مسجد نبوی ﷺ کی رونق نرالی ہے۔ نماز کے اوقات میں عجیب سماں بندھتا ہے۔ موذن کی پکار سنتے ہی خرید و فروخت معطل ہوجاتی ہے۔ خواتین، مرد، بوڑھے، بچے، جوان، تیز تیز قدم اٹھاتے مسجد میں داخل ہوتے ہیں۔ صفیں بندھتی ہیں۔ باجماعت نمازادا ہوتی ہے۔ جسے جہاں جگہ ملتی ہے، وہیں سما جاتا ہے۔ کہیں صحن میں بچھے قالین پر، کہیں ننگے فرش پر سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ تاخیر ہو جائے تو مسجد کا دروازہ عبور کرتے ہی، جو جہاں ہو وہیں نیت باندھ کر جماعت کا حصہ بن جاتا ہے۔ ادائیگی نماز کے بعد خلق خدا کا ہجوم منتشر ہو جاتا ہے۔ ہر نماز کے وقت یہی کیفیت ہوتی ہے۔ صبح فجر کے وقت اللہ کے بندے زائرین اور نمازیوں کیلئے پانی یا جوس کی بو تلیں، بن اور دیگر اشیائے خورد ونوش مسجد کے دروازوں کے سامنے رکھ جاتے ہیں۔ مسجد سے لوٹتے نمازی نہایت سہولت سے انہیں اٹھاتے اور اپنی راہ لیتے ہیں۔
جتنے دن میں مدینہ منورہ میں رہی، اس معمول کا حصہ بننا مجھے بہت اچھا لگا۔ خاص طور پر تہجد اور نماز فجر کی ادائیگی کیلئے منہ اندھیرے مسجد جانا نہایت خوشگوار عمل محسوس ہوتا۔ مسجد میں بیٹھے اکثر خیال آتاکہ مسجد نبوی کا آسمان دیکھنا، اس فضا میں سانس لینا، اس مقام مقدس پر سجدہ کرنا، ان اونچے میناروں کو دیکھتے ہوئے موذن کی آواز سننا، ان چھتریوں کی چھاوں تلے بیٹھنا، مسجد کے تہہ خانوں میں میسر پانی سے وضو کرنا، رب نے میرے نصیب میں لکھ رکھا تھا۔میں دعا کرتی کہ اللہ میرا نام ان خوش بختوں کی فہرست میں بھی شامل کر دے، جنہیں بار بار یہاں آنا نصیب ہوتا ہے۔
عہد نبوی ﷺ میں یہ مسجد مختصر رقبہ کی حامل تھی۔ مختلف زمانوں میں ہونے والی توسیعات کے باعث اسکا رقبہ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ 1995 میں ہونے والی توسیع میں دور نبوی کا سارا شہر مدینہ، مسجد نبوی میں شامل کر لیا گیا۔ مسجد کی تزئین و آرائش دیدنی ہے۔ صفائی ستھرائی اور دیگر انتظامات بھی انتہائی متاثر کن ہیں۔ خدام ہر آن متحرک نظر آتے ہیں۔ مسجد کے احاطے میں ہزاروں، یا شاید لاکھوں نمازی چلتے پھرتے ہیں۔ مجا ل ہے جو صحن میں دھول مٹی دکھائی دے جائے۔ وضوخانے، طہارت خانے بھی صاف شفاف۔یہاں مکہ معظمہ سے آب زم زم کی ترسیل ہوتی ہے۔پانی کے سینکڑوں کولر قطار میں رکھے رہتے ہیں۔ نمازی زم زم پیتے اور بوتلوں میں بھر کر ساتھ لے جاتے ہیں۔ جتنے دن ہم مدینہ شریف میں رہے، ایک آدھ بار کے علاوہ پانی کی بوتل خریدنے کی نوبت نہیں آئی۔ مسجد سے واپس لوٹتے وقت ہم زم زم بوتلوں میں بھر لاتے۔ہوٹل کے کمرے میں اپنی چائے بھی آب زم زم میں بنا تے اور نوش کرتے۔
