعد، جہاں انسانی فضلہ ہاتھ میں لگنے کے امکانات ہوتے ہیں، صرف 26 فیصد لوگ ایسے ہیں جو رفع حاجت کے بعد صابن سے ہاتھ دھوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 74 فیصد ایسا نہیں کرتے۔
عام بات جسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے
لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کے ایک ماہر رابرٹ انگر کے مطابق یہ ایک سادہ سا رویہ ہے۔
رابرٹ انگر کہتے ہیں کہ ہم 25 برسوں سے لوگوں کو ہاتھ دھونے پر قائل کر رہے ہیں لیکن اب بھی باقاعدگی سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔
ہاتھ نہ دھونے کی ایک وجہ تو وسائل کی کمی ہو سکتی ہے۔ ایسے غریب یا ترقی پذیر ممالک کے شہریوں کے لیے صابن کی عدم دستیابی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق یہاں کی صرف 27 فیصد آبادی ایسی ہے جس کے پاس صابن کے ساتھ بیت الخلا کی ضروری سہولیات ہیں۔
لیکن ایسے ممالک جہاں یہ مسئلہ نہیں ہے وہاں لوگ ہاتھ دھونے میں کیوں عار محسوس کرتے ہیں؟ ڈبلیو ایچ اور اور یونیسیف کے مطابق دنیا کی تین ارب آبادی کے گھروں میں ہاتھ دھونے کی مناسب سہولیات موجود نہیں ہیں۔
امیر ممالک میں بھی باتھ روم میں جانے کے بعد صابن سے ہاتھ دھونے کی شرح 50 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار حیران کن ہیں۔
زندگی بچانے والی ترکیب
انسانی تاریخ میں ہاتھ دھونے کی عادت نے انسانی زندگی کی طوالت کو تقریباً دگنا کر دیا ہے۔
برطانیہ جیسے امیر ممالک میں اب اوسط عمر 80 سال کے قریب ہے۔ اسی برطانیہ میں 1850 میں جب پہلی بار ہاتھ دھونے کی عادت کو فروغ دیا گیا اس وقت یہاں اوسط عمر صرف 40 برس کے لگ بھگ تھی۔
اگر آپ باقاعدگی سے ہاتھ دھوتے ہیں تو آپ وبائی امراض اور سپر بگز سے بھی بچ سکتے ہیں۔
2006 میں ہونے والے ایک جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ باقاعدگی سے ہاتھ دھونے سے آپ کے سانس کی بیماریوں سے بچنے کے امکانات چھ سے 44 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔
کووڈ 19 کی وبا کے دوران سائنسدانوں نے یہ محسوس کیا کہ ہاتھ دھونے کے عادت نے برطانوی عوام کو اس وبا سے بچنے میں مدد کی ہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ تو ہینڈ سینیٹائزر کے لیے 360 پاؤنڈ خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں جبکہ کچھ ہاتھ دھونا بھی گوارا نہیں کرتے۔
اگر نئے وائرس کے پھیلاؤ اور ہوٹل کے کمرے میں موجود ریمورٹ کنٹرول کے ساتھ انسانی فضلہ لگا ہونے کی کہانیاں بھی ہمیں ہاتھ دھونے پر آمادہ نہیں کر سکتیں تو کیا چیز ہمیں ایسا کرنے کی ترغیب دے سکتی ہے۔
باتھ روم میں جانے کے بعد ہاتھ نہ دھونے کی عادت کو آپ صرف سستی اور کاہلی سے تعبیر نہیں دے سکتے۔
ایسے کئی نفسیاتی عناصر ہیں جو خفیہ طور پر لوگوں کو ہاتھ دھونے سے روکتے ہیں۔ اس میں لوگوں کے سوچنے کا انداز اور خود کو دھوکہ دینے والی خوش فہمی بھی شامل ہیں۔ ’عام‘ سوچنا اور گندگی سے گھن نہ آنا دیگر وجوہات ہوسکتی ہیں۔
رابرٹ انگر کے مطابق ایک مسئلہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں آپ ہاتھ دھوئے بغیر کئی مرتبہ بیمار نہیں ہوتے۔
خوش فہمی سے بچیں
خوش فہمی کی ایک وجہ وہ انسانی رویہ ہے کہ ہم بُری چیزوں سے بچ جائیں گے اور یہ تو دوسرے لوگوں کے لیے ہی ہیں۔ یہ رویہ کسی ایک قوم، قیبلے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ عالمگیر ہے اور دنیا کے کونے کونے میں پایا جاتا ہے۔
انسانوں میں اس کی ایک واضح شکل تمباکو نوشی ہے یا کچھ لوگ ایسے کریڈٹ کارڈ لینا پسند کرتے ہیں جو انھیں مہنگا پڑتا ہے۔ لوگ ان کے نقصانات کو جانتے ہوئے بھی یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ انھیں اس سے نقصان نہیں ہو گا۔
2009 میں جب سوائن فلو کی وبا کے دوران امریکہ میں ایک بڑی یونیورسٹی نے ایک تحقیق کی جس میں یہ سامنے آیا کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کہ سمجھتی تھی کہ یہ وبا انھیں متاثر نہیں کر سکتی اور اسی وجہ ان میں ہاتھ دھونے کی شرح دوسری عمر کے لوگوں کی نسبت بہت کم تھی۔
یہ خوش فہمی یا پرامیدی ان طالب علم نرسوں میں بھی پائی گئی جنھیں صفائی ستھرائی کی تربیت دی جا رہی تھی۔
ان نرسوں کو صفائی کے حوالے سے اپنی تعلیم پر بہت اعتماد تھا، ایسے ہی جیسے خوراک کے کاروبار سے منسلک لوگ اپنی عدم صفائی سے دوسرے لوگوں میں بدہضمی کے امکانات کو بہت کم اہمیت دیتے ہیں۔
سماجی رویوں کی اہمیت ہے؟
ہاتھ دھونے کی نفسیات میں مختلف ثقافتی رویوں کا بہت عمل دخل ہے۔ اس حوالے سے فرانس میں ایک تحقیق ہوئی جس میں 63 ممالک کے 64002 لوگوں نے شرکت کی۔ اس سروے میں لوگوں سے یہ سوال پوچھا گیا: ’کیا آپ ٹوائلٹ کے استعمال کے بعد لازمی طور پر صابن سے ہاتھ دھوتے ہیں؟‘
جاپان، جنوبی کوریا، ہالینڈ سے اس تحقیق میں شریک آدھے سے بھی کم لوگوں نے اس سے اتفاق کیا۔
سعودی عرب وہ واحد ملک تھا جہاں کے شرکا کی 98 فیصد نے اتفاق کیا کہ وہ ٹوائیلٹ کے استمعال کے بعد وہ عادتاً صابن سے ہاتھ دھوتے ہیں۔
عورتوں میں ہاتھوں کی صفائی مردوں سے زیادہ
ہاتھ دھونے کی عادت کے بارے میں ہونے والی تحقیققات میں خواتین ہمیشہ مردوں سے بہتر پائیں گئیں۔
کورونا کی حالیہ وبا کے حوالے سے ایک سروے یہ سامنے آیا کہ باون فیصد مرد اور 65 فیصد عورتیں باقاعدگی کے ساتھ اپنے ہاتھ صاف کرتی ہیں۔
ماہر صفائی انگر کے خیال میں ہاتھ دھونے کے حوالے سے مختلف عادات کی وجہ وہ سماجی رویے ہیں جو مختلف معاشروں میں پائےجاتے ہیں۔
‘یہ پیچیدہ نفسیاتی نظام ہیں جس میں لوگ وہ کرتے ہیں جو دوسرے لوگ کر رہے ہوتے ہیں اور لوگ اس کے بارے میں حساس ہوتے ہیں کہ اگر ایسا نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے۔‘
اگر ہم باتھ روم میں دوسرے لوگوں کو ہاتھ دھوتا ہوا دیکھتے ہیں تو ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں لیکن جب کوئی بھی نہیں کر رہا ہوتا ہے تو آپ پر بھی پریشر ہوتا ہے کہ آپ بھی ایسا نہ کریں۔
عوامی جگہوں پر عورتوں اور مردوں کے لیے الگ الگ ٹوائیلٹ ہوتے ہیں اور شاید دونوں صنفوں ہاتھ دھونے کے بارے میں مختلف رویوں کا اظہار ہوتا ہے۔
عقل بمقابلہ عملی سوچ
سائنسدانوں کی جانب سے ہاتھ نہ دھونے کی نفسیات کو سمجھنے کی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ ہسپتالوں میں لوگوں کی زندگیوں کو بچانے کی تربیت حاصل کرنے والوں میں سے بھی اگر کچھ ہاتھ دھونے کی بنیادی سی عادت کو اپنانے سے گریز بہت سے مہلک وائرسوں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔
دوہزار سات میں سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ آسٹریلیا کے ہسپتالوں میں صرف دس فیصد ایسے سرجن ہیں جو آپریشن شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتے ہیں اور آپریشن کے بعد ان میں ہاتھ دھونے کی شرح 30 فیصد ہے۔
