چند سال پہلے میں نے ایک فوٹوگرافر کی حیثیت سے ڈنمارک میں پرانی گاڑیوں کی ایک ریلی میں حصہ لیا جس کے اختتام پر میں ایک کیمپنگ سائٹ جا پہنچا۔
کھانے کے بعد رقص شروع ہوا اور پھر شراب نوشی۔ کچھ گھنٹوں بعد خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ اس گرمی کی رات میں کھلے آسمان تلے سویا جائے۔ یہ وہ موقع تھا جب مجھے تین اہم باتیں سمجھ میں آئیں۔
- ڈنمارک کی گرمیوں میں کاٹ کھانے والے مچھر بڑی تعداد میں ہوتے ہیں
- یہ مچھر اچھی خاصی موٹی تہہ کے اوپر سے بھی کاٹ سکتے ہیں
- شراب پینا مچھروں کو زوردار آواز میں کھانے کے لیے دعوت دینے کے مترادف ہے
میری کمر ببل ریپ کی طرح لگ رہی تھی۔ میرا یہ ہرگز ارادہ نہیں تھا کہ اس سفر کی یادگار یہ صورتحال بنے۔ امیریکن موسکیٹو کنٹرول ایسوسی ایشن نے سنہ 2002 میں دریافت کیا کہ شراب پینے کے نتیجے میں مچھروں کے کاٹنے کا امکان ڈرمائی انداز سے بڑھ جاتا ہے۔
اس تحقیق جس میں صرف 13 افراد شامل تھے، سے یہ بات سامنے آئی کہ بیئر کی ایک بوتل پینے کے بعد ایسے افراد کا مچھر کا نشانہ بننے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ مچھر شراب نوشی کرنے والے افراد کو کیوں نشانہ بناتے ہیں مگر اس بات کا ضرور علم ہے کہ مچھر انسانوں کی سانسوں سے خارج ہونے والے دو کیمیکلز کی وجہ سے ان کی طرف آتے ہیں وہ کاربن ڈائی اکسائیڈ اور آکٹانال ہیں۔
آکٹانال لینولک ایسڈ کے ٹوٹنے کے نتیجے میں بنتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شراب کے نشے میں دھت افراد کو کاٹنے کے بعد کیا مچھروں کو بھی نشہ ہوجاتا ہے؟
امریکہ کی یونیورسٹی آف پینسلوینیا سے منسلک ماہرِ حشرات تانیہ ڈاپکی کا کہنا ہے کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ خون میں الکحول کی شرح کم ہوتی ہے۔’
پاپولر سائنس میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں نارتھ کیرولائینا سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرِ حشرات کوبی شال نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ایک انسان جس نے شراب کی 10 بوتلیں پی ہوں اُس کے خون میں الکحول کی شرح 0.2 فیصد ہوتی ہے۔ مچھر جب اسے پیئے گا تو اس کے لیے یہ ایسا ہی ہے کہ وہ شراب کا ایک بٹا 25 حصہ پانی میں ملا کر پیئے۔
اس کے علاوہ ممکن ہے کہ ارتقائی عمل نے مچھر کی مدد بھی کی ہو۔ مچھر خون کے علاوہ سب کچھ علیحدہ سے ہضم کرتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ مچھر کے اعصابی نظام تک پہنچنے سے پہلے ہی الکحول کا اثر زائل ہوجاتا ہو۔
لندن نیچرل ہسٹری میوزیم سے منسلک ایریکا میک ایلسٹر جنہوں نے سیکرٹ لائف آف انسیکٹس نامی کتاب بھی لکھی ہے کہتی ہیں کہ پھل مکھیوں کو سڑتے ہوئے پھل سے آنے والے الکوحل کی بو کی پہچان ہوتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ مچھر کو شراب کا نشہ چڑھتا ہے کہ نہیں مگر پھل مکھیوں میں الکوحل کو برداشت کرنے کی استعداد ہوتی ہے۔
کم مقدار انھیں مست سا کر دیتی ہے اور وہ دوسری مکھیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دیتی ہیں۔
یہی نہیں، بلکہ وہ اس حالت میں اپنے ساتھی کے انتخاب کے معیار بھی گرا دیتی ہیں۔ مقدار زیادہ ہو تو وہ بے ہوش ہو جاتی ہیں۔ جہاں تک مچھروں کے انسانوں کو کاٹنے کا سوال ہے انسانی جینیات کا اس میں اہم عمل دخل ہے۔
خیال ہے کہ آبادی کا 20 فیصد حصہ اپنی جسمانی صفات کی وجہ سے مچھروں کے نشانے پر ہوتا ہے۔ او ٹائپ خون رکھنے والوں کو مچھر کے کاٹنے کا امکان اے ٹائپ کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ زیادہ درجہ حرارت والے جسم، حاملہ خواتین کیونکہ ان کے جسم کی حرارت عموماً زیادہ ہوتی ہے اور وہ جو گہرے گہرے سانس لیتے ہیں مچھروں کا زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔
مگر سنہ 2002 میں ہونے والی تحقیق کے مطابق شراب نوشی کرنے والے افراد کے پسینے سے خارج ہونے والے ایتھانول کی بو مچھروں کو ان کی طرف راغب کرتی ہے۔
سنہ 2010 میں اسی نوعیت کی ایک تحقیق برکینا فاسو میں ہوئی جس میں 18 افراد شامل ہوئے۔ اس تحقیق سے بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مچھر انسانی جسم سے کاربن ڈائی اکسائیڈ کے اخراج اور جسم کی حرارت کی وجہ سے ان کی طرف زیادہ متوجہ نہیں ہوئے، مگر بیئر پینے والے افراد کی طرف مچھروں کی توجہ بڑھی۔
ایریکا میک ایلسٹر کہتی ہیں کہ ممکن ہے کہ الکوحل پینے والے مچھروں کو زور دار طریقے سے اپنی طرف متوجہ کرواتے ہوں، مگر اس رجحان میں انسان کی جینیات کا کردار بھی اس کشش کی وجوہات کا حصہ ہے۔
اس لیے ٹھنڈی بیئر سے منھ موڑنے سے آپ بچ نہیں سکتے، مگر یہ ضرور ہے کہ کچھ بیئر پینے کے بعد مچھر کے کاٹنے کی تکلیف کا احساس بہت زیادہ نہیں ہوتا۔
کم از کم میرے نزدیک یہ بات یقینی ہے۔