اس ملک کے شریفوں اور زرداریوں کی جانب سے مبینہ طورپر فراہم کردہ ’’لفافوں‘‘ کی بنیاد پر چلائی ’’بکائو صحافت‘‘ کو تحریک انصاف کے حق گو نوجوانوں نے برسوں کی لگن سے بالآخر بے نقاب کردیا۔ یہ حقیقت مگر اپنی جگہ برقرار رہی کہ خلقِ خدا کی خاطر خواہ تعداد کو ’’خبر‘‘ نامی شے کی طلب ہوتی ہے۔اس طلب کی تسکین بھی ضروری ہے۔
2002سے ہماری ٹی وی سکرینوں پر چھائے اینکر خواتین وحضرات مگر اپنی کشش کھوبیٹھے ہیں۔ٹاک شوز کی Ratingsتیزی سے گرنے لگی ہے۔ان میں سے چند بدنصیب اپنے اداروں کے لئے کمائوپوت ثابت ہونے کے بجائے معاشی بوجھ میں تبدیل ہونا شروع ہوگئے تھے۔اپنی بقاء کے لئے مختلف چینلوں کو انہیں فارغ کرنا پڑا۔ مجھ جیسے ڈھیٹ پرنٹ صحافت میں واپس آگئے۔ کیمرے کے ذریعے لوگوں سے گفتگو کرنے کے ہنر سے مالا مال ساتھیوں نے مگر یوٹیوب کی بدولت اپنے مداحین سے رابطہ برقرار رکھا۔تحریک انصاف کی انقلابی سوچ کو فروغ دینے والوں کو ان کی ڈھٹائی نے نئی فکر میں مبتلا کردیا ہے۔
بکائو صحافت کو بے نقاب کرنے کے بعد فرض کرلیا گیا تھا کہ ناظرین کی اکثریت ٹی وی ڈراموں سے رجوع کرنا شروع کردے گی۔اس سوچ کو تسکین فراہم کرنے کے لئے ’’میرے پاس تم ہو‘‘ والا سلسلہ وار ڈرامہ آیا۔عوام میں وہ اتنا مقبول ہوا کہ اس کی آخری قسط سینما ہائوسز میں دکھانے کا اہتمام کرنا پڑا۔اس میں داخلے کی ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے کھڑکی توڑ کاوشیں ہوئیں۔لوگوں کا دل موہ لینے والے ڈرامے مگر روزانہ کی بنیاد پر لکھے اور تیار کئے نہیں جاسکتے۔ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کے مصنف بھی بجائے ایک اور سیریل لکھنے کے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے سے ہمارے دین دار معاشرے میں ’’بے حیائی‘‘ پھیلانے والی خواتین کے خلاف فکری جہاد میں مصروف ہوگئے۔ ’’اسلامی اقدار وثقافت‘‘ کو زندہ رکھنے کے لئے سرکاری خزانے سے چلائے پاکستان ٹیلی وژن کو بالآخر برادر ملک ترکی میں تیار کردہ ’’ارطغرل‘‘ نامی ڈرامے کو اُردو میں ڈب کرکے رمضان کے مقدس ایام میں لوگوں کو دکھانا پڑا۔ میری بدقسمتی کہ اس کی ایک قسط بھی ابھی تک دیکھ نہیں پایا ہوں۔
سوشل میڈیا پر لیکن چند ’’مغرب زدہ‘‘ اذہان مذکورہ ڈرامے کے بارے واہی تباہی بکنا شروع ہوگئے۔ان کا اصرار ہے کہ ’’ارطغرل‘‘ اسلامی اقدار وثقافت نہیں بلکہ خلافتِ عثمانیہ سے وابستہ ترک قوم پرستی کی نمائندگی کرتا ہے۔تقریباََ نو سو برس تک برصغیر پاک وہند پر حکمرانی کرنے والے مسلم سلاطین اس ’’خلافت‘‘ کے روبرو سرنگوں نہیں ہوئے تھے۔ان کے اندازِ حکمرانی اور طرزِزندگی کو اجاگر کرنے کے لئے ہمارے ایک جید نقاد اور ڈرامہ نگار جناب صفدر میر صاحب نے 1970کی دہائی میں ’’قلعہ کہانی‘‘ کے عنوان سے ایک ڈرامائی سلسلہ تیار کیا تھا۔مرحومہ روحی بانو اسی کی بدولت خاموش رہتے ہوئے بھی چہرے کے تاثرات سے بہت کچھ کہتی دریافت ہوئی تھی۔
