دنیابھرسے

کورونا وائرس: چین کے دفاع پر مامور سخت لہجے والے سفارتکاروں کی فوج

Share

ایک دور تھا جب چینی ریاست کاری محتاط اور پوشیدہ ہوا کرتی تھی۔

سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اپنی تحریر ’ڈپلومیسی‘ میں لکھا تھا کہ ’بیجنگ کی سفارتکاری اتنی نازک اور بالواسطہ تھی کہ یہ بڑی حد تک واشنگٹن میں ہمارے سروں سے گزر جاتی تھی۔‘

مغرب کی حکومتیں چین کے پالیسی ساز ادارے پولٹ بیورو سے آنے والے مبہم بیانات کو سمجھنے کے لیے چینی امور کے ماہرین کی خدمات حاصل کیا کرتی تھیں۔

چین کے سابق رہنما ڈینگ ژاؤپنگ کی سربراہی میں ملک کی واضع حکمت عملی ’اپنی صلاحیت کو چھپانا اور وقت لینا‘ تھی۔ لیکن اب ایسا بالکل نہیں ہے۔

چین نے سوشل میڈیا کی دنیا میں واضح طور پر زیادہ متحرک رہنے والے سفارتکاروں کو بھیجا ہے جو وقت آنے پر بغیر آنکھ جھپکے ہر سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔ اب ان کا مقصد کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے چینی اقدامات کا دفاع کرنا ہے اور ایسے عناصر کو جواب دینا ہے جو بیجنگ کے مؤقف پر سوال اٹھاتے ہیں۔

چین، دفاعی پالیسی، سفارتکار

لہذا انھوں نے دنیا بھر میں پھیلے اپنے سفارتخانوں سے ٹویٹس اور پوسٹس کی برسات کر دی ہے۔ اور وہ برابری کی سطح پر طنز کرنے یا جارحانہ انداز اپنانے میں ذرا بھی پیچھے نہیں ہیں۔

یہ ان کی تکنیک کا نیا پن ہے کہ انھیں ایکشن فلموں کی بنیاد پر ’وولف واریئرز‘ سفارتکار کہا جاتا ہے۔

’وولف واریئر‘ اور ’وولف واریئر ٹو‘ انتہائی مقبول فلمیں ہیں جن میں چینی خصوصی فورسز امریکہ کے زیرِ قیادت فورسز اور دوسروں سے مدمقابل ہوتی ہیں۔ یہ فورسز پرتشدد اور انتہائی قوم پرست ہوتی ہیں۔

ایک ناقد نے انھیں ’چینی خصوصیات والا ریمبو‘ بھی کہا ہے۔ ایک تشہیری پوسٹر میں ایک مرکزی کردار کو اپنی درمیانی انگلی اٹھائے دکھایا گیا ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہے کہ ’جو بھی چین کو ٹھیس پہنچائے گا، چاہے وہ کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، اسے ختم کر دیا جائے گا۔‘

چین سفارتکار

چینی کمیونسٹ پارٹی کے اخبار گلوبل ٹائمز نے اپنے ایک حالیہ اداریے میں کہا ہے کہ عوام ’اب کسی نرم سفارتی لہجے سے مطمئن نہیں ہوتے۔‘ اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ مغرب کے لیے چین کی نئی ’وولف واریئر‘ سفارتکاری ایک چیلنج ہے۔

ایک نئی قسم کی زبان

شاید اس ’وولف واریئر‘ کی اچھی مثال چینی وزارت خارجہ کے نوجوان ترجمان ژاؤ لی جیان ہیں۔ وہی وہ عہدیدار ہیں جنھوں نے بغیر کسی شواہد کے کہا تھا کہ ’یہ بہت حد تک ممکن ہے کہ کورونا وائرس کو امریکہ چینی شہر ووہان لایا تھا۔‘

ٹوئٹر پر چھ لاکھ سے زیادہ لوگ انھیں فالو کرتے ہیں اور وہ تقریباً ہر گھنٹے اس بڑی تعداد کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ چین کی تشہیر اور اس کے دفاع میں کیے جانے والے پیغامات کو ٹویٹ اور ری ٹویٹ کرتے رہتے ہیں۔

یقیناً دنیا میں کہیں کے بھی سفارت کاروں کو یہی کام کرنا چاہیے۔ ان کا کام ہی یہی ہے کہ وہ اپنے ملک کے قومی مفاد کو فروغ دیں۔ لیکن شاید ہی کوئی سفارت کار ایسی زبان استعمال کرتا ہو جو غیر سفارتی ہو۔

انڈیا میں چینی سفارت خانے کی مثال لے لیں۔ جب چین سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس وائرس کو پھیلانے پر معاوضہ ادا کرے تو سفارت خانے کی جانب سے اسے ’مضحکہ خیز اور حیران کن بکواس‘ قرار دیا گیا۔