مسجد نبوی میں چلتے پھرتے عہد نبوی سے متعلق برسوں قبل پڑھی باتیں ذہن میں گردش کرنے لگتیں۔ خیال آتا کہ حضور اقدسﷺ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی اور یہاں تشریف لائے تو بنو نجار کے محلہ میں واقع اس جگہ کو مسجد کی تعمیر کیلئے پسند فرمایا تھا۔ یہ زمین دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی ملکیت تھی۔ ان بھائیوں نے بغیر معاوضہ یہ زمین مسجد کی تعمیر کیلئے پیش کر دی۔ نبی اقدس ﷺ نے یہ درخواست قبول نہیں فرمائی۔ آپ ﷺکے حکم پر حضرت ابوبکر صدیق نے زمین کی قیمت ادا کی۔مجھے خیال آتا کہ کس قدر مبارک مسجد ہے جسکی بنیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے رکھی۔ صحابہ کرام اجمعین کیساتھ مل کر بذات خود ا سکی تعمیر میں حصہ لیا۔ حدیث مبارکہ ہے کہ اس مسجد میں ایک نماز ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے۔
مسجد نبوی کے گرد و پیش واقع گلیوں، بازاروں میں گھومتے پھرتے بھی مختلف خیالات مجھے گھیرے رکھتے۔ یہ احساس دامن گیر رہتا کہ یہ میرے نبی ﷺ کا شہر ہے۔ میرے نبی ﷺ کا محلہ ہے۔ خیال آتا کہ کسی زمانے میں یہاں کچے مکانات قائم تھے۔ صحابہ کرام اور صحابیات جہاں رہائش پذیر تھے۔ انہی جگہوں پر چلتے پھرتے تھے۔ تجارت کرتے اور جنگیں لڑا کرتے تھے۔ پختہ سڑکیں اور جدید گاڑیاں دیکھ کر خیال آتا کہ کسی زمانے میں یہاں چٹیل میدان ہونگے۔گھوڑوں اور اونٹوں کی سواری چلتی ہو گی۔
آج یہ سارا شہر جدید طرز زندگی کی تصویر پیش کرتا ہے۔ مسجد نبوی کے دروازوں کے بالکل قریب جدید طرز تعمیر کی شاہکار عمارتیں، دکانیں، ریستوران اور ہوٹل قائم ہیں۔ زیورات اور جواہرات کی درجنوں دکانیں موجود ہیں۔یہ عرب بیوپاری اردو سے واقفیت رکھتے ہیں۔بھاو تاو کی حد تک اردو سمجھتے اور بولتے بھی ہیں۔ سونے کے زیورات سے مجھے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ کسی وقتی ترغیب کے تحت کبھی کوئی شے خرید لوں، تو ایک آدھ بار کے علاوہ استعمال کی نوبت نہیں آتی۔لیکن مسجد نبوی کے عین سامنے واقع کسی دکان سے کچھ خریدنا میرے لئے ایسا ہے جیسے میں نے نبیﷺ کے محلے کی کسی دکان سے خریداری کی ہو۔ یہ حدیث بھی میرے پیش نظر تھی کہ حضور ﷺ نے اس شہر کے پیمانوں میں برکت کی دعا کر رکھی ہے۔ اس خیال کے زیر اثر میں نے بھی کچھ خریداری کر لی۔
کم و بیش دس دن ہم لوگ مسجد نبوی کے پہلو میں قیام پذیر رہے۔ میری خوش بختی کہ مجھے بارہا روضہ اقدس ﷺ پر حاضری کا شرف نصیب ہوا۔ کبھی اکیلے،کبھی امی اور باجی کی ہمراہی میں۔کچھ برسوں سے عادت میری یہ ہے کہ جب بھی خبر ملتی ہے کہ فلاں دوست، احباب، شاگرد حج یا عمرہ کیلئے گیا ہے۔ میں بطور خاص اس سے رابطہ کرتی ہوں۔ درخواست کرتی ہوں کہ روضہ مبارک پر میرا سلام عرض کر دیجیے گا۔ اس سفر سے چند دن پہلے میرا شاگرد یاسر عمرہ سے واپسی پر مجھے ملنے آیا اور اطلاع دی کہ اس نے میرا سلام عرض کر دیا تھا۔ اسکے چند روز بعد میں بیٹھے بٹھائے سرزمین حجاز آ پہنچی۔ روضہ مبارک پر میرے ساتھ ایک عجیب معاملہ ہوا۔ خو د بخود کچھ لوگ مجھے یاد آنے لگے۔ میں نام لے کر روضہ اقدس پر انکا سلام عرض کرتی رہی۔ بیشک اللہ بندے اور اسکے دل کے مابین حائل ہو جاتا ہے۔
