کیا پاکستان میں وبا پر قابو پانے کے لیے اجتماعی مدافعت کی تکنیک کارگر ثابت ہو سکتی ہے؟
’انسان ریوڑ نہیں ہے۔‘ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر مائیکل رائن کے ان الفاظ کی بازگشت گذشتہ ہفتے میڈیا میں سنائی دیتی رہی ہے۔
ان کا اشارہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے طریقہ علاج، یعنی ہرڈ ایمیونٹی، کی جانب تها۔
ہرڈ امیونٹی (اجتماعی مدافعت) سے مراد آبادی کے ایک بڑے حصے کو متعدی بیماری کی ویکسین یا اسی بیماری میں مبتلا کر کے ان کے جسم میں اس بیماری کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنا ہے تاکہ وبا کے پهیلاؤ کا سلسلہ روکا جا سکے۔
ڈاکٹر رائن نے غصے میں کہا تها ’انسان ریوڑ نہیں ہے، میرے خیال میں ہمیں اس وقت ایسے الفاظ کے استعمال میں بہت محتاط ہونا چاہیے جب ہم انسانوں میں قدرتی انفیکشنز کی بات کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ الفاظ (ہرڈ امیونٹی) ایک ایسی وحشیانہ مساوات کو جنم دے سکتے ہیں جس میں انسان، زندگی اور تکلیف مرکزِ نگاہ نہیں رہتے۔‘
پاکستان میں گذشتہ چند دنوں سے اجتماعی مدافعت کا ذکر سننے کو مل رہا ہے اور اس کا تعلق لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار خاتمے کے فیصلے سے بهی جوڑا جا رہا ہے۔
مارچ کے آغاز میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقد ہونے والے ایک اعلی سطحی اجلاس میں ملک کے حساس اداروں نے کورونا وائرس سے ہونے والے ممکنہ جانی اور معاشی نقصان سے متعلق ایک جامع رپورٹ پیش کی تهی۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یہی وہ پہلا موقع تها جب اجتماعی مدافعت کا ذکر سننے کو ملا اور یہ تذکرہ ہوا کہ ویکسین دریافت ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں ہرڈ امیونٹی کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں اس نکتے پر غور کیا گیا کہ ملک کے بیشتر شہری علاقے انتہائی گنجان آباد ہیں جہاں خود ساختہ آئسولیشن اور سماجی فاصلے کا تصور ناممکن ہے۔ چهوٹے چهوٹے گهروں میں بڑے خاندان رہائش پذیر ہیں اور وائرس کے پهیلاؤ کی صورت میں ہر شخص کو تنہا کر کے آئسولیٹ کرنا ممکن نہیں رہے گا۔
ذرائع کے مطابق یہ کہا گیا کہ اس لیے بات اجتماعی مدافعت کی تیکنیک کو اپنانے تک ہی جائے گی۔
مگر حکام نے اجتماعی مدافعت کا راستہ اختیار کرنے سے قبل دنیا بهر میں مروجہ دیگر طریقوں جیسا کہ وائرس سے متعلق آگاہی مہم، ہاتھ دهونا، ماسک پہننا اور سماجی دوری پر عملدرآمد یقینی بنانے پر زور دینے کا فیصلہ کیا۔
گذشتہ روز وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد حسین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے ذریعے آگاہ کیا کہ وزارتِ سائنس کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی نے یہ رائے دی ہے کہ اجتماعی مدافعت کا تصور انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے اور اس طرح کی کوئی حکمت عملی ہرگز نہیں اپنانی چاہیے۔
پیر کی شام نجی ٹیلیویژن چینل سما پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ اجتماعی مدافعت کا تصور اس لیے خطرناک ہے کیونکہ اس حوالے سے نہ تو کوئی جامع تحقیق اور نہ ہی ڈیٹا دستیاب ہے۔
تاہم اب ایسا تاثر مل رہا ہے کہ حکومت نے ملکی آبادی میں مجموعی سطح پر قوت مدافعت پیدا کرنے کا سوچ لیا ہے۔ طبی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکن اس ممکنہ اقدام کو ایک ’خطرناک کهیل‘ قرار دے رہے ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا سے جب سوال کیا گیا کہ کیا حکومت اجتماعی مدافعت کی حکمت عملی کی جانب بڑھ رہی ہے تو انھوں نے اس سے مکمل انکار کیا اور کہا کہ یہ حکومت کی پالیسی ہرگز نہیں ہے۔ ’ہم اس (اجتماعی مدافعت) کی تشہیر کر رہے ہیں نہ ہی اس پر بحث۔‘
