فی الحال تو کسی خبر سے زیادہ کافی دنوں سے افواہ ہی گرد ش کررہی ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ ایک سے زیادہ بیماری میں ہمارے مہربان مبتلا ہیں۔ کہاجارہاہے کہ عملی طورپہ بستر تک محدود ہیں۔ لیکن کہانی کیسی ہے۔ لگتایوں ہے جیسے کوئی افسانوی کردار کی بات ہورہی ہو۔ کہاں ذوالفقار علی بھٹو اورکہاں ہمارے نواب شاہ کے مہربان۔ لیکن نصیب یا تقدیر بھی کوئی بات ہوتی ہے ۔ اپنی زندگی میں بھٹو اِن کو نزدیک نہ پھٹکنے دیتے۔ حاکم علی زرداری 1970ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے ضرور منتخب ہوئے تھے لیکن پارٹی میں اُن کی حیثیت بس واجبی سی تھی۔ دوسری تیسری صف کے لیڈر تھے ، اُن کانام پہلی صف میں کبھی نہ لیاگیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 1977ء کی بھٹو مخالف تحریک شروع ہوئی تو حاکم علی زرداری نے پیپلزپارٹی چھوڑ دی اوروہ سردار شیر باز مزاری کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہوگئے ۔ اسی پارٹی نے بعد میں عوامی نیشنل پارٹی کی شکل اختیار کی ۔ لیکن تقدیر کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں ۔ نواب شاہ والے بلوچ ہیں لیکن بلوچوں میں بھی ان کا اتنا بڑا مقام کبھی نہ رہا۔ انہیں تو ایک اورنام سے پکاراجاتا جس کا ذکر یہاں شاید مناسب نہ ہو‘ لیکن یہ سب باتیں ایک طرف،1987ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی چہیتی بیٹی اورسیاسی جانشین بینظیر بھٹو کی شادی کہاں ہوتی ہے ، اسی نواب شاہ کے بلوچ گھرانے میں۔ کسی بھی نوعیت سے برابری کا سودا یہ سرے سے نہیں تھا۔ لیکن جوہونی ہوتی ہے ہو کے رہتی ہے۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ حاکم علی زرداری کی دوسری بیگم ٹمی زرداری کی دوستی بیگم نصرت بھٹو سے تھی اوروہیں سے کہیں رشتے کی بات چلی۔ ٹمی زرداری کیمبرج یونیورسٹی کی پڑھی ہوئی تھیں اورریڈیو پاکستان کے پہلے سربراہ زیڈ اے بخاری (جوکہ پطر س بخاری کے بھائی تھے) کی بیٹی تھیں۔
شادی ہوئی تودنیا حیران رہ گئی ۔ ایک نجی فنکشن 70کلفٹن میں ہوا لیکن پبلک اجتماع ایک جلسہ عام کی صورت میں لیاری میں منعقد کیاگیا۔ ہمارے مہربان بلوچ پگڑی پہنے ہوئے تھے اورلگتایوں تھا کہ بلوچستان کے کوئی بڑے قبائلی سردار ہیں۔ سردار تو نہ تھے لیکن اپنی گوناگوں صلاحیتوں کی بنا پہ سرداروں سے کہیں بڑے ہوگئے ۔ شادی کے ایک سال بعد زوجہ وزیراعظم بن گئیں لیکن ہمارے مہربان نیچے کبھی نہ لگے ‘ شروع دن سے اپنی انفرادیت پہ زوردیا۔ وزیراعظم ہاؤس میں کسی مہمان کے ہوتے ہوئے تصویر بنتی تو عجیب انداز میں بیٹھے ہوتے۔ یوں لگتا جیسے ممبئی کے کوئی بھائی صاحب بیٹھے ہیں۔ بازوؤں کا پھیلا ؤ اورٹانگ پہ ٹانگ رکھنے کا اندا ز بالکل ویساہی ہوتا۔ یہ انفرادیت کااظہار تھا۔ لیکن بہت ہی کم عرصے میں انفرادیت کااظہار اورذریعوں سے بھی ہونے لگا‘ جب مال بنانے کی خبریں عام ہوئیں۔ اس حوالے سے ہمارے مہربان نے ایک خطاب بھی پایا ۔لیکن ایک لحاظ سے اُن کے ساتھ زیادتی ہوئی ۔ تاثر ایسا بنا کہ سمجھا جانے لگا کہ مال بنانے کا کھاتہ صرف انہی کا ہے حالانکہ واقفانِ حال جانتے تھے کہ اس کام میں اوربھی ان کے ساتھ شامل تھے۔ آصف علی زرداری تو منظر عام کی روشنیوں میں 1987ء میں آئے جب بینظیر بھٹو سے شادی ہوئی ‘لیکن مال بنانے کی کہانیاں جو پیپلزپارٹی کی قیادت سے وابستہ تھیں وہ پہلے کی چل رہی تھیں۔ ملبہ البتہ سارا ہمارے مہربان پہ گرتارہا۔ یہ نہیں کہ وہ معصوم تھے ، معصومیت کا دعویٰ انہوں نے کبھی کیا بھی نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ شریکِ ثواب اوربھی تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ایک قسم کی دوڑ پاکستانی سیاست میں لگی ہوئی تھی۔ ایک طرف پنجاب کے خانوادے جو جنرل ضیا الحق کے سیاسی جانشین ٹھہرے وہ اپنے انداز سے لمبا مال بنا رہے تھے۔ دوسری طرف بینظیر کے شوہر نامدار جو مال بنانے کے حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم کررہے تھے۔ ایک طرف جنرل ضیا کے وارث ‘دوسری طرف بھٹو کی وراثت کے مجاور۔ دشمنی دونوں میں شدید لیکن کوئی قدر مشترک تھی تو وہ لمبامال بنانے کی ۔ دونوں اطراف سے ماردھاڑ ایسی کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی نظیرنہ ملے ۔ تقابل کیا جائے تو اس دور سے پہلے کی پاکستانی سیاست واقعی معصومانہ لگتی ہے ۔ گزرے ادوار کے اکابرین چھوٹی موٹی وارداتوں پہ گزارا کرلیاکرتے تھے۔ ایک لمبی فہرست ایسے اکابرین کی بھی ہے جن کا دامن ایسے الزامات سے پاک ہے۔ ان مقابلے کے مجاوروں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا اورایک نئی طرز سیاست کی بنیاد رکھی ۔ ایسی مضبو ط بنیاد جو ہلنے کانام نہیں لیتی۔ آج کی پاکستانی سیاست میں اگر کسی کی چھاپ ہے تو ان دو مجاور خاندانوں کی ۔
ایک فرق البتہ دونوں وراثتوں میں رہا۔ پنجاب کے خانوادے ہمیشہ اپنی معصومیت کی پکار کرتے۔ ہرالزام سے انکاری رہتے۔ہمارے نواب شاہ کے مہربان نے کبھی بھی اپنے آپ کو معصوم کے طورپہ پیش نہیں کیا۔ اس لحاظ سے منافق قطعاً نہیں تھے۔ جو تھے وہ تھے اوراگر کبھی کسی چیز کا اقرار نہیں کیا تو سرہلا کے انکاری بھی نہیں ہوئے۔ اس لحاظ سے پنجاب کے خانوادے بالکل مختلف رہے ۔ کوٹ کوٹ کے ڈرامہ بازی ، ہرچیز سے انکار اورہرلمحے اپنے آپ کو اخلاقیات کا چیمپئن ظاہر کرنا۔ قوم کے نرالے پن کابھی کیا کہنا۔ کافی عرصے تک قوم کاایک سنجیدہ طبقہ پنجاب کے خانوادوں کی معصومیت پہ یقین رکھتارہا۔ یہ تو تیسری وزارتِ عظمیٰ آئی جب اس سنجیدہ حلقے کاایمان متزلزل ہونے لگا ۔ نہیں تو جنرل ضیاکے دور اور اس کے بعدیہ کہاجاتاتھا کہ پیپلزپارٹی ملک دشمن ہے اور قوم کے خیرخواہ ہیں تو یہ پنجاب کے خانوادے۔
