سائنس

کورونا وائرس لاک ڈاؤن: کیا تنہائی میں ویڈیو گیم کھیلنا بھی ایک قسم کا مراقبہ ہے؟

Share

میرے کمرے کی کھڑکی سے باہر سڑکیں خالی اور پُرسکون ہیں، دنیا عجیب سی ہے اور مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے۔

سازشی تھیوریاں پیش کرنے والوں سے میری نیوز فیڈ اٹی پڑی ہے اور ہر شخص عالمی وبا پر ماہرانہ تبصرے پیش کر رہا ہے۔

مگر فی الحال مجھے اس صورتحال سے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ میں اس کی پرواہ ہی نہیں کر رہا۔

حال ہی میں ایک نئی گیم ’ایوری تھنگ‘ ریلیز ہوئی ہے۔ یہ گیم کھیلتے وقت میں بعض اوقات ایک ’تھاٹ ببل‘ پر کلک کرتا ہوں اور جواباً کاؤنٹر کلچر فلاسفر ایلن واٹس مجھے کچھ بتاتے ہیں۔

بعض اوقات میں بالکل پرواہ نہیں کرتا اور سولر سسٹم بننا پسند کرتا ہوں یا ایک خلیے پر مشتمل زندہ وجود۔

لاک ڈاؤن سے راہ فرار اختیار کرنا

اپنی زندگی میں میں کبھی بھی گیمز کھیلنے کا اتنا شوقین نہیں رہا مگر گذشتہ چند ہفتوں سے ’ایوری تھنگ‘ اور اس سے ملتی جلتی ایک اور گیم ’ماؤنٹین‘ میرے لیے سب کچھ ہیں۔

ماؤنٹین گیم
’ماؤنٹین‘ گیم بھی ’ایوری تھنگ‘ سے ملتی جلتی گیم ہے

عجیب لیکن اطمینان بخش آوازوں کے ساتھ یہ گیمز جذباتی، پرسکون، گہری، خوبصورت اور احمقانہ سی ہیں۔ ان گیمز نے مجھے پرسکون کر دیا ہے اور مجھے آن لائن زندگی اور لاک ڈاؤن کے پاگل پن کو فراموش کرنے میں مدد دی ہے۔

جب ’ایوری تھنگ‘ مارکیٹ میں آئی تھی تو اس نے گیمر کمیونٹی کو تقسیم کر دیا تھا۔ چند گیمرز نے اس کی تعریف کی جبکہ دوسروں نے اسے فضول قرار دیا تھا۔

میرے جیسے شخص کے لیے اس گیم کی اہمیت کام کے دباؤ، زندگی کے ہنگاموں اور بوریت سے ایک زبردست راہ فرار جیسی تھی۔

میں نے یہ گیم اپنے بھتیجے اور بھتیجی کو دی۔ وہ ان کاموں میں کافی تیز ہیں اور انھوں نے مجھے بتایا کہ ’یہ (گیم) سونے سے قبل سکون حاصل کرنے کے لیے ہے کیونکہ اسے کھیلتے ہوئے آپ پُرجوش نہیں ہو پاتے۔‘

نیا منشور

جب ویڈیو گیم پروگرامر بری کوڈ نے اپنی نئی گیم کمپنی ’تھرو لوو‘ کے لیے نیا منشور تحریر کیا تو شاید انھیں معلوم نہیں تھا کہ اس منشور کی ایک لائن ہماری آج کل کی زندگی کی کتنے بہتر انداز میں تشریح کرے گی۔

وہ لائن تھی ’ہم اپنے فونز پر خوفناک دلکشی کے ساتھ نگاہ ڈالتے ہیں، ہم سب صدمے سے دوچار ہیں۔‘

گیم سیلف کیئر
سیلف کیئر گیم کا مقصد برسوں سے رائج گیمنگ کلچر کا توڑ کرنا تھا

انھوں نے اس خیال کے ساتھ ٹورنٹو میں اپنی گیم کمپنی کی بنیاد رکھی تھی وہ ایک ایسی چیز تیار کریں گی جو رائج الوقت گیمنگ کلچر کا ایک تریاق ہو۔ وہ کلچر جس کا گذشتہ 50 برسوں سے گیمنگ انڈسٹری پر غلبہ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’گیمز انڈسٹری پر حاوی سفید فام گیمرز نے اس طرح کے تجربات کو جنم دیا ہے جو صرف ان سے متعلق ہیں نہ کہ زیادہ تر دیگر افراد سے۔‘

