منتخب تحریریں

زندگی رواں رکھنے کے جتن

Share

برسوں سے صبح اُٹھتے ہی یہ کالم لکھنے کی عادت لاحق ہوچکی ہے۔ہفتے کے آخری دنوں میں جب اس کی ضرورت نہیں ہوتی تو فراغت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے جمائیاں لینا شروع کردیتا ہوں۔گزشتہ چند دنوں سے اگرچہ یہ عادت اب رائیگاں کی مشقت محسوس ہونا شروع ہوگئی ہے۔

ناصرؔ کاظمی نے ایک شعر کے ذریعے اس شبے کا اظہار کیا تھا کہ وہ جس راستے سے روزگزرتے ہیں وہاں شاذہی کوئی شخص ان پر توجہ دیتا ہوگا۔غالباََ موت کے بعد وہ اس راستے سے گزرنا چھوڑدیں گے تو کسی کو بھی احساس نہیں ہوگا۔ غالبؔ ان کے مقابلے میں ایک ڈھیٹ آدمی تھے۔ بوڑھے ہوگئے تو گھر بیٹھے موت کے منتظر رہے۔ وباء کے موسم میں بھی لیکن وہ انہیں غچہ دے گئی۔ ’’موت کا ایک دن معین ہے‘‘ والی حقیقت کا اثبات مل گیا۔

آج سے دو ہفتے قبل قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس بلانے کا فیصلہ ہواتو پارلیمانی رپورٹروں کی مشاورت سے پچاس سال پارکئے صحافیوں کو وباء کے موسم میں پارلیمان آنے سے ’’گریز‘‘‘ کا مشورہ دیا گیا۔ میں اس مشورے سے بہت ناراض ہوا۔ اپنی صحافتی عمر کے 30سے زیادہ برس پریس گیلری میں بیٹھ کر پارلیمان کی کارروائی دیکھتا رہا ہوں۔ اس کے بارے میں لکھے کالم کی بدولت تھوڑی شہرت نصیب ہوئی۔ اپنی ’’اہمیت‘‘ کا گماں ہوا۔کرونا کے دنوں میں پارلیمان سے ’’گریز‘‘ کے مشورے کو میں نے اپنی صحافت کے اختتام کی مانند لیا۔ جنوں میں ’’غالبؔ‘‘ کی طرح ’’بکنے‘‘ کے بجائے ٹویٹ لکھنا شروع ہوگیا۔ سرکار کو رحم آگیا۔صحافتی دوست بھی مروت میں شرمندہ ہوگئے۔میرے گھر پارلیمان میں داخلے کی اجازت دینے والا کارڈ پہنچادیاگیا۔

کارڈ ملنے کے بعد خبر یہ ملی کہ پارلیمان میں داخلے سے قبل آپ کرونا کا ٹیسٹ کروائیں گے۔ اس کا نتیجہ آنے سے قبل ہی مگر پریس گیلری جاسکتے ہیں۔مجھے اس فیصلے سے اتفاق نہیں تھا۔ دُنیا بھر میں کرونا کی بابت ہوئی تحقیق نے یہ سمجھایا ہے کہ آبادی کے بے تحاشہ افراد کرونا وائرس کی زد میں آچکے ہوتے ہیں۔ان کے جسم میں فطری طورپر موجود مدافعتی نظام کی بدولت مگر ان میں اس بیماری کی علامات نمودار نہیں ہوتیں۔ ایسے افراد “Asymptomatic”کہلاتے ہیں۔خود تو مرض سے محفوظ رہتے ہیں لیکن بطور Carriersدیگر کئی لوگوں تک کرونا منتقل کردیتے ہیں۔میں بھی ایسا Carrierہوسکتا تھا۔اپنے شوق اور ضد سے مغلوب ہوکر دوسروں کو ممکنہ طورپر مریض بنانے سے لہذا گریز کیا۔ یوٹیوب کی Live Streamسے رجوع کرتے ہوئے The Nationکے لئے گیلری والا کالم لکھتا رہا۔ پریس گیلری میں باقاعدگی سے جاتے میرے تین ساتھی اگرچہ کرونا کی جکڑمیں آگئے۔ربّ کا صد شکر کہ اب بہت تیزی سے صحت یاب ہورہے ہیں۔

