منتخب تحریریں

’’زبان دراز‘‘

Share

اقتدار کے ایوانوں میں باہم رسہ کشی بھی ہوتی ہے۔ ایک ہی ٹیم کے ارکان کے درمیان سرد جنگ بھی رہتی ہے۔ ”باس‘‘ کے قریب تر ہونے کے لیے‘ کسی دوسرے کو پیچھے کھینچنا بھی پڑتا ہے۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا ؎
جو بھی آوے ہے ترے قدموں میں جا ڈھونڈے ہے
میں کہاں تک ترے پہلو سے سرکتا جائوں
باس کانوں کا کچا ہو تو خوشامدیوں اور چاپلوسوں کا کام آسان تر ہو جاتا ہے‘ اور کسی کے خلاف باس کے کان بھرنا مشکل نہیں ہوتا۔جناب عمران خان کا پرائم منسٹر ہائوس بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ سنا ہے‘ آج کل وزیر قانون اور قانون و پارلیمانی امور کے مشیرکی آپس میں نہیں بنتی۔ فردوس عاشق اعوان رخصت ہو چکیں۔ یہ رخصت رضاکارانہ نہیں‘ جبری تھی‘ اس کے باوجود ہمارے فواد چودھری کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ ویسے دیکھا جائے تو فواد چودھری کا غصہ بنتا بھی تھا۔ وہ خان صاحب کی کابینہ میں اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر تھے اور یوں حکومت پاکستان کے سرکاری ترجمانِ اعلیٰ۔ ٹی وی چینلز پر دن میں کئی کئی بار ان کی رونمائی ہوتی۔ (اگرچہ اس دوران اپنی وزارت اور پی ٹی وی کے بعض حکام اعلیٰ سے ان کی کشمکش بھی رہی) فواد چودھری کو اس اہم اور حساس منصب پر ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ فردوس عاشق اعوان ان کی جگہ تشریف لے آئیں اور فواد چودھری کو سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت تھما دی گئی‘ جو نسبتاً کم اہم وزارت سمجھی جاتی تھی‘ لیکن فواد کی ذہانت اور معاملہ فہمی یہاں بھی بروئے کار آئی اور یکایک یہ وزارت بھی اہم تر نظر آنے لگی۔ فواد کو خبروں میں رہنے کا فن خوب آتا ہے۔ انہوں نے آتے ہی رویتِ ہلال کے مسئلے پر ”مولویوں‘‘ سے پھڈا ڈال لیا۔ اور اب کورونا کرائسس کے دوران بھی پرئم منسٹر صاحب کو بھی وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی لے جا کر اس کا ڈنکا بجا دیا۔
فردوس عاشق اعوان کی انٹری سبھی کے لیے ایک بڑا سرپرائز تھا۔ واقفانِ درونِ خانہ اسے روحانی اشارے کا نتیجہ قرار دے رہے تھے۔ پرائم منسٹر ہائوس میں فردوس کی بظاہر کوئی لابی نہیں تھی۔ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی وہ تنہا تنہا لگتی تھیں۔ لیکن وہ سہاگن تھیں کہ پیا کی چاہت حاصل تھی۔
فردوس عاشق اعوان کو اپنے لیے راستہ بنانے اور آگے بڑھنے کا فن خوب آتا ہے۔ انہوں نے ایک سیاسی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد عاشق اعوان اپنے علاقے میں بھٹو کے جیالے تھے۔ مظہر برلاس کے بقول‘ ان کے ڈیرے پر فردوس نامی ایک ملنگ بھی مستقل موجود ہوتا تھا‘ اسی کی عقیدت میں عاشق اعوان نے لاڈلی کا نام فردوس رکھ دیا۔فردوس کو لیڈری کے اوصاف ورثے میں ملے تھے۔ لاہور کے فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں طالب علمی ہی کے دور میں انہوں نے اپنا ایک گروپ بنا لیا تھا۔ ایم بی بی ایس کے بعد انہوں نے یہیں جاب کر لی تو یہ گروپ تب بھی قائم رہا۔ اپنے جواں سال بھائی کی موت پر انہوں نے ایک چیریٹی آرگنائزیشن بھی بنا لی۔ یہ ڈاکٹروں کی سیاست میں ڈاکٹر سعید الٰہی اور ڈاکٹر یاسمین راشد (موجودہ وزیر صحت پنجاب) کی کشمکش کا دور تھا۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے انتخابات میں دونوں گروپ مدمقابل ہوتے اور ڈاکٹر سعید الٰہی گروپ کا پلڑا بھاری رہتا۔ تب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا گروپ‘ ڈاکٹر سعید الٰہی کا حلیف ہوتا تھا۔
