Site icon DUNYA PAKISTAN

ساؤتھ ایشین گیمز: پاکستان کے 32 طلائی تمغے، سہرا کس کے سر بندھے گا؟

Share

پاکستان نے نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں ہونے والی 13ویں ساؤتھ ایشین گیمز کا اختتام 32 طلائی، 41 چاندی اور 59 کانسی کے تمغوں کے ساتھ کیا ہے۔

پاکستان نے یہ 32 طلائی تمغے دس مختلف کھیلوں میں حاصل کیے ہیں جن میں کراٹے میں چھ، ایتھلیٹکس اور ویٹ لفٹنگ میں پانچ، پانچ، ووشو، تائی کوانڈو اور پہلوانی میں تین، تین، سکواش، شوٹنگ اور جوڈو میں دو، دو جبکہ ہینڈ بال میں ایک طلائی تمغہ شامل ہے۔

پاکستان طلائی تمغوں کی تعداد کے اعتبار سے انڈیا، نیپال اور سری لنکا کے بعد چوتھے نمبر پر رہا ہے۔

اس بار ایشین گیمز میں خواتین کھلاڑیوں کی جانب سے اچھی کارکردگی دیکھنے میں آئی۔

خواتین کھلاڑیوں کی متاثر کن کارکردگی

کراٹے میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی شاہدہ عباسی نے انفرادی کاتا میں گولڈ میڈل جیتا جبکہ ان کی بہن صابرہ عباسی نے ٹیم میچ میں طلائی تمغہ حاصل کیا

کراٹے میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی شاہدہ عباسی نے انفرادی کاتا میں گولڈ میڈل جیتا۔ کراٹے کے ٹیم مقابلے میں نرگس کلثوم، ثنا کوثراور صابرہ عباسی نے طلائی تمغہ جیتا۔ صابرہ عباسی، شاہدہ عباسی کی چھوٹی بہن ہیں جنھوں نے پہلی بار ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔

اسی طرح ایتھلیٹکس میں نجمہ پروین نے 400 میٹرز رکاوٹوں کی دوڑ میں طلائی تمغہ جیتا۔

ان تین طلائی تمغوں کے علاوہ پاکستانی خواتین کھلاڑیوں نے چاندی کے 12 اور کانسی کے 23 تمغے بھی حاصل کیے جبکہ ایک چاندی اور چار کانسی کے تمغے مکسڈ ایونٹس میں جیتے گئے ہیں۔

گذشتہ دو ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان کی خواتین کھلاڑیوں نے دو دو طلائی تمغے جیتے تھے۔ سنہ 2010 میں ایتھلیٹ نسیم حمید نے سو میٹرز ریس اور کراٹے میں سارہ ناصر نے طلائی تمغہ حاصل کیا تھا جبکہ سنہ 2016 میں لیانا سوان نے تیراکی اور فوزیہ یاسر نے جوڈو میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔

ایتھلیٹکس میں نجمہ پروین نے 400 میٹرز رکاوٹوں کی دوڑ میں طلائی تمغہ جیتا

کیا چند روز کی ٹریننگ کافی تھی؟

ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان کی طرف سے پہلا گولڈ میڈل جیتنے والی شاہدہ عباسی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ٹریننگ کے لیے بہت کم وقت ملا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اگر ٹریننگ کیمپ زیادہ وقت کے لیے لگتا تو کراٹے میں مزید تمغے بھی پاکستان کے نام ہو سکتے تھے۔ ’ہم نے نیشنل گیمز کے لیے جو ٹریننگ کی تھی وہی ساؤتھ ایشین گیمز میں کام آئی کیونکہ نیشنل گیمز کے بعد ہفتہ دس دن کا کیمپ ناکافی تھا، یہ کیمپ پہلے اسلام آباد میں لگنا تھا جسے لاہور منتقل کردیا گیا تھا تاہم پنجاب سپورٹس بورڈ نے ہمیں ٹریننگ کے لیے ہر ممکن سہولت فراہم کی۔‘