زندگی سے اُکتاہٹ کا سبب لیکن میری ذات سے متعلق اس واقعہ تک محدود نہیں۔ کرونا کی وباء پھیلنا شروع ہوئی تو دُنیا بھر کی حکومتوں کو لاک ڈائون یا Herd Immunityمیں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی دشواری لاحق ہوگئی۔کرونا کا مؤثر علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے بیشتر حکومتیں کرفیو نما لاک ڈائون کی راہ اختیار کرنے کو مجبور ہوئیں۔لاک ڈائون مگر کاروبار زندگی قطعاََ مفلوج بنادیتا ہے۔اس کے نتیجے میں جو معاشی بحران نمودار ہوسکتا ہے اس سے نبردآزما ہونے کے وسائل دُنیا کے امیر ترین ممالک کوبھی میسر نہیں۔مؤثر علاج کی دریافت میں بہت وقت درکار ہے۔کرونا سے تحفظ کو یقینی بنانے والی ویکسین 2020کے اختتام تک بازار میں بآسانی دستیاب ہونے کے امکانات بھی دور دور تک نظر نہیں آرہے۔اسی باعث سوال اٹھنا شروع ہوگئے کہ آخر کب تک لوگ گھروں میں محصور ہوئے وباء کے گزرجانے کے منتظر رہیں۔

ان سوالوں کے جواب میں Herd Immunityکا تصور اُبھرا۔ مذکورہ اصطلاح کا مناسب ترجمہ مجھے معلوم نہیں۔سادہ لفظوں میں یہ تصور تقاضہ کرتا ہے کہ زندگی رواں رکھی جائے۔ کرونا وائرس کو زیادہ سے زیادہ لوگوں پر حملہ آور ہونے دیا جائے۔پچاس سال سے کم عمر والوں کی بے پناہ اکثریت اس کی زد میں آجائے تو چند دنوں تک بخار وغیرہ میں مبتلا رہنے کے بعد ازخود شفایاب ہوجاتی ہے۔حقیقی مسائل فقط 60سے 80برس کی درمیانی عمر والے افراد کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی زندگی کئی اعتبار سے گزار چکے ہوتے ہیں۔’’حقیقت پسند‘‘ نگاہ سے دیکھا جائے تو ’’بونس‘‘ پر زندہ ہوتے ہیں۔وباء کا نشانہ بن کر جاںسے گزرگئے تو سوائے وقتی افسوس کے اور کیا ہوسکتا ہے۔پاکستان جیسے غریب ممالک کو جہاں کم از کم ستر فی صد افراد 60سے 80برس کی درمیانی بریکٹ میں داخل ہی نہیں ہوئے لاک ڈائون کے ذریعے اپنی معیشت کا بھٹہ نہیں بٹھانا چاہیے۔روزمرہ زندگی کو اجتماعی فاقہ کشی سے بچانے کیلئے بلکہ جلد ازجلد بحال کردیا جائے۔زندگی اور موت ویسے بھی مقدر کا اختیار ہیں۔اس اختیار سے لڑنا کاربے سود ہے۔انسان کچھ کرلے جو را ت قبر میں آنی ہے باہر گزاری ہی نہیں جاسکتی۔

Herd Immunityکی حمایت میں دئیے دلائل سطحی انداز میں جانچیں تو’’سفاکانہ‘‘ دکھتے ہیں۔لب بام ’’محوتماشہ‘‘ عقل والے اسے ’’قبل ازتہذیب‘‘ جنگل کا نظام بھی ٹھہراتے ہیں۔انہیں اس ضمن میں ڈارون کی متعارف کروائی Survival of the Fittestوالی تھیوری بھی یاد آجاتی ہے۔پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے عوام کی اکثریت مگر Herd Immunityکو دل وجان سے اختیار کرنے کو تیار ہے۔

گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی اور سینٹ کے جو اجلاس ہوئے ان سے خطاب کرتے ہوئے اسد عمر صاحب جیسے ذہین وفطین وزراء نے بہت مان سے سینہ پھلاتے ہوئے بارہا یاد دلایا کہ ہمارے Visionaryوزیر اعظم صاحب نے کرونا وباء کے پھیلائو کے انتہائی ابتدائی ایام ہی میں لاک ڈائون کے ہولناک اثرات کو بھانپ لیا تھا۔ وہ بہت شاداں تھے کہ اب دُنیا کے دیگر رہ نما بھی ان کے اتباع میں Herd Immunityکی راہ اختیار کررہے ہیں۔پاکستان میں ویسے بھی دُنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کرونا کی وجہ سے ہوئی اموات کی شرح قابلِ برداشت حد تک کم تر رہی ہے۔ٹھوس اعدادوشمار لاک ڈائون کا جواز فراہم نہیں کرتے۔زندگی اور موت کے فیصلوں کو انسان کے بس سے بالا تسلیم کرتے ہوئے ہم ایمان والوں کو کرونا سے گھبراکر گھروں میں محصور ہونے کی ضرورت نہیں۔جان تو ایک دن جانی ہے۔گھروں سے نکلو اور کرونا کا مقابلہ کرو۔