نیدرلینڈز میں چین کے سفیر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ’نسل پرست رویے سے بھرپور‘ ہونے کا الزام لگایا۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے وائرس سے بچنے کے طریقوں پر کافی ردعمل سامنے آیا۔ بیجنگ میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے چیف ترجمان نے ٹویٹ کیا ’مسٹر صدر درست ہیں۔ کچھ لوگوں کو ڈس انفیکٹینٹ کا ٹیکہ لگانے کی ضرورت ہے یا کم سے کم انھیں اس سے کلی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح وہ بات کرتے وقت وائرس، جھوٹ اور نفرت نہیں پھیلائیں گے۔‘

لندن میں چین کے ’وولف واریئر‘ ما ہوئی ہیں جو سفارت خانے کی شخصیت نمبر تین ہیں۔ ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کا نام ‘وار ہورس’ یعنی جنگ کا گھوڑا ہے۔

انھوں نے ٹویٹ کیا ‘کچھ امریکی رہنما اتنا گِر گئے ہیں کہ انھوں نے جھوٹ بولنا، غلط معلومات دینا، الزام تراشی کرنا اور (دوسروں کو) بدنام کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ بات انتہائی قابل حقارت ہے لیکن ہمیں پستی کی جانب لگی اس دوڑ میں اپنے معیار نہیں گرانے چاہییں۔ انھیں اخلاقیات، دیانتداری کی زیادہ پرواہ نہیں ہے لیکن ہمیں قدر ہے۔ ہم ان کی حماقتوں کے خلاف لڑ سکتے ہیں۔‘

ہوسکتا ہے کہ آپ کو یہ سوشل میڈیا پر ہونے والی رام نوک جھوک لگے۔ لیکن چین کے لیے یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔

جرمن مارشل فنڈ (جی ایم ایف) نامی تھنک ٹینک کی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ گذشتہ سال کے دوران چین کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹس میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ٹویٹس میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔

جی ایم ایف کی سینئر رکن کرسٹین برزینا نے کہا ’یہ اس سے بہت مختلف ہے جس کی توقع ہم چین سے کرتے ہیں۔

‘ماضی میں چین کی پالیسی عوامی سطح پر ملک کی مثبت تصویر دکھانا رہی ہے۔ دوستی کی جانب حوصلہ افزائی دیکھی گئی ہے۔ مختلف سرکاری پالیسیوں کو چیلنج کرنے کے بجائے خوبصورت پانڈا کی ویڈیوز زیادہ عام رہی ہیں۔ لہذا یہ واقعی ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔‘

چین پالیسی

اور یہ واضح طور پر چین کے حکام کی طرف سے ایک پالیسی ہے۔ وہ اپنی مہم پر کی توجہ ’ماسک ڈپلومیسی‘ کہلائی جانے والی پالیسی پر مرکوز رکھ سکتے یعنی دنیا بھر میں حفاظتی طبی کٹ کا عطیہ اور فروخت پر۔

اس سے چین کے نرم رویے کی شبیہ کو فروغ ملا کیوںکہ دوسرے ممالک اس وبا سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

لیکن اس طرح کی خیر سگالی کی کوششیں جو اس کی ’ہیلتھ سِلک روڈ‘ کے ذریعے بھی کی گئی تھیں، انھیں بظاہر ’وولف واریئرز‘ کی جارحیت سے نقصان پہنچ رہا ہے۔

ناراض سفیر

آسٹریلیا میں چین کے سفیر چینگ جینگے اپنے میزبانوں کے سات جھگڑے میں مصروف ہیں۔ جب آسٹریلوی حکومت نے وائرس کے نقطہ آغاز کے بارے میں آزاد بین الاقوامی تحقیقات کی حمایت کی تو مسٹر چینگ نے اشارہ کیا کہ چین آسٹریلوی سامان کا بائیکاٹ کرسکتا ہے۔

انھوں نے آسٹریلوی فنانشل ریویو کو بتایا ’شاید عام لوگ یہ بھی کہیں گے کہ ہم آسٹریلیا کی شراب کیوں پیئیں یا یہاں کی گائے کا گوشت کیوں کھا‏ئیں؟’

آسٹریلیا کے وزرا نے ان پر ’معاشی جبر’ کی دھمکی دینے کا الزام عائد کیا۔ محکمہ برائے امور خارجہ اور تجارت کے عہدیداروں نے سفیر سے مطالبہ کیا وہ اس بیان کی وضاحت کریں۔

انھوں نے اس کا جواب سفارتخانے کی ویب سائٹ پر گفتگو کی تفصیل شائع کرتے ہوئے دیا جس میں انھوں نے آسٹریلیا سے مطالبہ کیا کہ ’سیاسی کھیل‘ بند کیا جائے۔

