Site icon DUNYA PAKISTAN

پاکستان میں عید کے چاند تنازعہ: پشاور کی مسجد قاسم علی خان کا چاند دیکھنے کی روایت سے تعلق کتنا پرانا ہے؟

Share

ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی حکومتی رویتِ ہلال کمیٹی کے برعکس پشاور کی مسجد قاسم علی خان میں ایک غیر سرکاری کمیٹی نے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی سربراہی میں عید کا چاند دیکھنے کے حوالے سے اجلاس شروع کیا تاہم سعودی عرب میں عید کا چاند نظر نہ آنے کے اعلان کے ساتھ ہی یہ اجلاس بھی ختم ہو گیا۔

پاکستان کے بقیہ علاقوں میں عید کب ہو گی اس حوالے سے حتمی فیصلہ آج شام کر دیا جائے گا لیکن خیبر پختونخوا کے باسی ایک عرصے سے ملک کے باقی حصوں کے برعکس مختلف دن پر عید مناتے آئے ہیں۔

پشاور میں قائم قدیم مسجد قاسم علی خان کا ایک خصوصی تعلق چاند دیکھنے کی روایت سے کئی عشروں سے جڑا ہوا ہے اور یہ روایت اس تاریخی مسجد کی منفرد خصوصیت شمار ہوتی ہے۔

سال میں خاص طور پر دو یا تین مرتبہ جب رمضان کا چاند یا عید کا چاند دیکھا جاتا ہے تو اس وقت ملک میں دو عیدیں یا دو مختلف تاریخوں پر روزہ رکھنے کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔

پاکستان میں شاید مسجد قاسم علی خان ہی وہ واحد مسجد ہے جہاں مسجد کی انتظامیہ چاند کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے اور اسے صوبے میں تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔

خیبرپختونخوا میں بیشتر اضلاع میں ماہ رمضان کا چاند دیکھنے سے ماہ شوال کے چاند کے بارے میں فیصلے کے لیے نظریں مسجد قاسم علی خان کی جانب ہوتی ہیں۔ اس مسجد سے چاند کے بارے میں جو فیصلہ ہوتا ہے صوبے کے بیشتر اضلاع میں اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ تو اس روایت کا آغاز کب ہوا؟

تاریخی طور پر بھی مسجد قاسم علی خان سے ہی ماضی میں ماہ رمضان کے آغاز اورعیدین کے چاند دیکھنے کے اعلانات کیے جاتے تھے

مسجد قاسم علی خان کی تاریخ کیا ہے؟

یہ مسجد پشاور کے مرکز میں قصہ خوانی بازار سے مسگراں بازار میں قائم ہے۔ خیبرپختونخوا کے محکمہ اوقاف کے دستاویزات کے مطابق مسسجد قاسم علی خان پشاور میں سنہ 1842 میں تعمیر کی گئی تھی اوراس وقت افغانستان میں احمد شاہ ابدالی اور دلی میں مغل بادشاہ اورنگزیب کی حکومت قائم تھی۔ پشاور میں اس وقت سکھوں کی حکومت تھی۔ اس کے بعد 1941 میں اس کی مکمل تزئین و آرائش کی گئی تھی۔

اس مسجد کے نام کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آئی ہیں جن میں ایک روایت یہ ہے کہ یہ اور اس کے قریب تین اور مساجد مغل گورنر مہابت خان نے تعمیر کرائی تھیں اور مساجد مہابت خان اور ان کے بھائیوں قاسم علی خان، دلاور خان اور گنج علی خان کے نام سے منسوب کی گئی تھیں۔

تاہم دوسری جانب آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ابراھیم کے تحقیق کے مطابق قاسم علی خان مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں ایک افسر تھے جن کے نام سے یہ مسجد منسوب کی گئی تھی۔

ان کی تحقیق کے مطابق دیگر دو مساجد دلاور علی خان اور گنج علی خان بھی دو سرکاری افسروں کے نام پر رکھی گئی تھیں۔

یہ مسجد پشاور کے مرکز میں قصہ خوانی بازار سے مسگراں بازار میں قائم ہے

پوپلزئی خاندان اور مسجد قاسم علی خان

پشاور میں پوپلزئی خاندان کو بااثر اور اہم خاندان سمجھا جاتا ہے۔ اس خاندان کے اہم رکن عبدالرحیم پوپلزئی سکھوں کے دور میں پشاور کے قاضی تھے۔

اس خاندان کی اہم شخصیت عبدالحکیم پوپلزئی نے خلافت موومنٹ میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیا جس کے بعد انھیں اس تحریک کا یہاں سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور ساتھ ہی وہ مسجد قاسم علی خان کے خطیب بھی مقرر ہوئے تھے۔

عبدالحکیم پوپلزئی کے بیٹے عبدالرحیم پوپلزئی دوئم نے بھی خلافت موومنٹ میں بھرپور کردار ادا کیا۔ انھوں نے پشاور کے قصہ خوانی بازار کے احتجاج میں اہم کردار ادا کیا تھا اور انھیں نو سال قید کی سزا ہوئی تھی۔

مسجد قاسم علی خان کے موجودہ خطیب مفتی شہاب الدین پوپلزئی عبدالرحیم پوپلزئی دوئم کے پوتے ہیں۔

مسجد قاسم علی خان اور چاند دیکھنے کی روایت

خیبر پختونخوا میں چاند دیکھنے کی روایت عام ہے اور اکثر دیہاتوں میں لوگ شوقیہ ہر ماہ چاند دیکھنا ضروری سمجھتے ہیں اور انھیں اس میں کافی مہارت بھی حاصل ہو چکی ہے۔

تاریخی طور پر بھی مسجد قاسم علی خان سے ہی ماضی میں ماہ رمضان کے آغاز اورعیدین کے چاند دیکھنے کے اعلانات کیے جاتے تھے اور اس پر مقامی سطح پر کوئی بڑے تنازعے نہیں دیکھے گئے تھے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ پروفیسر قبلہ ایاز نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان بننے سے پہلے مقامی سطح پر روایت کے تحت چاند دیکھنے کے اعلانات مسجد قاسم علی خان سے ہوتے تھے اور کوئی مرکزی کمیٹی نہیں تھی اس لیے کوئی مرکزی فیصلہ بھی نہیں ہوتا تھا اور یہ روایت پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہی۔

مسجد قاسم علی خان کے موجودہ خطیب مفتی شہاب الدین پوپلزئی عبدالرحیم پوپلزئی دوئم کے پوتے ہیں

انھوں نے کہا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان جب صدر بنے تو انھوں نے لگ بھگ سنہ 1960 میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی قائم کی تھی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ پورے ملک میں ایک ہی دن روزہ رکھا جائے اور ایک ہی دن عید ہو۔

انھوں نے کہا کہ اس کے بعد مرکزی سطح پر ملک کے دیگر علاقوں میں ایک ہی دن رمضان شروع ہوتا اور عید کی جاتی تھی جبکہ مسجد قاسم علی خان میں اپنے طور پر فیصلہ کیے جاتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ اس بارے میں مسجد کی انتظامیہ سے بات چیت کی گئی لیکن مسجد کی انتظامیہ کا موقف یہی رہا ہے کہ چونکہ اس مسجد سے یہ روایت تاریخی طور پر جڑی ہوئی ہے اس لیے وہ اس روایت کو ترک نہیں کر سکتے۔

اس بارے میں مسجد قاسم علی خان کے خطیب مفتی شہاب الدین پوپلزئی سے رابطے اور ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن انھوں نے ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔

Exit mobile version