منتخب تحریریں

پیدائش سے پہلے مرنے والا خوش نصیب بچہ

Share

میں خیرمقدم کرتا ہوں ان سورما جہادیوں کا جنھوں نے گذشتہ منگل کو کابل کے ایک زچہ بچہ ہسپتال میں کافر نوزائیدہ بچوں، ان کی دس دین دشمن ماؤں، اغیار کی ایجنٹ چند نرسوں اور ایک مشرک سیکورٹی گارڈ سمیت چوبیس ناپاک روحوں کو قتل اور سولہ کو زخمی کر دیا اور وہ بھی ایک ایسے ہسپتال میں جس کا انتظام و انصرام یہود و نصاری کی پروردہ تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس این) کے ہاتھ میں ہے۔

مجھے ازحد خوشی ہے کہ اس قتلِ عام میں اس بچے کو بھی دو گولیاں لگیں جو ابھی اپنی ماں (حاجرہ سروری) کے پیٹ میں تھا اور اسی شام اس دنیا میں آنے کے لئے بے تاب تھا۔

مگر وہ ماں کی کوکھ میں پڑے پڑے ہی منوں مٹی تلے دفن ہو گیا۔ دراصل حاجرہ کے بیٹے کو نہ جنموا کر اوپر والے نے اس دنیا کا پردہ رکھ لیا۔

کاش حلب کا وہ تین سالہ بچہ بھی حاجرہ کے بے نام بچے کی طرح ماں کی کوکھ میں ہی مر جاتا جسے یہی نہیں پتا چلا کہ اسے کیوں اور کس کے بم کے ٹکڑے لگے اور اب اتنی جلد واپس اوپر کیوں جا رہا ہے۔ مگر جاتے جاتے بھی کیا یادگار تھپڑ مار گیا۔

’میں خدا سے ایک ایک کی شکایت کروں گا۔میں اسے سب بتاؤں گا۔‘

بچے تو نا سمجھی میں جانے کیا کیا بول جاتے ہیں البتہ شکر ہے خدا نے عشروں پر پھیلے ممکنہ عذابِ ارض سے اس بچے کو تین برس میں ہی مکتی دلوا دی۔ وہ بچہ اب جنت میں ہے کہ کہیں اور؟ مجھے تو بس یہ خوشی ہے کہ وہ زمین پر نہیں زمین میں ہے۔

اور جب میں ایک اور تین سالہ بچے ایلان الکردی کے بارے میں سوچتا ہوں کہ جس کی اوندھے منہ لاش ترک ساحل پر پڑی ملی تھی تو مجھے ایلان کی قسمت پر بھی رشک آتا ہے۔

کابل
حاجرہ سروری کے پیٹ سے برآمد ہوئے بغیر موت کا زائقہ چکھنے والے بچے کا مقدر اس بچے کی قسمت سے بھی زیادہ اچھا ہے جو بلوچستان یا سندھ کے کسی گوٹھ یا دور دراز قبائلی علاقے میں روزانہ اپنی ماں کا پلو کھینچتے ہوئے پوچھتا ہے بابا کب آئیں گے

خدا کا کرم کہ ایلان بھی ذہنی بلوغت کے عذاب میں قدم رکھنے سے بہت پہلے جانے کس کس ممکنہ ذلت سے نجات پا گیا۔

مجھے اور اچھا لگنے لگتا ہے حاملہ افغان ماں حاجرہ سروری کے پیٹ میں لگنے والی دو گولیوں سے مرنے والا بچہ۔

جب میں سنتا اور دیکھتا ہوں کہ کابل سے ہزار کلومیٹر پرے ایک اور عورت اپنے جیسے سینکڑوں دیگر کے ہمراہ لاک ڈاؤن زدہ انڈین پنجاب سے جھانسی کی جانب چھ سو کلومیٹر کے سفر پر پیدل چلی جا رہی ہے۔

وہ ایک سوٹ کیس کھینچ رہی ہے۔ اسی سوٹ کیس سے اس کا تین چار سال کا بچہ بھی سوتے سوتے آدھا لٹک رہا ہے۔

اور جب ایک پترکار اس عورت سے کہتا ہے کہ سرکاری بسیں چل پڑی ہیں تم اس میں بیٹھ کر چلی جاؤ تو یہ عورت اس پترکار کو ایسی نظروں سے دیکھ کر آگے بڑھ جاتی ہے جیسی نظروں سے حکومت عام آدمی کو مسلسل دیکھتی ہے۔

حاجرہ سروری کے پیٹ سے برآمد ہوئے بغیر موت کا ذائقہ چکھنے والے بچے کا مقدر اس بچے کی قسمت سے بھی زیادہ اچھا ہے جو بلوچستان یا سندھ کے کسی گوٹھ یا دور دراز قبائلی علاقے میں روزانہ اپنی ماں کا پلو کھینچتے ہوئے پوچھتا ہے کہ بابا کب آئیں گے۔

تم نے جھوٹ کیوں بولا کہ وہ اسی ہفتے آ جائیں گے۔ تم ہر ہفتے جھوٹ کیوں بولتی ہو ماں۔

یہ سب کے سب وہ بچے ہیں جنھوں نے ریاست، حکومت، سماج، فرد اور مقدر سمیت ایک ایک کے کپڑے اتار کر یہ کپڑے ان کے کندھے پر رکھ دیے اور ایسی زندگی کے منہ پر تھوکتے ہوئے وہیں لوٹ گئے جہاں سے اترے تھے۔

’ہر نوزائیدہ بچہ ثبوت ہے کہ خدا ابھی دنیا سے مایوس نہیں ہوا۔‘

اے خدا اس شخص کا بھی تو کچھ کر جس نے یہ مقولہ تجھ سے منسوب کرنے کی جسارت کی۔