چین، آسٹریلیا، سفارتکاری
آسٹریلیا چین کو بڑے پیمانے پر وائن برآمد کرتا ہے لیکن یہ بدل سکتا ہے

چین نے رواں ہفتے چند آسٹریلوی گوشت کے کارخانوں پر درآمدی پابندی عائد کی اور آسٹریلوی ’جو‘ پر پابندی ل‍گانے کی دھمکی دی۔

پیرس میں چین کے سفیر لو شائے کو وزارت خارجہ نے چینی سفارتخانے کی ویب سائٹ پر تبصرے کی وضاحت کرنے کے لیے طلب کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’فرانس نے اپنے بوڑھوں کو کووڈ 19 کے دوران کیئر ہومز میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے‘۔

چینی سفارتی عملے کے خلاف شاید افریقی ممالک میں سب سے زیادہ سخت رد عمل سامنے آیا ہے جہاں نائجیریا، کینیا، یوگنڈا، گھانا اور افریقی یونین میں متعدد چینی سفیروں کو حالیہ ہفتوں میں افریقیوں کے ساتھ نسل پرستانہ اور امتیازی سلوک کی وضاحت کے لیے طلب کیا گیا تھا۔

نائجیریا کے ایوانِ نمائندگان کے سپیکر نے چینی سفیر کے ساتھ اپنے احتجاج کی ویڈیو بھی جاری کی۔

فارن افیئرز میگزین کے ایک مضمون میں سابق آسٹریلوی وزیر اعظم کیون رڈ نے کہا ہے کہ چین اپنی نئی حکمت عملی کی قیمت ادا کر رہا ہے۔

“Whatever China’s new generation of ‘wolf-warrior’ diplomats may report back to Beijing, the reality is that China’s standing has taken a huge hit (the irony is that these wolf-warriors are adding to this damage, not ameliorating it).

وہ کہتے ہیں ’چین کے ‘وولف واریئر’ سفارت کاروں کی نئی نسل بیجنگ کو جو بھی اطلاعات دے رہی ہے، اس سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ چین کے مؤقف کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

’اس وائرس کے پھیلاؤ پر چین مخالف رد عمل میں اکثر نسل پرستانہ الزامات لگائے گئے ہیں اور یہ انڈیا، ایران اور انڈونیشیا جیسے مختلف ممالک میں سامنے آیا ہے۔ چینی سافٹ پاور کے پارہ پارہ ہونے کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔‘

خطرہ یہ ہے کہ چین کے سفارتی رویے سے مغرب میں رویے مزید سخت ہوسکتے ہیں اور مغربی ممالک بیجنگ پر کم اعتماد دکھائیں گے اور اس کے ساتھ کم دوستی پر تیار ہوں گے۔

امریکہ کے صدارتی انتخابات میں چین پہلے ہی ایک مسئلہ بن چکا ہے جہاں دونوں امیدواروں میں بظاہر یہ مقابلہ ہے کہ چین کے ساتھ زیادہ سخت رویہ کون اپناتا ہے۔ برطانیہ میں کنزرویٹو اراکین پارلیمان چینی پالیسی پر زیادہ سے زیادہ جانچ پڑتال کے لیے منظم ہو رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا چین اور مغرب کے مابین یہ سفارتی تناؤ مزید سنگین تصادم کی طرف جائے گا؟ یہ معاملہ اس صرد اس لیہ اہم نہیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہوں گے بلکہ اس وقت دنیا کو آپسی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔

کم مدت میں کووڈ 19 ویکسین کی تحقیق، جانچ، پیداوار اور تقسیم کے لیے چین سمیت بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہوگی۔ اور طویل مدتی سطح پر زیادہ تر تجزیہ کار یہ توقع کرتے ہیں کہ عالمی معیشت کی بحالی کے لیے کسی نہ کسی طرح کی عالمی طور پر اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے امکانات کم ہی نظر آ رہے ہیں۔

واشنگٹن میں سینٹر برائے سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں ’چائنا پاور پراجیکٹ‘ کی ڈائریکٹر بونی گلیسر نے کہا ہے کہ ’اگر امریکہ اور چین نے عالمی وبائی امراض سے لڑنے میں مل کر کام کرنے کے لیے اپنے اختلافات ختم نہ کیے تو یقیناً یہ مشکل ہوگا کہ وہ اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کا راستہ تلاش کریں گے۔‘

کچھ پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ وبا کے بعد مغرب کو سٹریٹجک معملات میں چین پر انحصار کو کم کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی تعاون کے لیے ایک نیا فریم ورک تلاش کرنا پڑے گا۔

اور چین کی ‘وولف واریئر’ سفارتکاری کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا آسان نہیں ہوگا۔