ایک حالیہ ریسرچ میں بھی ڈاکٹروں میں اسی طرح کے رجحانات سامنے آئے ہیں۔
2019 میں کیوبیک کے ہسپتال میں ہونے والی ریسرچ میں یہ سامنےآیا ہے کہ ہیلتھ کیئر ورکروں میں صرف 33 فیصد ایسے ہیں جن میں ہاتھ دھونے کی عادت ہے۔ حتیٰ کہ سعودی عرب جہاں ہاتھ دھونے کے رواج پر بہت سختی سے عمل ہوتا ہے، وہاں کا میڈیکل عملہ بھی اکثر ہاتھوں کی صفائی کا زیاد خیال نہیں رکھتا۔
عام لوگوں کی طرح تمام ڈاکٹر بھی بے قصور نہیں ہیں۔ 2008 میں ہونے والی ایک تحقیق میں معلوم ہوا کہ ایسے ڈاکٹروں میں ہاتھ دھونے کی شرح زیادہ ہے جو واجدانی کیفیت کے سہارے فیصلہ کرتے ہیں ایسے اکٹروں کی نسبت جو فیصلہ کرتے ہوئے استدال کا سہارا لیتے ہیں۔
اس تحقیق سے ہمیں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہاتھ دھونے سے متعلق دلیلیں شاید لوگوں کو ہاتھ دھونے پر قائل کرنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ ایک ماہ پہلے برازیل میں ہونے والی تحقیق میں ایک نیا وصف سامنے آیا ہے اور وہ ہے باضمیری۔ اس تحقیق کے نتائج کے تحت باضمیر لوگ ‘سماجی فاصلوں’ اور ہاتھ دھونے کے حوالے سے سب سے بہتر نظر آئے۔
کراہت کا عنصر
اور آخر میں ہاتھوں کی صفائی کے حوالے سے کراہت بھی ایک اہم عنصر ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ کو کیڑوں مکوڑوں سے آلودہ جگہ پر گوشت کے ٹکڑے دیکھ کر اگر آپ کو کراہت محسوس ہوتی ہے تو یہ احساس آپکو ایسا کوشت کھانے سے روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اسی طرح اگر ٹرین میں کوئی ایسا مسافر دیکھ کر جس نے گندہ ٹشو ہاتھ میں پکڑ رکھا ہے اور آپ اپنی جگہ بدل لیتے ہیں تو آپ مرض آور جراثیموں سے بچ سکتے ہیں۔
چڑیا گھر میں چیمپینزی اپنی گندگی بھی کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن وہ بھی کسی اور کے جسم سے نکلے ہوئے مادے سے کراہت محسوس کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ کراہت صرف انسانی تمدن کی پیدوار نہیں ہے بلکہ اس کا ارتقا انسانی تحفظ کے لیے ہوا ہے۔
انسانوں میں دوسرے جذبات کی طرح کراہت کا احساس بھی مختلف ہوتا ہے۔
کراہت درحقیقت ایک طاقتور قوت ہے جو ہمارے سیاسی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ مثال کے طور ایسے لوگ جن میں کراہت کا احساس بہت شدید ہوتا ہے وہ اکثر کنزرویٹو پارٹی کے حامی ہوتے ہیں۔
حسب توقع تمام تحقیقات اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ایسے لوگ جو زیادہ نازک مزاج نہیں ہیں ان میں ہاتھ نہ دھونے کی عادت زیادہ پائی جاتی ہے اور جب ہاتھ دھوتے بھی ہیں تو زیادہ دیر تک ہاتھ پانی کے نلکے کے نیچے نہیں رکھتے۔
ایتھوپیا اور ہیٹی میں ہونے والی ایک ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراہت کی شدت کے احساس کا اس بات سے زیادہ تعلق نہیں کہ لوگ حفظان صحت کے اصولوں کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں یا نہیں۔
ان تعصبات پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے
پچھلے کچھ ہفتوں میں صحت کے ادارے، خیراتی ادارے، سیاستدان اور عام لوگوں نے مل کر ہاتھ دھونے کی ایک ایسی پرجوش مہم چلا رکھی ہے جس کی کوئی حالیہ مثال ہمارے سامنے موجود نہیں ہے۔ مشہور اداکار بھی اس مہم کا حصہ بن گئے اور یہ صحیح ہاتھ دھونے کے طریقے بتانے لگے ہیں۔ انٹرنیٹ صفائی کی مہم سے بھر پڑا ہے، حتیٰ کہ پورن ویب سائٹس بھی صفائی کی مہم میں شریک ہو گئی ہیں۔ پورن ہب نامی ویب سائٹ بھی ہاتھوں کی صفائی کے حوالے سے اپنے صارفین کو طریقے سکھا رہی ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حفظان صحت کے منافی نفسیاتی رویوں کو جانتے ہوئے حفظان صحت کی مہم سے لوگوں کو ہاتھ دھونے پر مائل کیا جا سکتا ہے؟