ایک مرتبہ زیارت کیلئے گئے تو انتظار کئی گھنٹوں پر محیط ہو گیا۔ گرد وپیش کا بغور جائزہ لیا تو انڈونیشا، مصر، ترکی، اردن، ازبکستان اور نجانے دنیا کے کس کس کونے سے آئی خواتین دکھائی دیں۔ یہ سب اپنی مقامی زبان میں محو گفتگو تھیں۔ باجی کہنے لگیں کہ ہم انسان چند زبانوں کے علاوہ ایک دوسرے کی بولی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اللہ کی قدرت اور شان دیکھو۔ اس کا کما ل ہے کہ ہر زبان بولنے والے کی بولی سمجھتا ہے۔ دعا سنتا اور قبول کرتا ہے۔انتظار گاہ میں میری ملاقات ایک فلسطینی لڑکی سے ہوئی۔ وہ انگریزی کی استاد تھی۔ ہم دونوں کافی دیر ساتھ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ میں اس سے فلسطین کے سیاسی اور سماجی حالات سے متعلق معلومات لیتی رہی۔ میں نے بتایا کہ پاکستانی شہری، کشمیریوں اور فلسطینیوں سے نہایت محبت رکھتے ہیں۔ وہ تنازعہ کشمیر سے نا واقف تھی۔ میں نے اسے کشمیر میں ہونے والے مظالم کا مختصر احوال سنایا۔ ہم نے امت مسلمہ کے لئے خصوصی دعا کی۔ رخصتی سے قبل آپس میں ای۔ میل ایڈریس کا تبادلہ کیا اور رابطہ رکھنے کا عہد بھی۔
مسجد نبوی میں درس و تدریس کے دلفریب مناظر میری توجہ کا مرکز بنے رہتے۔ جگہ جگہ کم عمر بچیوں اور نوجوان خواتین پر مشتمل ٹولیاں بیٹھی نظر آتیں۔ ایک استانی سامنے بیٹھی فریضہ تدریس سرانجام دیتی۔ جی چاہتا کہ میں ان بچیوں اور خواتین سے بات کر وں۔ لیکن عربی زبان سے ناواقفیت آڑے آ جاتی۔ یہ مناظر دیکھتے ہوئے یہ خیال بھی آتا کہ اس مسجد نبوی کے مردانہ حصے کے کسی گوشہ میں ایک ایسا مرد مومن بھی حدیث کا درس دیتا ہے جس نے کئی عشرے قبل ہندوستان کے ایک کٹر ہندو گھرانے میں جنم لیا تھا۔رحمت خداوندی جوش میں آئی۔ گھر والوں سے چھپ کر وہ ہندو لڑکا مشرف بہ اسلا م ہوا۔ مدینہ یونیورسٹی میں پروفیسر اور ڈین کے عہدے تک پہنچا۔ تن تنہااشاعت دین کا نہایت عمدہ کام کیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک مختصر زندگی میں اسقدر بھاری بھرکم تحقیقی کام کیسے ممکن ہو سکا۔ برسوں سے خواہش تھی کہ کاش میں چند لمحوں کیلئے اس عالم دین پروفیسر ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی سے مل سکوں۔ مجھے ہرگز معلوم نہیں تھا کہ پروردگار نے انکے ساتھ ایک طویل ملاقات میرے نصیب میں لکھ رکھی ہے۔ (جاری ہے)۔