سنہ 2018 میں تھرو لوو کی پہلی گیم مارکیٹ میں آئی، ایک فون ایپ جس کا نام ’سیلف کیئر‘ تھا۔ اس گیم میں کھیلنے والا اپنے بستر پر بیٹھ کر بہت سے ایسے عمل کرتا جن کا مقصد ذہنی دباؤ کو کم کرنا تھا۔ مگر جلد ہی یہ گیم غائب ہو گئی۔

مارنے کو کوئی ’مانسٹر‘ نہیں ہے

اس گیم میں آپ کو کسی مانسٹر (راکشس) کو نہیں مارنا ہوتا بلکہ چند سکون آور ٹاسک مکمل کرنا ہوتے ہیں۔

تھرو لوو سے منسلک ایوو تھامس کہتی ہیں کہ ’ہم نے ایک ایپ ڈیزائن کی جو آپ کے فون میں ایسی پرسکون جگہ تھی جس کے ذریعے آپ اپنے فون کے اندر ہی راہ فرار اختیار کر سکیں۔‘

’سوشل میڈیا، جوا اور گیمز، یہ سب ایک جیسے ڈیزائن پر مبنی ہوتے ہیں جس کے ذریعے ٹینشن کو بتدریج بڑھایا جاتا ہے تاکہ تناؤ کے ردعمل کو متحرک کیا جا سکے۔‘

’زندگی کافی تناؤ کا شکار ہے۔ اس سے بچنے کے لیے ہم اپنے فونز کا رخ کرتے ہیں اور وہاں ہمیں مزید تناؤ ملتا ہے۔‘

ویڈیو گیمز ایک بڑا کاروبار ہے۔ انٹرٹینمنٹ ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق سنہ 2019 میں برطانیہ کی گیمز انڈسٹری کی وقعت فلم اور میوزک انڈسٹری کی مشترکہ قیمت سے زیادہ تھی۔

اٹلی

جب رواں برس مارچ میں دنیا کے مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوا تو گیمنگ پلیٹ فارم ’سٹریم‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک وقت میں سب سے بڑی تعداد میں گیمز کھیلنے والے لاگ آن ہوئے۔ مگر جب زندگی ایک جنگ یا پرواز کرنے کا ڈرؤنا خواب ہو تو کیا ایسے میں ایوری تھنگ جیسی گیم غنیمت نہیں ہیں؟

کوڈی کہتی ہیں کہ بہت سی گیمز اور آن لائن سرگرمیوں میں دباؤ یقینی ہے۔

’اس خوف کو آگے بڑھانے والی گیمز کو بنانے کا سلسلہ جاری رکھنا اور اس خوف کا فائدہ اٹھانا ایک قلیل مدتی حکمت عملی ہے۔ نوجوانوں کے خوف کو بڑھاوا دے پیسے کمائے جاتے ہیں۔ یہ ایک بزدلی پر مبنی اور بور کر دینے والا انتخاب ہے۔ ہمیں کسی کو مصروف عمل رکھنے کے لیے مصنوعی دباؤ کی تخلیق کی ضرورت نہیں ہے۔ محبت اچھے تجربات تشکیل دے سکتی ہے۔‘

فائٹ اور فلائٹ سے آگے

کوڈی نے اپنے کیریئر کے ابتدائی آٹھ سال مرکزی دھارے میں شامل گیمنگ انڈسٹری میں ایک اعلی درجے کے پروگرامر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے گزارے، ان کی آخری ملازمت ایک فرانسیسی ویڈیو گیم کمپنی یوبی سافٹ میں تھی اور اس کمپنی کے دنیا بھر میں 16 ہزار ملازمین تھے۔

انھوں نے مشہور زمانہ ویڈیو گیمز بشمول ’اسیسنز کریڈ‘ جیسی ویڈیو گیمز کی ہدایت کاری کی لیکن پھر کچھ ایسا ہوا جس نے انھیں گیمنگ کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا۔