جنرل ضیاء کے دور میں لیکن یہ طے ہوا کہ جلال الدین اکبر جیسے سلاطین ’’اسلامی اقدار‘‘ کے نمائندہ نہیں۔ ہماری ’’تاریخ‘‘ کی جڑیں بغداد کو مرکز بناکر چلائی ’’خلافتِ عباسیہ‘‘ میں تلاش کرنا ہوں گی۔ فاطمہ ثریا’’بجیا‘‘ نے اس ضمن میں قدم بڑھایا اور اس دور کے حوالے سے طویل ڈرامے لکھ کر ہماری ’’تاریخ‘‘ کو ازسرنو مرتب کرنے کی کوشش کی۔
عمران خان صاحب مگر ’’خلافتِ عثمانیہ‘‘ کی داستانوں سے زیادہ مرعوب ہیں۔ان کی خواہش ’’ارطغرل‘‘ کو اُردو زبان میں ڈب کرنے کا باعث ہوئی۔سنا ہے سکرینوں پر یہ سلسلہ بہت رونق لگارہا ہے۔اس میں حلیمہ خاتون کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ بھی بہت مقبول ہوئی ہے۔ چند فتنہ سازوں نے اگرچہ اس خاتون کی چند ایسی تصاویر ڈھونڈلی ہیں جو اس کی ’’ماڈرن‘‘ زندگی کی نشا ندہی کرتی ہیں۔ان تصویروں کی وجہ سے ہمارے کئی پاک باز بہت مایوس ہوئے۔ غالباََ ارسہ اس اداکارہ کا پیدائشی نام ہے۔اسے پاکستان میں اپنی مقبولیت کی خبر مل چکی ہے۔چند ٹویٹ اس کے نام سے منسوب ہوئے ہیں جن کے ذریعے وہ دورئہ پاکستان کی خواہش مند نظر آئی۔ عید گزرنے کے بعد اسے یہاں بلوانے کا بندوبست ہونا چاہیے۔ رونق لگ جائے گی۔دریں اثناء اگر ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کے مصنف کوئی ایسا ڈرامہ سوچ لیں جس کا کلیدی کردار اس اداکارہ کے لئے وقف ہو تو مزید رونق لگ جائے گی۔
خلافِ عثمانیہ سے مسحوری کے اس موسم میں اگرچہ میرے ذہن میں اکثر یہ سوال امڈ آتا ہے کہ قیام پاکستان کو یقینی بنانے والے قائد اعظم محمد علی جناح نے خود کو برطانوی دور میں چلائی ’’تحریک خلافت‘‘ سے دور کیوں رکھا تھا۔ حالانکہ خود کو مہاتما کہلواتا گاندھی اس تحریک کی حمایت میں علی برادران کے ساتھ کھڑا ہوگیا تھا۔ قائد اعظم نے مگر اس کی حمایت کو مکاری قرار دیا۔برصغیر کے جذباتی مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ ’’گھاس میں چھپے اس سانپ(Snake in the Grass)‘‘کی جانب سے دکھائی ہمدردی اور محبت سے محتاط رہیں۔اقبالؔ نے بھی عثمانیوں پر ٹوٹے ہوئے ’’کوہِ غم‘‘ کو دل پر نہیں لیا۔ان کے امید پرست ذہن نے بلکہ ’’خونِ صدہزار انجم‘‘ سے پیدا ہونے والی سحر پر نگاہ رکھنے کی تلقین کی۔
خلافتِ عثمانیہ کی روایات کو ٹھکراتے ہوئے جو “Young Turks”نمایاں ہورہے تھے ان سے وابستہ لکھاریوں کے افسانوں اور مضامین کا قرۃ العین حیدر کے والد سید سجاد حیدر یلدرم نے اُردو زبان میں ترجمہ کیا۔ان میں سے ڈاکٹر خالدہ ادیب خانم نامی خاتون دنیا بھر میں بہت مشہور ہوئی۔علی گڑھ یونیورسٹی کے رجسٹرار کی حیثیت میں یلدرم نے انہیں برطانیہ کے محکوم ہوئے انڈیا میں مدعو کیا۔وہ مختلف تقاریب سے فقط اپنے سرکو سکارف سے ڈھانپے مخاطب ہوئی تو ’’ہماری اقدار‘‘ کے محافظوں میں تھرتھلی مچ گئی۔یلدرمؔپر مسلم خواتین کو ’’مغرب زدہ‘‘ بنانے کی سازش کے الزامات لگائے گئے۔