ان کھیلوں میں شریک ایک اور گولڈ میڈلسٹ کھلاڑی نے نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سپورٹس بورڈ کو چاہیے تھا کہ وہ نیشنل گیمز سے تین، چار ماہ قبل تمام فیڈریشنز سے ان کے بہترین دس، دس کھلاڑیوں کے نام منگوا کر ان کے کیمپ لگاتے تاکہ کھلاڑی زیادہ بہتر انداز میں ٹریننگ کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’نیشنل گیمز کے بعد پاکستان سپورٹس بورڈ نے 10، 12 دن کا کیمپ لگایا اس سے کیا تیاری ہونی تھی؟ آرمی، واپڈا اور دوسرے اداروں کے کھلاڑی اپنے اپنے کیمپس میں تیاری کر کے آئے ہوئے تھے۔‘

اس مرتبہ بہتر کارکردگی کی وجہ؟

پاکستان کے پہلوان انعام بٹ نے 92 کلو گرام کیٹیگری کے فائنل میں نیپال کے پہلوان ُسمت کمار کو شکست دے کر طلائی تمغہ حاصل کیا

پاکستان نے سنہ 2010 میں بنگلہ دیش میں منعقدہ گیارہویں ساؤتھ ایشین گیمز میں 19 طلائی، 25 چاندی اور 36 کانسی کے تمغے حاصل کیے تھے جبکہ سنہ 2016 میں انڈیا میں منعقدہ 12ویں ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان کے طلائی تمغوں کی تعداد صرف 12 تھی جبکہ 37 چاندی اور 12 کانسی کے تمغے اس کے علاوہ تھے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ اس بار پاکستانی کھلاڑیوں اور ایتھلیٹس نے ماضی کے مقابلے میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے؟

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سیکریٹری خالد محمود نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کا کریڈٹ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی اچھی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ پشاور میں منعقد ہونے والی نیشنل گیمز کو بھی جاتا ہے کیونکہ واپڈا، آرمی اور دیگر اداروں نے اپنے ایتھلیٹس اور کھلاڑیوں کی اتنی اچھی ٹریننگ کرائی تھی کہ نیشنل گیمز میں ایک بھرپور مقابلہ دیکھنے میں آیا اور ہمیں ساؤتھ ایشین گیمز کے لیے کھلاڑیوں کے چناؤ میں آسانی ہو گئی۔

خالد محمود نے کہا کہ سنہ 2016 کے ساؤتھ ایشین گیمز میں اچھی کارکردگی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ سنہ 2012 میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے ہوتے ہوئے ایک متوازی اولمپکس ایسوسی ایشن بنوا دی گئی تھی جو حکومت کا اچھا اقدام نہیں تھا۔

ایتھلیٹ محبوب علی نے چار سو میٹرز رکاوٹوں والی دوڑ میں گولڈ میڈل جیتا

انھوں نے کہا لیکن بعد میں حکومت کو اس متوازی اولمپک ایسوسی ایشن سے دستبرداری اختیار کرنی پڑی اور انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی سے یہ معاہدہ کرنا پڑا کہ وہی اصل پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ہو گی جسے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی تسلیم کرے گی۔

’اس صورتحال میں ہمارے تین سال بری طرح ضائع ہو گئے تھے کیونکہ ہمارے منعقد کردہ مقابلوں میں حکومتی اداروں کے کھلاڑی حصہ نہیں لیتے تھے۔ کھلاڑیوں کی ٹریننگ متاثر ہوئی تھی اور کھیلوں کی فیڈریشنز کا پورا نظام متاثر ہوا تھا۔‘

بین الصوبائی رابطے کی وزارت اور پی او اے کا متضاد مؤقف

پاکستان میں کھیلوں کے دو بڑے ادارے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ( پی اے او ) اور پاکستان سپورٹس بورڈ ہیں۔

پی او اے کا براہ راست تعلق انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی سے ہے جبکہ پاکستان سپورٹس بورڈ حکومتی ادارہ ہے جس کے معاملات بین الصوبائی رابطے کی وزارت دیکھتی ہے۔