اسیسنز کریڈ

’فلائٹ اور فائٹ جسی گیمز کے دوران آپ کا اعصابی نظام پہلے ’ایڈرینالین‘ اور اس کے بعد ’ڈوپیمن‘ جیسے ہارمونز خارج کرتا ہے۔ گیم کی طرح ان ہارمونز کا اخراج بھی انسان کو مسرت بخشتا ہے۔‘

آنکھوں کی پتلیاں سکڑ جاتی ہیں، دل تیز رفتاری سے حرکت کرتا ہے، سانس کی نالیاں کشادہ ہو جاتی ہیں اور آپ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ آپ زندہ محسوس کرتے ہیں۔ آپ طاقتور محسوس کرتے ہیں۔ مگر ہر کوئی لڑائی جھگڑے اور اڑنے اڑانے والی گیمز کو پسند نہیں کرتا۔ میں بھی نہیں کرتی۔ میرے دوست بھی نہیں۔‘

باطن کا سفر

اینڈرومیڈا انٹرٹینمنٹ اپریل کے اخیر ساؤنڈ سیلف لانچ کر رہی ہے۔ یہ گیم گذشتہ آٹھ برسوں سے تیاری کے مراحل میں ہے۔ اس گیم میں مذہبی تقاریب، نفسیات، منتر، مراقبے اور غنودگی جیسے احساسات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس گیم کو اینڈرومیڈا انٹرٹینمنٹ کے بانی روبن ارنٹ نے تخلیق کیا ہے۔

ان کے مطابق ساؤنڈ سیلف نامی یہ گیم کھیلنے والے کو ایک باطنی (یا اپنے اندر کے) سفر پر لے جائے گی۔

ساونڈ سیلف
ساؤنڈ سیلف نامی گیم کے تخلیق کار کا کہنا ہے کہ یہ گیم کسی بھی شخص کو ماورائی حالت میں لے جائے گی

وہ کہتے ہیں کہ گیمز کسی شخص کو ماورائیت کی جانب لے جا سکتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ جاننے کے لیے کہ یہ کتنا پرلطف تجربہ ہوتا ہے آپ کو کسی بچے کو دیکھنا چاہیے جو خالی نظروں سے سکرین کو لگاتار گھور رہا ہوتا ہے۔ یہ عام طور پر بے خودی کے عالم میں دماغی حالت کو ایسی حرکت میں لانے جیسا ہے جہاں ایک انسان ہر چیز کو محسوس کرے جو کہ وہ کر سکتا ہے۔

اس انڈسٹری نے گذشتہ نصف صدی کے دوران ایک جیسے دماغ کے لوگوں کے لیے ایک جیسی گیمز تخلیق کی ہیں۔ مگر 90 فیصد گیمز کا ٹارگٹ دباؤ پیدا کرنا ہی ہی کیوں ہے؟

اگرچہ چند گیمز لڑائی جھگڑوں سے مستثنی ہیں مگر ایسے گیمز کامیاب نہیں ہیں۔

چند گیمز ایسے بھی ہیں جن میں ایک خیالی دنیا تیار کی جاتی ہے۔ ایسے گیمز میں کھلاڑی اپنی تخلیق کے متبادل میں ڈھل جاتے ہیں۔ ایسے گیمز کی مثال ’دی سمز‘ اور ’منی کرافٹ‘ وغیرہ ہے۔

ویڈیو گیم

بناوٹی گیم اینیمل کراسنگ میں ایک جزیرے میں خوبصورت، طشتری جیسے آنکھوں والے جانوروں کے درمیان ایک تنہا انسان کھلاڑی کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ اس میں بس اتنا کرنا ہے کہ لڑھکنا، مچھلی پکڑنا ہے، لکڑی کاٹنا، ایسٹر انڈے تلاش کرنا اور پھل چنانا ہے۔