2020میں تاہم پاکستان میں خلافتِ عثمانیہ سے محبت وعقیدت کا احیاء ہوتا نظر آرہا ہے۔مجھ جاہل کو ہرگز خبر نہیں کہ مذکورہ خلافت اس ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کی کس حد تک نمائندہ تھی جو عمران خان صاحب پاکستان میں متعارف کروانا چاہ رہے ہیں۔اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ٹھوس تحقیق کی ضرورت ہے۔اس تحقیق کے لئے لازمی ہے کہ آپ ترک زبان سے واقف ہوں۔اپنی زندگی میں فقط تین بار ترکی گیا ہوں۔ دومرتبہ ترک حکومت کا مہمان تھا۔ایسی میزبانی کے طفیل ترک قبرص بھی گیا تھا۔شکریے کے ترک ترجمے کے علاوہ کسی اور ترکی لفظ کو لیکن جان نہیں پایا۔
انگریزی زبان میں ترجموں کی بدولت جدید ترکی ادب سے تھوڑی شناسائی یقینا ہوئی ہے۔ میری ناقص رائے میں نوبل انعام یافتہ اورہان پامک دورِ حاضر کا مؤثر ترین ناول نگار ہے۔اس نے ’’میرا نام سرخ ہے‘‘ کے عنوان سے بھی ایک شاہکار ناول لکھا ہے۔یہ ناول خلافتِ عثمانیہ کے دور سے وابستہ مصوروں کی داستانیں بیان کرتا ہے۔ان داستانوں میں سازشیں،افواہیں اور پراسرار قتل کلیدی کردار کے حامل ہیں۔انہیںپڑھتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔حیران کن بات یہ بھی ہے کہ کرونا کی وباء نازل ہونے سے چار سال قبل ہی پامک نے ایک ایسا ناول لکھنے کی تیاری شروع کردی تھی جو گزشتہ صدی کے آغاز میں پھیلی طاعون کی وباء والے دور کو بیان کرے گا۔ حال ہی میں ابھی تک زیر تحریر اس ناول کے حوالے سے پامک نے نیویارک ٹائمز کے لئے ایک مضمون بھی لکھا ہے۔
جو ناول وہ ان دنوں لکھ رہا ہے اس کا عنوان Nights of Plagueہے۔’’طاعون کی راتیں‘‘ شاید اس کا مناسب ترجمہ ہوسکتا ہے۔پامک کا مضمون پڑھتے ہوئے مجھے گماں ہوا کہ مذکورہ ناول میں یہ تاثر دیا جائے گا کہ ترکی میں جب طاعون کی وباء پھوٹی تو عوام کی اکثریت نے یہ فرض لیا کہ ’’سچے مسلمان‘‘ اس سے محفوظ رہیں گے۔ایسا مگر ہونہیں پایا۔ بالآخر اس دور کے حکمرانوں نے کرونا کے موسم میں معروف ہوئی Herd Immunityوالی راہ اختیار کرنے کی پالیسی اپنائی۔اس کے بعد کیا ہوا۔یہ جاننے کے لئے مذکورہ ناول کے تیار ہوجانے اور اس کے انگریزی ترجمے کا انتظار کرنا ہوگا۔
یہ بات البتہ فی الوقت بہت اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ ’’طاعون کی راتیں‘‘ والے ترکی کی طرح پاکستان کے حکمرانوں نے بھی بالآخر کرونا سے نبردآزما ہونے کے لئے Herd Immunityاپنالی ہے۔اس ضمن میں اگر کوئی ابہام تھا تو اسے سپریم کورٹ نے پیر کے روز سنائے فیصلے کے ذریعے دور کردیا ہے۔عمران حکومت کی اس سوچ کو عدالتی توثیق مہیا ہوگئی ہے کہ کرونا کی وجہ سے پاکستان میں ہوئی شرح اموات عالمی سطح پر نظر آنے والی قیامت خیز تعداد کے مقابلے میں حوصلہ افزاء حد تک کم رہی ہے۔گھبراکر گھروں میں لہذا محصور ہنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔کاروبار زندگی کی رونقیں بحال ہوناشروع ہوگئی ہیں۔کرونا کو بھلاتے ہوئے ہم عید کی تیاری میں مصروف ہوگئے ہیں۔ربّ کریم سے دُعا ہے کہ یہ رونقیں برقرار رکھے۔