سماجی کارکن ادریس خٹک چھ ماہ بعد بھی ’لاپتہ‘
تقریباً چھ ماہ پہلے سماجی کارکن ادریس خٹک کو اسلام آباد سے اکوڑہ خٹک کے راستے پر صوابی انٹرچینج کے پاس چند سادہ لباس میں ملبوس افراد نے اُن کی گاڑی سے اتار لیا تھا۔ جس کے بعد سے وہ اب تک ’لاپتہ‘ ہیں۔
حال ہی میں ادریس خٹک کی واپسی کے لیے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کچھ دیر کے لیے ایک ٹرینڈ بھی چلا لیکن اس کے بعد پھر خاموشی ہو گئی۔
13 نومبر 2019 کو دوپہر کے وقت اُن کی گاڑی کو صوابی ٹول پلازہ سے گزرنے کے بعد روکا گیا۔ وہاں سے ادریس خٹک کو اُن کے ڈرائیور شاھسوار سمیت ایک اور گاڑی میں لے جایا گیا۔
اُن کی بیٹی شمائسہ خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ 13 نومبر کو ان کے والد کو ڈرائیور سمیت لے جایا گیا تھا۔
’رات تقریباً گیارہ بجے میرے والد نے مجھے اور میری بہن کو باری باری فون کیے اور کہا کہ اُن کے پاس فون کا چارجر نہیں ہے تو فون بند رہے گا۔`
پھر دوسری صبح ادریس خٹک نے اپنے ایک دوست کو فون کرکے اپنا لیپ ٹاپ اور ہارڈ ڈسک منگوائی۔ چونکہ ادریس خٹک گھر بند کر کے گئے تھے تو اُن کے دوست کو گھر بلایا گیا اور تھوڑی دیر بعد دو لوگ اُن کے گھر کی چابی لیے پہنچے اور دوست کے ساتھ ادریس خٹک کے فون کے ذریعے نشاندہی کرنے پر اُن کا سامان لے کر چلے گئے۔
دو دن گزرنے کے بعد ادریس خٹک کے ڈرائیور کو موٹروے پر اسلام آباد ٹول پلازہ کے نزدیک چھوڑ دیا گیا اور انھیں گاڑی واپس دے کر سیدھا گھر جانے کا کہا گیا۔ جس کے بعد وہ دیر رات گاؤں واپس آ گئے۔ اس کے بعد ڈرائیور شاھسوار نے انبر پولیس تھانے میں شکایت درج کرائی۔
شاھسوار کی طرف سے تھانے میں درج شکایت کے مطابق ’صوابی ٹول پلازہ سے گزرنے کے فوراً بعد سادہ لباس میں ملبوس دو لوگوں نے اُن کی گاڑی کو رُکنے کا اشارہ کیا۔ گاڑی رکتے ہی چار آدمی گاڑی کے اردگرد کھڑے ہو گئے جن میں سے دو نے ادریس خٹک اور شاھسوار کی آنکھوں پر پّٹی باندھ دی اور دوسری گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔
شاھسوار کی تھانے میں کی گئی شکایت کو درج کر لیا گیا لیکن ادریس خٹک کی بیٹی شمائشہ نے کہا کہ پولیس نے فوری طور پر ایف آئی آر درج نہیں کی۔
’ہمیں عدالت کے ذریعے میرے والد کی گمشدگی کا مقدمہ درج کرانا پڑا۔‘
ادریس خٹک کے وکیل لطیف آفریدی نے بتایا کہ مقدمہ تاحال تاریخوں اور موجودہ صورتحال کو بنیاد بنا کر ملتوی کیا جارہا ہے۔
ادریس خٹک نے روُس سے اینتھروپالوجی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور بطور محقق ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ اُن کی تحقیق کا ایک بڑا حصّہ سابق فاٹا، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد رہے ہیں جبکہ وہ سماجی کارکن کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔
اُن کی بیٹی نے بتایا کہ پچھلے تین برس سے انھوں نے گمشدہ افراد پر تحقیق نہیں کی۔ ساتھ ہی اُنھوں نے سوال بھی اٹھایا کہ ’پاکستان میں جبری طور پر گمشدہ کیے جانے والے افراد کی واپسی کے لیے کہاں بات کی جا سکتی ہے؟ کیونکہ میں نے پہلے کبھی انسانی حقوق کے قومی ادارے، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کا نام نہیں سنا۔‘
پاکستان میں جبری طور پر گمشدہ کیے جانے والے افراد کے بارے میں اعداد و شمار یکجا نہیں کیے گئے ہیں۔ ہر ادارہ اور تنظیم اپنے طور پر اکٹھا کیے گئے اعداد و شمار بتاتا ہے جو سماجی کارکنان کے مطابق اصل اعداد و شمار سے بالکل مختلف اور قدرے کم ہیں۔
ایسی صورت میں سنہ 2015 میں بننے والا قومی کمیشن برائے انسانی حقوق ایک ادارہ ہے جہاں لوگوں کی شنوائی بھی ہوتی تھی اور فریقین کو براہِ راست حکمرانوں، وکیلوں، سابق ججوں اور پاکستانی فوج کے کرنل یا جرنیلوں سے سوال کرنے اور اپنی بات بتانے کا موقع مل جایا کرتا تھا۔
یہ کمیشن پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق ملک کے آئین اور بین الاقوامی قوانین کے تحت کام کرتا ہے۔ کمیشن پاکستان کی پارلیمان کو جوابدہ ہوتا ہے جہاں اس کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ بھی جمع کرائی جاتی ہے۔
حکومت کا کام اشتہارات دے کر چیئرمین کے عہدے کے لیے مختلف تجاویز اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ جس کے بعد اشتہارات کے شائع ہونے والی ہر پوسٹ کے لیے تین نام شارٹ لسٹ کر کے وزیرِ اعظم کو تجویز کیے جاتے ہیں۔
لیکن پچھلے ایک برس سے یہ ادارہ غیر فعال ہے۔ پوچھنے پر ادارے میں کام کرنے والے سابق ارکان بتاتے ہیں کہ دو بار اخبارات میں اشتہارات دینے کے باوجود کمیشن کے چئیرمین کی نشست خالی ہے۔
اس کا براہِ راست اثر اُن تمام افراد پر پڑ رہا ہے جو کمیشن کے ذریعے اپنی شکایت کہیں درج کرا سکتے تھے۔
سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سابق چیئرمین افراسیاب خٹک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں انسانی حقوق کے قومی کمیشن کا اتنے لمبے عرصے تک غیر فعال ہونا تشویشناک ہے۔‘
ادریس خٹک کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ اغوا برائے تاوان کا کیس نہیں ہے۔ ’اگر ادریس نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کریں۔ اس طرح غائب کردینا انسانی حقوق کی پامالی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سویلین طور طریقے کمزور یا بند کردیے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کے کمیشن کے بند رہنے، پارلیمان کی خاموشی اور عدالتوں میں احتساب کا طویل عمل اُن تمام لوگوں کو شہ دیتا ہے جنھیں پتا ہے کہ اُن کا احتساب ناممکن ہے۔‘
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ادریس خٹک کے لاپتہ ہونے کو انتہائی سنجیدہ معاملہ قرار دیا ہے۔ تنظیم نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’ادریس خٹک کو سادہ لباس میں موجود افراد نے غائب کر رکھا ہے۔ ان کے حوالے سے ان کے خاندان کو معلومات فراہم نہیں کی جارہی ہیں۔‘
’ادریس خٹک تشدد یا اس سے بھی بدترین حالات کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