یہ دونوں ادارے گذشتہ کچھ عرصے سے ایک دوسرے کو ملک میں کھیلوں کے گِرتے ہوئے معیار کا ذمہ دار ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر اپنی حدود سے تجاوز کرنے کے الزامات بھی عائد کرتے آئے ہیں۔

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ ) سید عارف حسن گذشتہ 16 برس سے اس عہدے پر براجمان ہیں

بین الصوبائی رابطے کی وفاقی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اپنے تعین کردہ کردار سے آگے نکل گئی ہے۔ ’اس نے اپنے عہدوں کو طول دینے کے لیے صرف انھی سپورٹس فیڈریشنز کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا جو اسے سپورٹ کرتی ہیں اور میرٹ کا خیال نہیں رکھا گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ مختلف کھیلوں کی متوازی فیڈریشنز بنائی گئیں ہیں اور آج یہ صورتحال ہے کہ 16 سال سے ایک ہی شخص ایک ادارے میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان سولہ برسوں میں کارکردگی آگے کے بجائے پیچھے کی طرف گئی ہے۔

انھوں نے سوال کیا کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے آئین میں تبدیلی کیوں کی گئی اور صدر مملکت کی پیٹرن کی حیثیت کو کیوں ختم کر دیا گیا؟

فہمیدہ مرزا کے مطابق الیکٹورل کالج ایسا بنا دیا گیا ہے جس میں 16 آزاد اراکین اپنی مرضی سے رکھ لیے گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر کے لیے 75 سال تک کی عمر کی حد متعارف کرا دی گئی۔

’کیا یہ فرد واحد کو فائدہ دینے کا اقدام نہیں ہے۔ 15، 16 سال کے بعد بھی ایسے الیکشن کرائے گئے جن میں تمام عہدیداران بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔‘

’پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اپنے تعین کردہ کردار سے آگے نکل گئی ہے‘

ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کہتی ہیں کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا کام صرف ایکریڈیشن کرانا ہے اس کا کردار اس تک ہی محدود ہونا چاہیے، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ متوازی فیڈریشنز بنائی جائیں۔

انھوں نے کہا کہ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد کھیلوں کی وزارت صوبوں کے پاس چلی گئی ہے، تمام وسائل صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور کھیلوں کی فیڈریشنوں کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ان کے مطابق پاکستان سپورٹس بورڈ ایک وفاقی ادارہ ہے جسے نقصان پہنچانے کے لیے ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اس تاثر کو یکسر مسترد کر دیا کہ ساؤتھ ایشین گیمز کی ٹریننگ کے لیے کھلاڑیوں کو بہت کم وقت مل سکا۔ ان کا کہنا ہے کہ مختلف کھیلوں کے کیمپ سارا سال جاری رہے ہیں اور کھلاڑی ان میں ٹریننگ کرتے رہے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سیکریٹری خالد محمود کا کہنا ہے کہ بین الصوبائی رابطے کی وزارت لوزان معاہدے میں یہ تسلیم کر چکی ہے کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ایک خود مختار ادارہ ہے۔

’سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ جو باڈی پاکستان سپورٹس سے الحاق نہیں رکھتی اس پر حکومت پاکستان اور پاکستان سپورٹس بورڈ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ پی اے او کو حکومت سے کوئی گرانٹ نہیں ملتی۔‘

خالد محمود سے جب پوچھا گیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عارف حسن گذشتہ 15 برسوں سے صدر چلے آ رہے ہیں، تو ان کا جواب تھا کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن میں صدر کی کوئی مدت مقرر نہیں ہے۔

’سید واجد علی شاہ 26 سال تک پی او اے کے صدر رہے تھے۔ رہی بات صدر کی عمر کی حد 75 سال کرنے کی تو یہ بھی انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے نئے آئین میں واضح طور پر موجود ہے۔‘

Exit mobile version