ارطغرل اور منٹو کا ’ماتمی جلسہ‘
منٹو مرحوم پر برطانوی ہندوستان اور آزاد پاکستان میں فحاشی کے الزام میں چھ مقدمے چلائے گئے۔ پہلے پانچ مقدمات میں بری ہوئے البتہ 1953ء میں چھٹے مقدمے میں کراچی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مہدی علی صدیقی نے انہیں پچیس روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ بے شک پاکستان میں عدلیہ ہمیشہ قانون کی بالادستی کا روشن نشان رہی۔ دراصل ’اوپر، نیچے اور درمیان‘ کے عنوان سے منٹو نے اپنے وقت کے ایک زعیم سیاسی جوڑے کے روزگارِ خلوت پر روشنی ڈالی تھی۔ اے روشنی طبع تو بر من بلا شدی۔ سعادت حسن منٹو 18جنوری 1955ء کو انتقال فرما گئے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی نے ’ایک فحش نگار کے مرنے پر پاک و ہند میں سوگ ‘منائے جانے پر اظہار افسوس کیا تھا حالانکہ پاکستان میں ’غلام محمد جیسے دیندار شخص‘ کی حکومت تھی۔ یہ دیندار شخص غلام محمد 1956ء میں چل بسے۔ عبدالماجد دریابادی بھی یاس یگانہ چنگیزی اور سعادت حسن منٹو جیسے گمراہ افراد کا تعاقب کرتے کرتے 1977ء میں مرافعہ کی بالاترین عدالت میں پہنچ گئے۔ زمین پر صورت احوال یہ ہے کہ محسن ملت غلام محمد کا نام نامی بھی نئی نسل کو مستحضر نہیں۔ ماجد دریا بادی بارہ بنکی میں مدفون ہیں جہاں یوگی آدتیہ ناتھ وزیر اعلیٰ اور نریندر مودی وزیر اعظم ہیں۔ منٹو بدستور آشفتہ سروں کیلئے راستہ دکھانے والا ستارہ ہے۔ منٹو کی عظمت اسکے افسانے کی فسوں گری سے کہیں بڑھ کر ادیب کے منصب سے مکمل انصاف میں پنہاں ہے۔ عورت کی زبوں حالی سے بٹوارے تک، مذہبی تفرقے سے انفرادی ریاکاری تک، سیاسی استحصال سے طبقاتی تفریق تک اور امریکی بالادستی سے تحدید اسلحہ تک، جو مسئلہ اٹھائیں، منٹو کا تخلیقی ردعمل موجود ہے۔
آج کا بحران ایک عالمی وبا ہے جو کرہ ارض پر سیاست اور معیشت کے خدوخال بدل ڈالے گی۔ عالمی ادارۂ صحت خبردار کر رہا ہے کہ اس وائرس کا شافی علاج دریافت نہ ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔ ادھر معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے نوید دی ہے کہ کورونا کی موثر دوا چند ہفتوں میں پاکستان میں تیار ہونے لگے گی۔ تری آواز مکے اور مدینے۔ امریکی صدر ٹرمپ یک لفظی ٹویٹ کرتا ہے Obamagate۔ جواب میں اوباما ایک لفظ لکھتے ہیں، Voteاور قومی مکالمے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کئی روز بین الکلیاتی تقریری مقابلہ جاری رہا۔ صرف یہ تصدیق ہو سکی کہ منتخب وزیر اعظم پارلیمنٹ کورونق بخشنے نہیں گئے۔ مسئلہ تو اسی ایک لفظ کا ہے جو باراک اوباما نے لکھا۔ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے… وزیر اعظم کے تاریخی شعور کے طفیل قوم عید کی خریداری سے وقت نکال کر ترکی ڈرامہ دیکھ رہی ہے، ارطغرل۔ سپاہِ تازہ، اسپِ تازی، تیغِ برہنہ، شکوہِ لشکر، سطوتِ شاہی اور حسنِ مستور کی کہانی، میری تمام سرگزشت کھوئے ہوئوں کی جستجو… ایسے میں کچھ ساحلی مناظر اور تصویر بتاں نے کھنڈت ڈال دی ہے۔ حلیمہ خاتون کے مداح محترمہ ارسہ بلگک کے دوالے ہو گئے۔ اس غریب کی بلا جانے کہ ہم ’شہر نامعلوم کی چاہت‘ کے سودائی، راستوں کا علم رکھتے ہیں اور نہ سمت کی خبر۔ ہم نے بارِ جنوں دوش پر اٹھا رکھا ہے۔ ایک آواز آتی ہے، بولی اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔ اسی سانس میں پکار سنائی دیتی ہے، اج روندے سمرنا دے بال، وے مصطفیٰ کمال، تیریاں دور بلاواں۔ خلافت اور مصطفیٰ کمال میں تعلق جاننا ہے تو منٹو کا افسانہ ’ماتمی جلسہ‘ پڑھیے۔ چند ٹکڑے آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔ ’’ کیا کہا مصطفیٰ کمال مرگیا!… اب ہندوستان کا کیا ہوگا؟ سنا تھا یہ مصطفیٰ کمال یہاں حملہ کرنیوالا ہے… ہم آزاد ہو جاتے، مسلمان قوم آگے بڑھ جاتی… افسوس…‘‘ شام کو ایک ماتمی جلسہ ہوتا ہے۔’’مصطفیٰ کمال نے درہ دانیال سے انگریزوں کو لات مار کے باہر نکال دیا۔ یونانی بھیڑوں کو خنجر سے ذبح کر ڈالا۔ غازی صلاح الدین ایوبی کی سپاہیانہ عظمت کی یاد تازہ کی۔ اس نے بہ نوک شمشیر یورپی ممالک سے اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔‘‘ جلسہ گاہ میں ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ ’(مصطفیٰ کمال) نے ٹرکی میں جہالت کا دیوالیہ نکال دیا۔ یہ سب کچھ اس نے تلوار کے زور سے کیا… قدامت پسند سرِ بازار پھانسی پر لٹکا دیے گئے۔ اس نے حکم دیا کہ اذان ترکی زبان میں ہو، عدولِ حکمی کرنے والے مْلّا قتل کر دیے گئے…‘‘ اس پر ’’یہ کْفر بکتا ہے۔‘‘ کی آوازوں میں ماتمی جلسہ اکھاڑے میں بدل جاتا ہے۔
1962 ءکا برس تو آپ کو یاد ہو گا۔ مارچ میں ایوب خان کا ذاتی دستور نافذ ہوا جسے حبیب جالب نے ماننے سے انکار کر دیا۔ اسی مہینے محترمہ جیکولین کینیڈی اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ پاکستان تشریف لائیں اور ایوانِ صدر میں بشیر ساربان کے اونٹ کو شرف سواری بخشا۔ کئی لوگ جیکولین کینیڈی کے منی اسکرٹ میں دلچسپی لیتے رہے دوسری جانب مذہبی ذوق رکھنے والوں کے لئے غلاف کعبہ کی پاکستان میں تیاری کا غلغلہ اٹھا۔ ایک ٹرین پر یہ مقدس پارچہ ملک کے کونے کونے میں زیارت کے لئے لے جایا گیا۔ دیکھیے ہم نے لیاقت علی کی قرارداد، شبیر احمد عثمانی کی جماعت مجاہدین اسلام، ظفر اللہ خان کی مذہبی تقاریر،خلیق الزمان کے اسلامی بلاک اور ظفر علی خان کے سرفروشان اسلام کا ذکر نہیں کیا۔ شوکت اسلام کا جلوس یاد نہیں دلایا۔ اسرار احمد، صوفی محمد، اکرم اعوان، طاہر القادری اور خادم رضوی کے ذریعے مذہبی جذبات کا اظہار تو کل کے قصے ہیں۔ اصولی بات یہ ہے کہ ترکی کی تہذیب اور تاریخ، عرب، ایران، یونان، یورپ اور ہندوستان ہی کی طرح مشترکہ انسانی میراث ہے، اس کی ڈرامائی تشکیل ایک جائز تہذیبی سرگرمی ہے۔ صفدر میر نے بھی تو ’آخر شب‘ کا تمثیلی سلسلہ لکھا تھا۔ عرض صرف یہ ہے کہ عمران خان کسی سلطنت کے امیر نہیں، پاکستان کی قومی ریاست کے منتخب وزیر اعظم ہیں۔ اس ریاست کے باشندوں میں عقائد کا تنوع پایا جاتا ہے اور وہ دستور کی شق 25کے مطابق شہریت کی مساوات کا حق رکھتے ہیں۔ شہری اپنے وزیر اعظم سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ملکی دفاع اور جنگ جوئی کو الگ کرنے والی لکیر برقرار رکھیں گے۔ ارطغرل سے متاثر ہونے والا ذہن ایک ڈرامائی کردار اور اداکارہ کی ذاتی زندگی میں فرق نہیں سمجھتا، ماتمی جلسے کو فساد میں بدل دیتا ہے۔