عمران حکومت نے ویسے بھی کرونا کی زد میں آئے افراد کی ہنگامی نگہداشت کا بہت لگن سے بندوبست فراہم کردیا ہے۔خدانخواستہ یہ بندوبست معاملات کو سنبھال نہ پایا تو لاک ڈائون کو بروقت لاگو کرتے ہوئے قیامت خیز مناظر کو ٹالا جاسکتا ہے۔یہ کالم لکھتے ہوئے سپریم کورٹ سے بھی خبر آچکی ہے۔اس کی بدولت Herd Immunityکے تصور کو آئینی اور قانونی جواز ملا نظر آرہا ہے۔پاکستان میں معمولاتِ زندگی اب تیزی سے بحال ہونا شروع ہوجائیں گے۔

پاکستان کے حوالے سے ’’اگے تیرے بھاگ…‘‘ والی صورت رونما ہوگئی ہے۔وسیع تر تناظر میں ذاتی طورپر لیکن مجھے اس سوال نے پریشان کررکھا ہے کہ آیا واقعتا خلقِ خدا کی اکثریت نے دُنیا بھر میں یہ طے کرلیا ہے کہ 60سال پار کرجانے والے افراد زمین پر بوجھ میں بدل جاتے ہیں۔اگر اس سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے تو میں صبح اٹھتے ہی ’’دانشوری‘‘ بگھارنے میں کیوں مصروف ہوجاتا ہوں۔اپنے بستر میں دبک کر خود کو کشتی کا وہ بوجھ محسوس کیوں نہیں کرتا جسے ڈوبنے سے بچانے کے لئے دریا برد کردیا جاتا ہے۔

میرے ذہن میں آئے سوالات کو برائے مہربانی قنوطی بڑبڑاہٹ شمار نہ کیا جائے۔امریکہ کی ایک بہت ہی جید قرار پائی یونیورسٹی ہے۔اس کا نام ہے Yale۔امریکہ ہی نہیں دُنیا بھرکی اشرافیہ کے بچے ا س یونیورسٹی میں داخلے کو بے قرار رہتے ہیں۔

اس یونیورسٹی سے متعلق ماہرینِ اقتصادیات کے ایک گروہ نے بہت تحقیق کے بعد ایک تصور دیا ہے۔اسے Value of Statistical Life(VSL)پکارا جارہا ہے۔اس تصور نے کسی فرد کی زندگی کی معاشی اعتبار سے Valueیعنی ’’قدر‘‘ طے کرنے کی کوشش کی ہے۔دیکھا یہ جارہا ہے کہ انسانی عمر کا وہ کونسا گروہ یامعاشی طبقہ ہے جو خالصتاََمعاشی حوالوں سے ’’قابل قدر‘‘ ہے۔اس کے علاوہ جو انسان ہیں وہ محض’’کچرا‘‘ ہیں۔زمین پر بوجھ کی مانند۔ان کی زندگی کی فکر میں مبتلا کیوں رہا جائے۔معاشروں اور ریاستوں کے وسائل،خواہ وہ امیر ترین ہی کیوں نہ ہوں،بالآخر محدود ہی ہوتے ہیں۔ان وسائل کو بنیادی طورپر معاشرے میں خوش حالی پھیلانے کے لئے وقف ہونا چاہیے۔

Herd Immunityکے حامیوں کو VSLکا تصور بہت بھایا ہے۔کچی بستیوں میں ٹین کی چھتوں تلے پناہ گزیں ہجومِ انسانی اس تصور کی بدولت واقعتا دوستو فسکی کے بیان کردہ ’’ذلتوں کے مارے لوگ‘‘ثابت ہورہے ہیں۔دُنیا بھر کی حکمران اشرافیہ ان کی فکر محسوس کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کررہی اور ’’ماہرین معیشت‘‘ نے ’’ٹھوس تحقیق‘‘ کے ذریعے ان کی بے نیازی کو ’’سائنسی جواز‘‘ فراہم کردیاگیا ہے۔