مگر اس سے قبل نجی ٹی وی چینل ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے ظفر مرزا نے کہا تها کہ ’مستقبل کے لیے بہتر ہو گا کہ ایک خاص حد تک کورونا وائرس کا پهیلاؤ ہو تاکہ لوگوں میں اس کے خلاف مدافعت پیدا ہو سکے۔‘
اسی طرح ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو بات کرتے ہوئے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ اسد عمر نے بهی کچھ اسی قسم کا مگر مبہم اشارہ دیا تها۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ کوئی حکومتی پالیسی نہیں ہے مگر میرے خیال میں اس وبا کا عملی طور پر خاتمہ ویکسین کی صورت میں ہی ممکن ہے یا اس صورت میں کہ ستر فیصد آبادی میں اس کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا ہو جائے۔‘
حکومتی عہدیداروں کے انھی مبہم بیانات کے بعد معاشرے کے کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
یہ تمام بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ملک میں مرحلہ وار لاک ڈاؤن ختم ہو رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان لاک ڈاؤن کے خاتمے کی بڑی وجہ معیشت میں خسارہ اور غریب طبقے کا خطِ غربت سے نیچے چلے جانے کے خدشات کو قرار دے رہے ہیں۔
حزبِ اختلاف نے ان اشاروں کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ سینیٹ کے اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے اراکین نے اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا تها۔
ہرڈ امیونٹی (اجتماعی مدافعت) کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
کسی بھی معاشرے میں کسی وبا کے خلاف اجتماعی مدافعت حاصل کرنے کا عمل دو طرح ہو سکتا ہے۔
ایک تو یہ کہ کسی آبادی کا بڑا حصہ (عام طور پر ستر فیصد افراد) اس بیماری یا انفیکشن کا شکار ہو جائے۔ یہ حصہ عموماً صحت مند افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایسا کرنے سے یہ امکان رہتا ہے کہ باقی تیس فیصد غیر صحتمند یا کمزور مدافعتی نظام کے حامل افراد تک یہ وائرس نہیں پہنچ پائے گا بلکہ اس سے پہلے ہی وائرس کے پهیلاؤ کی چین ٹوٹ جائے گی۔ یہ ایک قدرتی عمل بهی ہے۔
اجتماعی مدافعت کا دوسرا اور آزمودہ عمل ویکسینیشن ہے۔ یعنی کسی بهی علاقے میں موجودہ زیادہ تر افراد کو ویکسین دی جائے تاکہ ان میں کسی مخصوص بیماری کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو جائے جیسا کہ دنیا میں پولیو، چیچک اور خسرے جیسی بیماریوں کے لیے کیا گیا۔
کیا پاکستان میں اجتماعی مدافعت سے کورونا پر قابو پانا ممکن ہے؟
بی بی سی نے اس عمل کی وضاحت کے لیے امریکہ میں یونیورسٹی آف میری لینڈ میں متعدی بیماریوں کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر فہیم یونس سے بات کی ہے۔
انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’فرض کریں کہ سو افراد کی آبادی میں پہلے شخص میں وائرس آنے کے بعد باقی 99 افراد اس کا اگلا نشانہ ہوں گے۔
مگر حساب یہ کہتا ہے ستر افراد کے متاثر ہونے کے بعد تیس افراد کو وہ وائرس منتقل ہونا مشکل ہو گا۔ اس کی وجہ خود وائرس کا اپنا لائف سائیکل ہے جبکہ پهیلاؤ کی چین اس وقت ٹوٹ جاتی ہے جب وائرس کو وہ تیس افراد ڈهونڈنے پڑیں جو ابهی تک متاثر نہیں ہوئے۔ جبکہ ان سو افراد میں سے کم از کم ایک شخص کی ہلاکت کا امکان بهی ہوتا ہے۔‘
انھوں نے کہا ’مگر یہ دنیا فقط سو افراد پر مشتمل نہیں ہے بلکہ سات اعشاریہ آٹھ ارب لوگ اس زمین پر بستے ہیں۔ اس میں پاکستان کی آبادی بهی 22 کروڑ سے زائد ہے۔ پاکستان کی آبادی کے ایک فیصد کا مطلب ہے 22 لاکھ افراد۔ کیا پاکستان 22 لاکھ افراد کی ہلاکت کا متحمل ہو سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا ’ہم یہ فرض کر لیتے ہیں اگر ویکسین آ جائے اور صرف سو ملین لوگوں کو ہی یہ انفیکشن ہو جائے، اس صورت میں بهی دس لاکھ افراد کی اموات ہو سکتی ہیں۔ یہ اس قدر خوفناک صورتحال ہے کہ اس کا تصور کرنا بهی مشکل ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ان میں سے دس فیصد لوگ اس قدر بیمار ہو جاتے ہیں کہ انھیں ہسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے تو کیا پاکستان کے ہسپتالوں میں اتنی استعداد موجود ہے، جہاں پہلے ہی کئی ہزار افراد کے علاج معالجے کے لیے صرف ایک ڈاکٹر دستیاب ہے؟‘
کیا ماضی میں اس طریقہ کار کے تحت متعدی بیماریوں کا خاتمہ ہوا ہے؟
جی ہاں، چند ایسی بیماریاں ہیں مگر ایسا ویکسین کی مدد سے کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر فہیم کہتے ہیں کہ پولیو کو ویکسین سے ختم کیا گیا۔ ’یہ تصور کریں کہ اگر پولیو کی ویکسین نہ ہوتی اور اس کو بغیر ویکسین کے ہرڈ امیونٹی کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی تو دنیا کی پچاس فیصد سے زائد آبادی میں بچے معذور پیدا ہوتے۔‘
اسی طرح چیچک کو ویکسین کے ذریعے ختم کیا گیا اور اس بیماری کی ویکسینیشن اس وقت روکی گئی جب یہ واضح ہو گیا کہ اب یہ وبا کرہ ارض پر موجود نہیں ہے۔
کن ممالک میں ہرڈ امیونٹی پر عملدرآمد شروع ہوا ہے؟
اس وقت دنیا میں صرف سویڈن ایسا ملک ہے جہاں اعلانیہ ہرڈ امیونٹی کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔
سویڈن میں لاک ڈاؤن نافذ نہیں کیا گیا ہے۔ ملک میں ضعیف اور بیماری کا شکار افراد کو قرنطینہ میں رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں جبکہ نوجوانوں اور بچوں کے لیے تعلیمی ادارے، ریسٹورنٹ اور دیگر پبلک مقامات اور کاروبار کهلے رکهے گئے ہیں۔
مگر اعداد و شمار ایک اور تصویر بهی پیش کرتے ہیں، جو خطرناک ہے۔
اس وقت سویڈن میں کورونا وائرس سے شرح اموات اس کے ہمسایہ ممالک سے زیادہ ہے جہاں لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ سویڈن میں اب تک ڈنمارک سے تین گنا جبکہ فن لینڈ سے سات گنا زیادہ افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
کیا وائرس کو اجتماعی مدافعت سے شکست دی جا سکتی ہے؟
اس سوال کا جواب ہے ’پتا نہیں‘ اور اس جواب پر دنیا بهر کے تقریباً تمام طبی ماہرین متفق ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کے پهیلاؤ کی شرح، اس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے خلاف قوت مدافعت اور اس کے دوبارہ رونما ہونے سے متعلق تحقیق بہت کم ہے۔
یہ علم بھی نہیں ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کے باعث بعض افراد میں یہ بیماری شدید نوعیت کی ہوتی ہے اور بعض میں ہلکی نوعیت کی۔
ابهی اس وائرس کو آئے چند ماہ ہوئے ہیں اور سائنسدان فی الحال اس سے جڑی تمام معلومات حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کووڈ 19 کا شکار ایک مریض کم از کم تین افراد کو یہ وائرس منتقل کر سکتا ہے تو اس حساب سے ملک کی دو تہائی آبادی کو یہ وائرس منتقل کرنے کی ضرورت ہے اور موجودہ شرح اموات یعنی صفر سے تین فیصد کے حساب سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بهی لاکهوں میں پہنچ سکتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ایک اور اہم بات یہ بهی ہے کہ اس سے قبل ہرڈ امیونٹی کے ذریعے جن انفیکشنز یا بیماریوں کا تدارک کیا گیا ان کی مدافعت زندگی بهر کے لیے ہوتی ہے۔ یعنی ایک بار آپ نے اس بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کر دی تو یہ بیماری آپ کو دوبارہ نہیں ہو گی۔
لیکن متعدد وائرس خاص طور پر انفلوئنزا وائرس کی مدافعت زندگی بهر کے لیے نہیں ہوتی بلکہ ان کی کئی اقسام کی انسانی جسم میں واپس آنے کی صلاحیت بسا اوقات موجود رہتی ہے۔
کیا غیر اعلانیہ اجتماعی مدافعت انسان کے حقِ زندگی کی خلاف ورزی ہے؟
ملک میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور سماجی کارکن اس طریقہ کار کو ’غیرانسانی‘ قراد دے رہے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فرزانہ باری نے ایسے کسی بهی اقدام کو ’ریاست کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی‘ قرار دیا۔
وہ کہتی ہیں ’آئین ریاست کی ذمہ داری کا تعین کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ملک میں رہنے والے ہر شخص کو جینے کا حق حاصل ہے۔ تو ایسی صورت میں ریاست خود کس قانون کے تحت اپنے شہریوں کو موت کے منہ میں دهکیل سکتی ہے۔ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اور ایسے کسی بهی اقدام کے خلاف ہم آواز اٹهائیں گے۔ حکومت کو ویکسین کی دریافت تک ایسے کسی بهی اقدام سے گریز کرنا ہو گا۔‘
اجتماعی مدافعت کا متبادل کیا ہے؟
کئی طبی ماہرین کے خیال میں ویکسین کی تیاری تک دیگر طریقوں سے اس بیماری کو کنٹرول کیا جائے۔
اس ضمن میں تین اقدامات کی تجویز دی جاتی ہے جو پہلے بهی ملک میں زیرِ بحث آئے اور محکمہ صحت نے ان کا اعلان بهی کیا ہے، یعنی ٹیسٹ، ٹریس اور آئسولیٹ۔
ڈاکٹر فہیم کے مطابق ’اصل جیت اس انفیکشن کو روکنا ہے۔ کیونکہ اگر انفیکشن ہو گیا تو پهر فی الحال اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔‘
ان کے مطابق کورونا وائرس سے متاثرە ایک شخص کے سامنے آنے کی صورت میں کم از کم بیس لوگوں کو ٹیسٹ کیا جائے۔
’یہ ایک نہایت مشکل کام ہے، یہاں تک کہ امریکہ جیسے ملک میں بهی یہ کام مشکل ہے مگر پاکستان میں شاید یہ کام آسان ہے کیونکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بیروزگار ہے جنھیں چند دنوں میں تربیت دی جا سکتی ہے اور اسی طرح پاکستان میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے افراد بہت زیادہ ہیں جنھیں حکومت استعمال کر سکتی ہے۔‘
دوسری جانب ڈاکٹر فرزانہ باری بهی یہی کہتی ہیں کہ حکومت اجتماعی مدافعت کی بجائے دنیا بهر میں نافذ دیگر طریقوں سے اس بیماری کے پهیلاؤ کو روکنے کی کوشش کرے۔
’یہ مشکل کام ہے مگر ناممکن نہیں اور یہ مفید بهی ہے، اس سے زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں، کم از کم اس وقت تک جب تک کہ اس بیماری کی ویکسین تیار نہیں ہو جاتی۔ حکومت ریڈ زونز کی نشاندہی کرے اور انھیں لاک ڈاؤن کرے جبکہ باقی حصوں میں کاروبارِ زندگی معمول کے مطابق جاری رہے تاکہ معیشت کا پہیہ نہ رکے۔‘
مگر یہ تمام مشورے بهی اسلام آباد میں ہونے والے اسی اعلی سطح کے اجلاس کی جانب لے جاتے ہیں جہاں اس نکتے پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ملک میں رہن سہن اور روز مرہ معمولات زندگی میں لوگ آپس میں اس قدر بندهے ہیں کہ سماجی فاصلے کا تصور ممکن نظر نہیں آتا۔