آسٹریلیا کی میگوائر یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر سٹیونسن کے خیال میں ہاتھ دھونے کے عمل کو زیادہ پرکشش اور پرمسرت بنانے کے بجائے کراہت کے راستے پر چل کر لوگوں کو اس طرح مائل کیا جانا چاہیے۔
2009 میں پروفیسر سٹیونسن نے کچھ طالب علموں پر ایک تجربہ کیا۔
ان طالب علموں سے ہاتھ دھونے کی عادات اور کراہت کے احساس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد ان طالب عملوں سے کہا گیا کہ وہ ان تین فلموں میں سے ایک کو منتخب کر کے اسے دیکھیں۔
جو تین فلمیں طالب علموں کو پیش کی گئیں ان میں ایک خاص تعلیمی ویڈیو تھی جبکہ دوسری ویڈیو کراہت انگیز مناظر سے بھرپور جبکہ تیسری ایک غیر متعلق فطرت پر ڈاکومنٹری تھی۔
ایک ہفتے کے بعد ان طالب علموں کو واپس بلایا گیا اور ایک ہی میز پر بٹھا دیا گیا۔ ان کے قریب ہی جراثیم کش وائپس، اورالکوہل ہینڈ جیل بھی رکھ دی گئیں۔
پھر ان طالب علموں کو ایسی کراہت انگیز چیزیں پیش کی گئی جنھیں عام طور پر لوگ ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کرتے۔
اس تجربے میں طالب علموں سے کہا گیا کہ ان کراہت انگیز چیزوں کو چھوئیں اور پھر انھیں پلیٹ میں کھانے کی چیز پیش کی گئی۔ تحقیق کار یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ رضاکار کھانے سے پہلے قریب ہی پڑے ہوئے جراثیم کش وائپس یا الکوہل جیل کا استمعال کریں گے یا نہیں۔
ایسے طالب علم جنھوں نے کراہت والی فلم دیکھی تھیں وہ ہاتھوں کی صفائی کی جانب زیادہ مائل تھے۔ اس تحقیق میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ کراہت والی تکنیک کو عام زندگی میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کچھ باتھ رومز میں خفیہ طریقے سے فلمنگ کر کے تحقیق کار اس نتیجے پر پہنچے کہ ایسے لوگ ہاتھ دھونے پر زیادہ مائل تھے جنھیں نے ایسے پوسٹر رکھے تھے جن میں روٹی پر پاخانہ لگا ہو۔ ایسے پوسٹرز کا مقصد یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ اگر آپ ہاتھ نہ دھوئیں تو جراثیم کیسے پھیلتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ رضاکار ہاتھ دھونے میں زیادہ پُرجوش دکھائی نہیں دیے جنھوں نے تعلیمی نوعیت کی ویڈیو دیکھی تھیں۔
کسی کو نہیں معلوم کہ ہاتھ دھونے کے بارے میں ہونے والے تجربے کے دوران جو چیزیں سیکھی گئی ہیں اس پر کتنے عرصے تک کاربند رہتے ہیں۔ لیکن یہ واضح ہے کہ صرف زبانی ہدایت کرنے سے انھیں مستقل ایسا کام پر نہیں لگایا جا سکتا لیکن اگر انھیں کراہت کے ذریعے جھٹکا دینے والی تکنیک کو اپنایا جائے تو وہ زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے۔
اب جب کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ ہاتھ دھونے پر توجہ دے رہے ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسے عادات میں بدلا جا سکتا ہے۔
لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ہاتھ دھونے کے موجودہ رجحان کو برقرار رکھا جا سکتا ہے یا نہیں لیکن ایک چیز واضح ہےکہ اب مشہور شخصیات آ کر لوگوں کو یہ نہیں بتا پائیں گیں کہ انھوں نے اتنے عرصے سے ہاتھ ہی نہیں دھوئے۔