اس کا تازہ ترین شمارہ ‘اینیمل کراسنگ: نیو ہورائزنز’ مارچ کے آخر میں سامنے آیا اس وقت جب دنیا کا بیشتر حصہ لاکڈاؤن میں چلا گیا تھا۔ اور اس نے سنہ 2001 میں شروع ہونے والے اس کھیل کے پانچوں ورژن کو فروخت میں تیزی کے ساتھ پیچھے چھوڑ دیا

نیویارک ٹائمز نے اسے ‘کورونا وائرس کے وقت کا گیم’ کہا۔

بالغوں کی مصروفیت

اور اس کھیل کو بچے نہیں کھیل رہے ہیں۔ ریانا پرٹچیٹ کھیلوں کے بیانیہ عنصر کے بارے میں لکھنے والی ایوارڈ یافتہ مصنف ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کلچر کو بتایا: ‘میرے ٹویٹر فیڈ میں اینیمل کراسنگ بہت زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بہت سے لوگ اسے کھیل رہے ہیں۔’

‘یہ بر وقت آیا ہے، اس میں سکون ملتا ہے، نرم موسیقی ہے، ساحل پر لہروں کی ٹوٹ پھوٹ کی آواز ہے۔ یہ پرسکون، پرامن، تخلیقی اور لت لگنے والی ہے۔’

وہ ایک اور آہستہ رو اور نرم بناوٹی کھیل ‘سٹارڈیو ویلی’ کا نام بھی چیک کرتی ہیں۔

‘اس میں صرف کاشتکاری ہے اور پڑوسیوں کے یہاں جانا ہے۔’

لیکن یہ اتنا وسیع گیم ہے کہ ایلون مسک نے اپنی ٹیسلا کاروں کے مانیٹرز میں اسے پروگرام کروا دیا تاکہ اپنی کار کو چارج کرنے کا انتظار کرتے ہوئے لوگ چست درست ایگزیکٹو کو گاجر کی کٹائی کرتے دیکھ سکیں۔

پریٹچیٹ کا کہنا ہے کہ دھمیا اور پرسکون گیمنگ کا خیال نیا نہیں ہے لیکن مین سٹریم میڈیا جس طرح سے گیمز کے بارے میں بتاتی اس سے پوری انڈسٹری کو شیطان بنا دیا جاتا ہے۔

‘پچھلے پانچ یا اس سے زیادہ کچھ سالوں سے گیمز کی آزاد کمپنیاں ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں اور کیونکہ ان کے کوئی حصہ دار نہیں ہے اس لیے وہ چھوٹے گيمز بنا رہے ہیں جس میں پہلے سے کہین زیادہ جذباتی اور تاثراتی عناصر ہوتے ہیں۔’

پریٹچیٹ کا تازہ ترین پروجیکٹ لوسٹ ورڈز: بیانڈ دی پیجز یعنی صفحے کے باہر کھوئے ہوئے الفاظ ہیں جو کہ ایک چیستاں پر مبنی ایک افسانوی گیم ہے جس میں ‘ایک لڑکی اپنی حقیقی زندگی کے تناؤ سے بھاگ کر کہانیاں لکھتی ہے۔’

Scene from Lost Words: Beyond the Page

‘میں نے غم کے سات مراحل کے تحت اسے لکھا تھا۔ یہ کوئی خاص مشکل چیز نہیں ہے اور یہ بھی راحت بخش ہے، نرم ہے اور خوبصورت ہے۔’

پریٹچیٹ جو کچھ لوگوں کے لیے متنازع ہیں انھون نے ٹومب ریڈرز کی لارا کروفٹ کی از سر نو تخلیق کی ہے۔ لارا ایک بلاک بسٹر گیمنگ کیریکٹر ہے جسے اس تازہ ورژن میں زیادہ حساس نسل کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

‘میں نے اس کو قدرے انسان کے قریب بنایا ہے۔ اس میں کمزوری اور پسپائی دی ہے۔ وہ ہرن کے مارے جانے پر پریشان ہوجاتی ہے۔ جب وہ انسانی جان لیتی ہے تو اسے صدمہ پہنچتا ہے۔ میں نے اسے جذبات کے اظہار کی قوت دی ہے۔’