ایک اورفرق بھی نمایاں رہا ۔مختلف بنا پہ دونوں مجاور خاندانوں کو جیل کاٹنا پڑی ۔ پنجاب والے روتے ہی رہتے تھے اور راہِ فرار تلاش کرنے میں مہارت بھی پائی۔ نواب شاہ کے مہربان نے لمبی جیلیں کاٹیں لیکن منہ سے کبھی اُف نہ نکلی۔ یہ اوربات ہے کہ جس جیل میں بھی رہے اپنی بادشاہت وہاں قائم کی۔ جو آرام یا سہولت انسان سوچ سکتاہے اُن کو میسر تھی۔ ایک وجہ تو ان کی پوزیشن ہوگی لیکن ایک وجہ دریا دلی بھی تھی۔ پیسے اپنے ہوں یا یاروں کے جہاں خرچنے ہوتے خوب خرچتے۔ اس لیے جیل اُن کیلئے صحیح معنوں میں کبھی جیل نہ رہی لیکن استقامت بھی تھی ۔ اسی بنا پہ مجید نظامی مرحوم جیسے کٹر پیپلزپارٹی مخالف شخص نے ہمارے مہربان کو مرد ِ حُر کاخطاب دیا۔ مجید نظامی صاحب سیاسی اور دیگر حوالوں سے پنجاب کے خانوادوں کے قریب تھے لیکن ایسا لقب اُن کو کبھی نہ دیا۔
ہمارے مہربان کے بارے میں یہ بات عام تھی کہ دوستوں کے پکے ہیں۔ اپنی جیب سے نہیں تو اورذرائع سے دوستوں کو نواز ا بھی بہت‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ دشمنی کے بھی پکے تھے۔ چاہے وہ دشمنی اپنی زوجہ کے سگے بھائی سے کیوں نہ ہو۔ سابق صدر فاروق لغاری مرحوم اس بات کے گواہ ہیں کہ آصف علی زرداری اوربینظیر بھٹو اُن کے پاس آئے اورمرتضیٰ بھٹو کی شکایت کی کہ وہ بہت تنگ کررہاہے۔ بقول فاروق لغاری صاحب کے (دوران ایک ٹی وی انٹرویو ) آصف علی زرداری نے کہا کہ بینظیر بھٹو ہمارے کلچر کے تقاضوں کو نہیں سمجھتیں۔ یامرتضیٰ رہے گا یا میں۔
کچھ ہی دن بعد 70کلفٹن کے گیٹ پہ گولیوں کی بوچھاڑ میں مرتضیٰ بھٹو کی لاش سڑک پہ پڑی تھی۔ فائرنگ پولیس نے کی۔ یہ امردلچسپی سے خالی نہیں کہ اس وقت کراچی میں اہم عہدوں پہ فائز تمام پولیس افسران زرداری صاحب کے اعتماد کے آدمی تھے۔ کہتے ہیں کہ مرتضیٰ 45منٹ تک سڑک پہ پڑے رہے اورانہیں فوراً ہسپتال نہ لے جایا گیا۔ جب قریب ہی مڈایسٹ ہسپتال ان کو پہنچایا تو بہت خون بہہ چکاتھا۔ حیرانی کی بات ہے کہ تب کا ایس ایچ او کلفٹن نوازش علی‘ جوموقع پہ تھا اورجس کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اس نے فائرکھولا‘ دو دن بعد قتل ہوجاتاہے ۔ سرکاری طورپہ مرتضیٰ کے قتل کامعمہ حل نہ ہوسکا لیکن مرتضیٰ کی بیٹی فاطمہ بھٹو اور زوجہ غنویٰ بھٹو کو کبھی شک نہیں رہا کہ اصل ماجرا کیاتھا۔ پھر ہمارے مہربان صدرِ مملکت کے عہدے تک بھی پہنچے۔ کیسی کہانی ہے۔