فردوس عاشق اعوان سیاست میں نظریات کے بجائے امکانات کو اہمیت دیتی ہیں۔ 2002ء کی قومی اسمبلی میں وہ پرویز مشرف کی آشیرباد کے ساتھ قاف لیگ کے ٹکٹ پر خواتین کے لیے مخصوص نشستوں میں سے ایک پر براجمان ہو گئیں۔ فروری 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لے لیا۔ بے نظیر بھٹو کی المناک موت اور آصف زرداری کے ”پاکستان کھپے‘‘ کے نعرے نے پنجاب میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے لیے گنجائش پیدا کر دی تھی۔ یہی لہر فردوس کے کام بھی آئی اور اس نے پرویز مشرف کی قاف لیگ کے امیدوار چودھری امیر حسین (سابق سپیکر قومی اسمبلی) کو شکست دے دی۔ یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیر اطلاعات و نشریات بھی رہیں اور اس سے محرومی پر کابینہ کے بھرے اجلاس میں آنسوئوں اورسسکیوں کے ساتھ روتی نظر آئیں۔ 11 مئی 2013ء کے الیکشن کی صبح خواجہ آصف کے مقابلے میں‘ پی ٹی آئی کے امیدوار کے حق میں دستبردار ہو گئیں۔ اب انہیں نئے سایہ دار اور پھل دار درخت کی تلاش تھی۔ کہا جاتا ہے‘ مسلم لیگ (ن) کی طرف فردوس کے راستے میں خواجہ آصف حائل ہو گئے تھے۔ 2018ء کا الیکشن پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑا اور مسلم لیگ (ن) کے ارمغان سبحانی کے مقابلے میں 38 ہزار ووٹوں سے شکست کھائی اور آٹھ ماہ بعد پرائم منسٹر ہائوس میں اس شان سے داخل ہوئیں کہ وزیراعظم عمران خان کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات تھیں۔ اپوزیشن کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے‘ وزیراعظم صاحب کو جس طرح کے ترجمان درکار تھے فردوس عاشق اعوان اس پر سو فیصد پورا اترتی تھیں۔ ”جسے پیا چاہے‘ وہی سہاگن‘‘ والے راز کو بھی وہ خوب سمجھتی تھیں؛چنانچہ ”باس‘‘ کی گڈبک میں رہنا ان کی سیاسی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ تھا۔
گزشتہ نومبر میں میاں نواز شریف کی (علاج کے لیے) بیرونِ ملک روانگی کے فیصلے کی بریفنگ میں انہوں نے بتایا کہ اس کے لیے وزیراعظم صاحب نے کابینہ کے اجلاس میں باقاعدہ ”ووٹنگ‘‘ کرائی اور یوں کابینہ کی منظوری کے ساتھ یہ فیصلہ ہوا۔ چند روز بعدوزیراعظم صاحب کا کہنا تھا‘ وزراء کی اکثریت بیرونِ ملک جانے کی اجازت کے خلاف تھی لیکن میں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر باہر جانے دیا۔ فردوس عاشق اعوان کو ان کی گزشتہ بریفنگ یاد دلاتے ہوئے وزیراعظم صاحب کے تازہ بیان کے حوالے سے استفسار کیا گیا‘ تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا Boss is always right‘لیکن اس مکمل اطاعت اور کمالِ نے نوازی کے باوجود بالآخر باہر کا دروازہ دکھا دیا گیا۔ کہا جاتا ہے‘ پرائم منسٹر صاحب کے پرنسپل سیکرٹری نے انہیں استعفے کا باعزت راستہ سمجھایا‘ تو یہ ان سے اُلجھ پڑیں‘ ”تم مجھ سے استعفیٰ مانگنے والے کون ہو‘ یہ فیصلہ تو وزیراعظم ہی کر سکتے ہیں۔ جہاندیدہ اور سرد و گرم چشیدہ خاتون یہ بات سمجھ نہ پائیں کہ پرنسپل سیکرٹری‘ دراصل ”باس‘‘ ہی کا پیغام پہنچا رہے تھے۔
فواد چودھری کے من کی مراد پوری ہوئی تھی‘ وہ اس پر خاموش کیوں رہتے؟ فرمایا‘ موصوفہ کی کارکردگی کے سامنے تو ایک عرصے سے سوالیہ نشان لگ رہے تھے۔ وزارت سے فراغت کا یہ کارِخیر تو بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ گزشتہ روز مزید فرمایا (شاید ایک آدھ شعر پر اکتفا کرنے کی بجائے پوری غزل کہنا چاہتے ہیں) فردوس عاشق نے یہ عہدہ لابنگ کے ذریعے حاصل کیا۔ وہ اس کی اہل نہیں تھیں؛چنانچہ اس ایک سال کے دوران انہوں نے پی ٹی آئی اور پرائم منسٹر ہائوس کو بہت نقصان پہنچایا۔ یہاں فواد چودھری صاحب اس بات کو نظرانداز کر گئے کہ اس صورت میں ذمہ داری کسی اور پر نہیں‘ خود پرائم منسٹر ہائوس پر آتی ہے کہ وہاں فیصلے میرٹ پر نہیں‘ لابنگ کے زیراثر ہوتے ہیں۔فردوس عاشق بھی کہاں چپ رہنے والی تھیں‘ جواباً ارشاد ہوا‘ یہ چند بونے میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے‘میں زبان درازی کرنے والوں کو جلد جواب دوں گی اور بتائوں گی کہ وہ کالی بھیڑیں اور عمران خان کے نادان دوست کون ہیں جن کی سازشیں حکومت کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔
(ظاہر ہے‘ وہ اپنی برطرفی کو بھی انہی سازشوں میں شمار کرتی ہیں) وزیراعظم صاحب سے اپنے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کے ازالے کی اپیل کے ساتھ‘ وہ اس توقع کا اظہار بھی کر رہی تھیں کہ سچ سامنے آئے گا اور ”میرا کپتان‘‘ حق کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ اس گفتگو کا دلچسپ ترین حصہ وہ تھا جب اپنے مخالفین کو وہ کہہ رہی تھیں کہ مجھ سے زیادہ زبان دراز کوئی نہیں۔ ویسے تو اس لنکا میں کئی اور بھی ”باون گز‘‘ کے ہیں‘ لیکن فردوس عاشق صاحبہ یہ کریڈٹ خود لینا چاہتی ہیں تو ہمیں کیا اعتراض؟