وہ کہتی ہیں ‘اس وقت لوگوں کو کچھ دھچکا لگا جنھوں نے محسوس کیا کہ [لارا] آنسو بہا رہی ہے، کیوں کہ لوگ مر رہے ہیں اور یہ لارا کی ایک کمزوری تھی۔’

گیمنگ انڈسٹری کے لیے اور اس کے بارے میں 20 سال سے لکھنے والی پریٹچیٹ کا کہنا ہے کہ وہ ‘دلچسپ اور پرجوش’ بہت فروخت ہونے والے گیمز کے خلاف نہیں ہیں۔

‘میں ان کو کھیلنا پسند کرتی ہوں۔ وہ میرے دماغ کے دوسرے حصوں پر اثر کرتی ہیں۔ وہ مردوں کی جانب جھکی ہوئی لگتی ہیں لیکن بہت سی خواتین ان سے لطف اندوز ہوتی ہیں ، اور یہ کہنا فسانہ ہے کہ خواتین اسے پسند نہیں کرتیں۔’

Children with VR goggles

وہ کہتی ہیں کہ وہ مختلف قسم کے گیمز سے لطف اندوز ہوتی ہیں جن میں سب سے زیادہ شیطانی والے گیمز سے لے کر خوبصورت ترین گیمز شامل ہیں۔ لیکن ایک چیز جسے وہ ہمیشہ پسند کرتی ہیں وہ ان کا ‘سائیڈ مشنز پر چلتے رہنا’ ہے۔

“جیسے فار کری 4 میں جو تبت پر مبنی ہے اس میں جب آپ ہاتھیوں کو [انلاک] کرتے ہیں تو آپ اس سرسبز وادی کی سیر کرتے چلے جاتے ہیں۔ اساسنز کریڈ میں ایسی بلیاں ہیں جنھیں آپ پالتو بنا سکتے ہیں۔

“کچھ گیمز میں آپ کسی ایک خوبصورت اونچی جگہ پر پہنچ کر بیٹھ جاتے ہیں اور آرام کرتے ہوئے چیزوں کا نظارہ کر سکتے ہیں۔۔۔ وہاں ہمیشہ سے ویسا ہی مواد ہے۔’

David O'Reilly at a New York talk in January 2020

اس میں کی ہر چیز اور یہاں تک کہ پہاڑوں کو آئرش آرٹسٹ اور انیمیٹر ڈیوڈ او ریلی نے تیار کیا ہے جو مشرقی ایل اے میں اپنی بلی اور گھنٹی کے ساتھ رہتے ہیں۔

“وہ کھیل کے زمرے میں موجود ہیں لیکن کیا وہ ‘گیم’ لفظ کے ہر ورژن کو پُر کرتے ہیں؟ کچھ کے نزدیک ، ‘گیم’ کے لفظ کا مقصد کوئی ہدف ہے اور ایوری تھنگ اور ماؤنٹین دانستہ طور پر خوبصورت اور بے مقصد ہیں۔’

وہ اپنے ‘گمیز’ کا موازنہ پاپ میوزک اور پس منظر میں بجنے والی موسیقی کے درمیان فرق سے کرتے ہیں۔ کائلی اور برائن اینو۔

انھیں بڑے تجارتی گیمز سے کوئی پریشانی نہیں ہے اور وہ ڈریمز، نائٹز اور بائیکس جیسے نوواردوں کو اپنی ‘بناوٹی دنیا’ کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے پسند کرتے ہیں۔

‘گیمز میں مجھے واقعی جو چیز ہمیشہ سے پسند تھی وہ وہ چیزیں ہیں جن پر سامعین کی نگاہ ہی نہیں گئی یعنی پس منظر کی چیزوں، بدلتے ہوئے موسم، یا درخت، گھاس اور پانی کو کس طرح پیش کیا گيا ہے۔’

‘کبھی کبھی میں تمام راکشسوں کو مار ڈالتا ہوں اور پھر صرف اس جگے کے چپے چپے کا پتا لگاتا ہوں۔ میں اسے کھیل کے طور پر سوچنا پسند کرتا ہوں۔’

‘ایک گیم میں آپ کو کچھ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن کھیل کے ساتھ ایسا نہیں ہے اس لیے آپ ناکام نہیں ہوتے۔’