فیچرز

چین کی ’غربت مکاؤ‘ مہم: سیڑھی کے ذریعے پہاڑ کی چوٹی پر اپنے گاؤں پہنچنے والوں کو شہر میں منتقل کر دیا گیا

Share

وہ 800 میٹر اونچی چٹان کو اپنا گھر کہتے تھے، لیکن اب سیچوان صوبے کے درجنوں گاؤں والوں کو شہری ہاؤسنگ ایسٹیٹ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

آٹولیئر گاؤں اس وقت مشہور ہوا جب ایسی تصاویر چھپیں جن میں بالغ افراد اور بچے خطرناک طریقے سے بید کی سیڑھیوں پر پہاڑ کی چوٹی تک جا رہے تھے۔

اب غربت کم کرنے کی مہم کی مد میں تقریباً 84 گھرانوں کو نئے بننے والے فلیٹس میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

یہ 2020 تک غربت ختم کرنے کی بڑی قومی مہم کا ایک حصہ ہے۔

’بہت خوش ہوں کہ مجھے گھر مل گیا ہے‘

آٹولیئر گاؤں 2016 میں اس وقت شہ سرخیوں میں آیا جب یہ سامنے آیا کہ اس کے رہائشیوں کو خطرناک سیڑھیاں چڑھ کر اپنے گھروں تک پہنچنا پڑتا ہے اور انھوں نے ضروری ساز و سامان کے ساتھ اپنے بچے بھی کاندھوں پر اٹھائے ہوتے تھے۔

حکومت نے فوری مداخلت کی اور بید کی سیڑھیوں کی جگہ سٹیل کی سیڑھیاں لگا دیں۔

اب ان گھرانوں کو 70 کلو میٹر دور زاؤجی کے شہر میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

کیا آپ کا روزانہ کا سفر مشکل ہے؟

ان کو فرنیچر سے آراستہ اپارٹمنٹ بلاکس میں منتقل کیا جا رہا جو خاندان کے افراد کی مناسبت سے 50، 75 اور 100 سکوائر میٹر کے ہیں۔

یہ ان گاؤں والوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو یی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں اور آٹولیئر میں کئی نسلوں سے رہ رہے ہیں۔

چینی میڈیا پر دکھائی گئی فوٹیج میں ایک شخص کو سی جی ٹی این چینل کو خوشی سے یہ بتاتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ ’میں بہت خوش ہوں کیونکہ آج مجھے ایک اچھا گھر مل گیا ہے۔‘

’بڑا اقتصادی بوجھ‘

یونیورسٹی آف میلبرن کے جغرافیہ کے پروفیسر مارک وانگ کے مطابق اس طرح کی ہاؤسنگ سکیموں کو حکومت بہت زیادہ سبسڈی دیتی ہے، جو عموماً 70 فیصد تک ہوتی ہے۔ تاہم ایسا بھی ہوتا ہے کہ امداد کے باوجود خاندان ان اپارٹمنٹس کا ’بوجھ‘ نہیں اٹھا پاتے۔

پروفیسر وانگ نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’کچھ غریب گاؤں والوں کے لیے بقیہ 30 فیصد اکٹھا کرنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے، سو اس کے لیے انھیں پیسے ادھار لینا پڑتے ہیں، جس سے ان پر مزید قرض چڑھ جاتا ہے۔‘

’زیادہ غریب افراد کے لیے یہ ایک بڑا اقتصادی بوجھ ہے۔‘

چینی سرکاری اخبار چائنا ڈیلی کے مطابق ہر شخص کو اس منتقلی کے لیے 2 ہزار 500 یوان (352 ڈالر) دینا پڑیں گے، سو چار افراد پر مشتمل خاندان کے لیے یہ رقم تقریباً 10 ہزار یوان بن جائے گی۔

گاؤں جانے کا راستہ
گاؤں والوں کو اپنے گھروں تک پہنچنے کے لیے یہ راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا

پروفیسر وانگ کہتے ہیں کہ یہ بہت کم رقم ہے، کیونکہ انھوں نے سن رکھا ہے کہ اس طرح کی رہائش کے لیے مقام کی تبدیلی کے پراجیکٹس میں لوگوں کو 40 ہزار یوان تک بھی دینا پڑے ہیں۔

وانگ کہتے ہیں کہ اکثر غربت کی وجہ سے رہائش کی تبدیلی کی مہم میں گاؤں والوں کی مرضی پوچھی جاتی ہے کہ وہ جانا چاہتے ہیں کہ نہیں، اور اکثر دیہی علاقوں سے شہروں میں منتقل نہیں ہوتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اکثر اوقات یہ منتقلی کاؤنٹی ٹاؤن یا مضافات میں ہوتی ہے۔ سو ایسا نہیں کہ وہ کسی بڑے شہر میں منتقل ہو رہے ہیں۔ سبھی لوگ شہری زندگی نہیں چاہتے اور جو چاہتے ہیں وہ پہلے ہی گاؤں چھوڑ کر بڑے شہروں میں بس چکے ہوتے ہیں۔

’عموماً حکومت دوبارہ آباد کرنے کی جگہ کے فاصلے کی ایک حد مقرر کرتی ہے۔ یہ اکثر لوگوں کے لیے اچھا ہے کیونکہ اس سے وہ اپنے فارم اور زمین کو اپنے پاس رکھ سکتے ہیں، جو کہ نہایت دلکش بات ہے۔‘

آٹولیئر کے رہائشی سچوان صوبے میں واقع اس نئے اپنارٹمنٹ کمپلیکس میں دوسرے غریب افراد کے ساتھ رہیں گے۔

نئے اپارٹمنٹ بلاک
گاؤں والے ان اپارٹمنٹس میں رہیں گے

تقریباً 30 گھرانوں نے آٹولیئر گاؤں میں ہی رہنے کو ترجیح دی ہے، جو کہ ایک سیاحتی مرکز میں تبدیل ہو رہا ہے۔

اخبار چائنا ڈیلی کے مطابق یہ گھرانے دراصل مقامی سیاحت کے انچارج ہوں گے، ہوٹل چلائیں گے اور سیاحوں کو سیر کرائیں گے۔

کاؤنٹی حکومت بڑے وسیع منصوبے بنا رہی ہے جس میں سیاحوں کو گاؤں تک پہنچانے کے لیے ایک کیبل کار لگانا اور ارد گرد کے علاقوں کی ترقی بھی شامل ہے۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گاؤں کو چھٹیاں منانے کے لیے ایک ریزورٹ میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بھی ہے جس میں ریاست کا چھ کروڑ 30 لاکھ یوان کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ہے۔

اگرچہ اس طرح کے ترقیاتی منصوبوں سے علاقے میں مزید نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے لیکن ابھی تک یہ سامنے نہیں آیا کہ اس جگہ کے ماحول کے تحفظ کے لیے کیا انتظامات کیے جا رہے ہیں اور کیا یہاں غیر ضروری تعمیرات کا رسک تو موجود نہیں ہے۔

چینی صدر شی جِن پنگ نے اعلان کیا تھا کہ 2020 تک چین سے غربت ختم کر دی جائے گی۔

چین کے مختلف علاقوں میں غربت کی کوئی ایک تعریف نہیں ہے اور یہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں بدلتی رہتی ہے۔

ایک قومی معیار جس کا سب سے زیادہ ذکر کیا گیا ہے وہ ایک سال میں کل آمدنی دو ہزار 300 یوان (331 ڈالر) ہے۔ اس معیار کے مطابق 2017 میں پورے چین میں تقریباً تین کروڑ لوگ غربت کے لکیر سے نیچے رہ رہے تھے۔

لیکن 2020 کی ڈیڈ لائن تیزی سے قریب آ رہی ہے اور پروفیسر وانگ کہتے ہیں کہ وائرس کی وبا کی وجہ سے یہ منصوبہ پٹڑی سے اتر سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ویسے تو کووڈ 19 کے بغیر بھی اس ڈیڈ لائن کو پورا کرنا بہت مشکل کام تھا اور اب اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو ایسا کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔‘