کالم

جان ہے تو عید ہے

Share

یہ کیسی عید ہے جس میں نہ خوشی ہے نہ گلے ملنا ہے۔ کمبخت کرونا نے ہم سب کی عید کی خوشیوں کو نیست و نابود کر دیا۔ میری زندگی کی یہ پہلا عید ہے جس میں میں مسجد جا کر عید کی نماز ادا نہ کر سکوں گا۔ میں ہی کیا پوری دنیا کے کروڑوں مسلمان اپنی عید کی خوشیوں سے اس بار محروم ہیں۔ برطانیہ کے مسلمان بھی اس بار کورونا کی مار سے محفوظ نہیں ہیں۔تیس ہزار سے زیادہ لوگ برطانیہ میں اب تک کورونا سے مارے جاچکے ہیں جس میں کئی مسلمان بھی ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ان کے خاندان کے لوگ اپنے عزیز وقارب اور دوست کے کھو جانے سے بہت افسردہ ہیں اور وہ عید بھی کیسے منائیں گے۔ یوں بھی برطانیہ کی تمام عبادت گاہ اب تک بند پڑے ہیں اور ایسا قیاس لگایا جارہا ہے کہ یہ پابندی دسمبر تک جاری رہے گی۔
سب سے پہلے میں تمام لوگوں کو عید کی ڈھیروں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ الحمداللہ ہر سال کی طرح ایک بار پھر ہمیں عید کا تہوار نصیب ہوا۔جہاں بچوں میں عید کی تہوار کی آمد کا بے صبری سے انتظارہوتا ہے وہی بڑے بوڑھے بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ عید کے تہوار منانے میں خوب لطف اٹھاتے ہیں۔ عید کا تہوار پوری دنیا میں رمضان کے خاتمہ کے بعد منانے کا ایک بہترین یکجہتی کا نمونہ ہے۔تاہم مختلف ممالک کے لوگ اپنے اپنے طور پر عید مناتے ہیں اور ان کے پکوان سے لے کر لباس بھی مختلف ہوتا ہے۔ لیکن سبھوں میں ایک بات عام ہوتی ہے وہ ہے عید کی خاص خوشی، جس میں گلے ملنے کے ساتھ ساتھ اپنے اور غیروں میں تحفوں کا تبادلہ کرنا شا مل ہے تاہم کورونا کی وبا سے اس سال یہ تمام باتیں ناممکن ہے۔
آئیے اب آپ کو عید کے تہوار منانے اور اس کی کچھ خاص بات آپ سے شئیر کرتا ہوں۔ عموماً دنیا بھر میں ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں عید سعید کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ لندن میں عید کلکتہ اور دیگر شہروں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی ہے۔ یہاں عید سے پہلے بچے اور عورتیں شاپنگ میں لگ جاتے ہیں۔ ایشیائی لوگوں کی زیادہ تر شاپنگ، ویمبلی، ساوتھ ہال، ٹوٹنگ اور گرین اسٹریٹ میں ہوتی ہے۔ یہ علاقے ایشیائی لوگوں کی آبادی والا علاقے ہیں۔ یہاں زیادہ تر دکانیں کھانے پینے اور کپڑوں کی ہیں۔ اس کے علاوہ حلال گوشت کی دکانیں بھی کافی ہیں۔اس کے علاوہ لندن کا معروف اور سب سے قدیم امبالا سوئیٹ پچاس برسوں سے پورے برطانیہ میں اپنی مٹھائیوں کے لئے کافی مقبول ہے۔
لندن میں اب چاند رات کی اہمیت بھی بڑھنے لگی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے نوجوان شہر میں گھومتے رہتے ہیں اور لڑکیاں منہدی لگواتی ہیں یا بیوٹی پارلر جاتی ہیں۔ بہت سارے نوجوان ڈھول بجاتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں زیادہ تر پاکستانی باشندے ہوتے ہیں۔دراصل اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے لندن اور برطانیہ کا موسم خوشگوار اور گرم ہوتا ہے جس سے یہ نوجوان ہندوستان، پاکستان اور دیگر ممالک کی طرح سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ کی دوسری نسل کے نوجوان جن کی پیدائش برطانیہ میں ہوئی ہے وہ اس طرح سے اپنی خوشی کا اظہار اور جشن منانے کو اپنا حق مانتے ہیں۔ تاہم دیگر ممالک کے لوگوں میں اس طرح کی بات نہیں پائی جاتی ممکن ہے وہ اپنی تقریبات کا اہتمام کسی ہال وغیرہ میں کرتے ہوں۔
ہندوستان اور پاکستان کی طرح عید کا چاند دیکھنے کا مسئلہ لندن میں کئی سالوں سے زیرِ بحث بنا ہو ا ہے۔ ایک طبقہ سعودی عرب کے اعلان پر عید کی نماز پڑھتا ہے تو دوسرا طبقہ رویتِ حلال کمیٹی کے اعلان پر نماز پڑھتا ہے۔ فی الحال اس مسئلہ کا کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر موڈرن کی مسجد سعودی عرب کے اعلان پر نماز کا اہتمام کرتی ہے تو دوسرے دن ٹوٹنگ کی مسجد میں نماز کا اہتمام ہو تا ہے کیونکہ ٹوٹنگ والے رویتِ حلال کمیٹی کی بات کو مانتے ہیں۔ ہر مسجد میں زیادہ تر جماعتیں دو یا تین ہوتی ہیں۔ کام پر جانے والے لوگ پہلی جماعت سے نماز پڑھ کر کام پر چلے جاتے ہیں۔ بچے جنہیں اسکول جانا ہوتا ہے وہ بھی پہلی جماعت سے نماز پڑھ کر اسکول چلے جاتے ہیں۔ اگر عید ہفتہ یا اتوار کو پڑتی ہے تو یوں احساس ہوتا ہے کہ عید کلکتہ شہر جیسا ہو رہا ہے۔کیونکہ یہ چھٹی کا د ن ہوتا ہے اور کافی چہل پہل بھی رہتی ہے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ پچھلے کچھ سالوں سے عید کی نماز پارک میں بھی ہونے لگی ہے۔ چونکہ مئی سے ستمبر تک لندن کا موسم خوشگوار ہوتا ہے۔
َؒدیگر ممالک کی طرح لندن میں بھی نماز کے بعد لوگ قبرستان جاتے ہیں جہاں وہ اپنے عزیزواقارب کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ مسلمانوں کے قبرستان عیسائیوں کے قبرستان سے منسلک ہوتے ہیں اور ان قبرستانوں کی دیکھ بھال مقامی کو نسل کرتی ہے۔ اس کے بعد لوگ اپنے رشتہ دار اور دوستوں سے ملنے جلنے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ کئی لوگ اپنے گھروں میں پارٹیوں کا بھی اہتمام کرتے ہیں اور ڈھیر سارے کھانے پینے کی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ کھانے میں سوئیاں، بریانی، تندور مرغ،پراٹھے، چاپ، مٹھائی اور پھل وغیرہ ہوتے ہیں۔
ؑعید گزرنے کے کچھ ہفتے تک مختلف تنظیمیں اپنے اپنے علاقے میں سنگیت اور ڈنر کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر حیدرآباد، کیرالا، سری لنکا، پاکستان، ترکی،ماریشس وغیرہ کے باشندے اپنی اپنی کمیونیٹی کے لئے اسی طرح کی تقریبات کا انتظام کرتے ہیں۔ حکو مت برطانیہ کی طرف سے وزیر اعظم بورِس جونسن، لندن کے مئیر صادق خان اور دیگر سیاستداں مسلمانوں کو عید الفطر کی مبا رک باد پیش کیا ہے اوراس مبارک موقعہ پر برطانیہ کو دنیا کی یکجہتی، برداشت اور تمام مذاہب کا ملک ہونے کی مثال دی ہے۔
میں لندن کے معروف (Royal Hospital for Neuro-disability)رائل ہاسپٹل فار نیورو ڈس ایبیلیٹی میں 2015 سے کام کر رہاہوں اور میری کوشش سے اب تک ہر سال ہسپتال میں عید پارٹی کا اہتمام ہورہا ہے جس میں مریض، ان کے رشتہ دار اور اسٹاف شریک ہوتے ہیں۔ اس پارٹی سے مریضوں اور رشتہ داروں کو کچھ پل کے لئے عید کی خوشیوں کا احساس ہو جاتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے اس سال کورونا وائرس کے منحوس سائے سے ہسپتال کے مریض اور ان کے رشتہ دار عید کی پارٹی سے محروم رہیں گے۔
ہمیں عید کے موقعے پر فلسطین، یمن اور دیگر ممالک کے لوگوں کو نہیں بھولنا چاہیے جو اپنے ملک کے ابتر حالات سے دوچار ہیں۔ ہمیں اللہ سے دعا مانگنی چاہئے کہ دنیا میں امن قائم ہو اور اللہ ہمیں ظالموں سے محفوظ رکھے اور مظلوموں کی حفاظت ہو۔ ہمیں ان غریبوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جو غربت کی وجہ سے عید کا تہوار ہماری اور آپ کی طرح نہیں منا پارہے ہیں۔
عید کا تہوار نہ منا کر میرے ساتھ دنیا کے کروڑوں مسلمان کافی افسردہ ہیں۔ کورونا وائرس کے خوف نے جس طرح ہمیں گھروں میں قید کر کے رکھ دیا ہے اس سے ہم اور آپ دماغی الجھنوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔اب ایسے میں کوئی کیا عید منائے۔لیکن ان شاء اللہ زندگی سلامت رہی تو ہم عید کا تہوار ایک بار پھر دھوم دھام سے منائے گے اور اپنوں اور غیروں کو گلے بھی لگائے گے۔ کہتے ہیں جان ہے تو جہان ہے لیکن میں کہوں گا جان ہے تو عید ہے۔ آخر میں، میں اپنی جانب سے تمام لوگوں کو دل کی گہرائی سے عید کی ڈھیر ساری مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اللہ سے دعا گو ہوں کہ آپ جہاں بھی ہوں خوش رہے اوراپنا خیال رکھے۔