پاکستان میں ادارے آہستہ آہستہ نہیں بلکہ بڑی تیزی سے تباہی اور بربادی کی طرف جا رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پولیس کی رٹ ہوتی تھی۔ گائوں میں ایک سپاہی جاتا تھا تو پورا گائوں آگے لگ جاتا تھا۔ لوگ ڈر کے مارے گھروں میں دبک جاتے تھے اور ملزم گھر سے بھاگ کر کھیتوں میں چھپ جاتے تھے۔ عموماً پولیس کے طلب کرنے پر ملزم کے لواحقین اسے خود پولیس کے سپرد کر دیتے تھے۔ پولیس والے ملزم زیادہ ہونے اور ہتھکڑیاں کم ہونے کی صورت میں ان کی پگڑیاں اتار کر‘ انہیں سے ان کے ہاتھ باندھ کر تھانے لے آتے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اگر گائوں والوں کی تعداد آمدہ پولیس کی نفری سے زیادہ ہو تو وہ پولیس کی حراست میں موجود ملزم کو زور زبردستی سے چھڑوا کر فرار کروا دیتے ہیں۔ کل ہی کسی نے دو عدد وڈیو بھیجی ہیں۔ ایک وڈیو میں ایک خاتون موٹروے پولیس کو گالیاں‘ اور اپنے خاوند کے عہدے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ پھر زبردستی اس نے سامنے موجود رکاوٹ ہٹا کر اور پولیس کی طرف سے رکھے گئے ڈرم کو ایک طرف پھینکتے ہوئے گاڑی کو چلایا اور یہ جا وہ جا۔ اس خاتون کی زبان ایسی تھی کہ نقل نہیں کی جا سکتی۔ دوسری وڈیو میں ایک اور صاحب بھی پولیس وارڈن کو گندی گندی گالیاں دے کر اپنے عہدے کا رعب جھاڑ رہے ہیں۔ ہر دو ڈیوز میں ایک بات سامنے آئی ہے کہ پولیس اب ایسے مواقع پر صرف وڈیو بنانے پر اتر آئی ہے اور بطور قانون کا نفاذ کرنے والے محکمے کے اپنی رٹ اور افادیت کھو چکی ہے۔ ہمارے ایک دوست نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ پولیس کا کام وڈیو بنانا نہیں بلکہ بروقت قانون کی عملداری کو ممکن بنانا ہے۔ قوم ان کو لاقانونیت ختم کرنے کی تنخواہ دیتی ہے فلم ریکارڈنگ کی نہیں۔ لیکن دوسری طرف ایک حقیقت اور بھی ہے کہ قانون کا نفاذ کرنے پر پولیس کو بعد میں ہمیشہ سبکی اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور میں بھی یہی ہوا اور پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کے بعد زور زبردستی کے نتیجے میں صلح کرنی پڑی۔ گزشتہ دنوں چالان کرنے پر صوبائی وزیر راجہ راشد حفیظ نے تھانے پر چڑھائی کر دی۔ اب اس بات سے بحث نہیں کہ محکمہ پولیس میں اتنا انحطاط کیسے آیا؟ نتیجہ یہ ہے کہ محکمہ بری طرح انحطاط کا شکار ہے۔ فورس کا مورال ڈائون ہے۔ کارکردگی صفر ہے۔ رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی کو کسی کا ڈر خوف نہیں۔ اوپر والوں نے سیاسی دبائو پر سارا سسٹم تباہ کر دیا ہے۔ حرام خوری اور رشوت ستانی نے نیچے سے اوپر تک سارا نظام تباہ و برباد کر دیا ہے۔ یہ صرف ایک محکمے کا حال ہے یہاں جس محکمے کو ٹٹولیں یہی حال ہے اور بربادی کی یہی کہانی ہے۔ کل ہمارے دوست ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے مجھے وفاقی محتسب کی سال 2019ء کی کارکردگی کا مختصر سا جائزہ بھیجا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اس جائزے نے ایک بہت پرانا دوست یاد کروا دیا۔ اتنا پرانا کہ اب شاید اس دوست کو بھی یاد نہ ہو کہ اس سے ملے کم از کم بھی انتالیس چالیس سال ہو گئے ہیں۔ میں تب تھوڑے عرصے کے لیے پنجاب یونیورسٹی لاہورگیا تھا۔ شاید ایک ڈیڑھ ماہ کے لیے اور پھر میں پنجاب یونیورسٹی چھوڑ کر دربارہ زکریا یونیورسٹی آ گیا تھا۔ تب طاہر شہباز سے پہلا تعارف ایک درس قرآن کے دوران ہوا تھا۔ چالیس سال گزر گئے مگر مجھے اب بھی یاد ہے کہ طاہر شہباز نے تب سورۃ العصر کی تفسیر بیان کی تھی۔ ایسا مؤثر اور دل پذیر درسِ قرآن کہ صرف اسی ایک درس قرآن نے چالیس سال بعد بھی اس ماحول میں کھڑا کر دیا کہ بالکل ایسا محسوس ہوا‘ جامعہ پنجاب ہے‘ میں ہوں‘ طلبہ کا ایک اکٹھ ہے‘ اور طاہر شہباز درس قرآن دے رہا ہے۔ صرف تین آیات پر مشتمل ایک نہایت ہی مختصر سی سورہ جس میں خسارے سے بچنے والے چار اقسام کے لوگوں کا ذکر ہے۔ وہ جو ایمان لائے‘ جنہوں نے اعمال صالح یعنی نیک کام کیے‘ جو ایک دوسرے کو حق سچ پر قائم رہنے کی اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ چند ملاقاتیں اس دور کی یادگار ہیں۔ پھر میں ملتان آ گیا اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرکے دنیا کے جھنجٹوں میں پھنس گیا اور کامل چالیس سال گزر گئے۔ان چالیس سالوں میں دوستوں کے توسط سے طاہر شہباز کی خبر ملتی رہی کہ وہ ان معدودے چند سرکاری افسران میں سے ہے جو بیوروکریسی کی نمک کی کان میں نمک نہیں ہوا۔ بارہا ایسا ہوا کہ ایک دو مشترکہ دوستوں نے ایسے لفظوں میں ذکر کیا کہ دل کیا کہ اس سے ملا جائے مگر ملاقات تب ہوتی ہے جب اس کا اذن ہوتا ہے اور شاید ابھی یہ اذن نہیں آیا۔ اسلام آباد کے ایک دوست سے پوچھا کہ یہ وفاقی محتسب کا دفتر کیا کر رہا ہے تو اس دوست نے جو اپنی تنقیدی طبیعت کے باعث کم ہی کسی بات پر تعریفی کلمات ادا کرتا ہے کہنے لگا:اس گئے گزرے دور میں یہ محکمہ خاموشی سے اپنا کام کر رہا ہے اور عمومی طور پر اس کی کارکردگی عام آدمی کے سامنے نہیں آتی؛ تاہم نتائج کے اعتبار سے حیران کن صورتحال نظر آتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ طاہر شہباز کا اس میں کیا کردار ہے؟ وہ دوست کہنے لگا: سلمان فاروقی کے بعد طاہر شہباز جیسے صاف ستھرے شخص کے آنے سے جتنی تبدیلی تم سوچ سکتے ہو‘ اتنی تبدیلی آئی ہے‘ کام اور کارکردگی کے اعتبار سے وفاقی محتسب کا آفس بہت ہی کارآمد اور انصاف کا تیز ترین اور سستا ترین ذریعہ ہے؛ تاہم فیصلوں کو نافذ کرنے کے اعتبار سے ابھی کچھ مزید کام کرنے کی ضرورت ہے؛ البتہ یہ وفاقی محتسب کا نہیں‘ حکومت کے کرنے کا کام ہے۔ صرف 2019 میں وفاقی محتسب نے 74,869 فیصلے کیے۔ ایک سال کے اندر اندر اتنی تعداد میں ہونے والے فیصلوں کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سارے فیصلے شکایت ملنے کے ساٹھ دن کے اندر اندر ہو گئے۔ نہ کوئی فیس ہے اور نہ کوئی خرچہ۔ بس شکایت کریں اور اس کا ازالہ ہو جائے گا۔ نہ صرف یہ کہ 74 ہزار سے زائد فیصلے ہوئے بلکہ ان میں سے ستانوے فیصد فیصلوں پر عملدرآمد بھی ہوا۔ یہ شکایات سرکاری محکموں بارے لوگوں کی تھیں۔ سرفہرست بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں تھیں۔ ان کے خلاف 32421 شکایات موصول ہوئیں۔ ان میں سے 32277 فیصلے ہوئے۔ سوئی گیس کے خلاف 9598 شکایات آئیں۔ یہ محکمہ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر آیا۔ دیگر اداروں میں نادرا‘ پاکستان پوسٹ‘ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی‘ پاکستان بیت المال‘ پاکستان ریلوے‘ سٹیٹ لائف انشورنس‘ آئی بی‘ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ای او بی آئی وغیرہ شامل ہیں۔ وفاقی محتسب کے فیصلے کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے اور اس اپیل پر بھی پینتالیس دن کے اندر اندر فیصلہ ہو جاتا ہے۔ فیصلوں کے خلاف صرف صدر پاکستان کو اپیل کی جا سکتی ہے۔ سال 2019 میں محتسب کے 74869 فیصلوں میں سے صرف 317 کے خلاف اپیلیں دائر کی گئیں‘ جو پاکستان کے عمومی عدالتی فیصلوں کے تناظر میں دیکھی جائیں تو آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔ ان 317 اپیلوں میں سے صرف 23 کو قبول کیا گیا؛ تاہم ان میں سے ایک بھی وفاقی محتسب کے خلاف نہ تھی۔ یہ تو صرف شکایات کے ازالے کی حد تک کا معاملہ تھا؛ تاہم وفاقی محتسب نے پاکستان کی جیلوں کے اندر قیدیوں کی حالت زار میں بہتری لانے کے لیے جو اقدامات کئے وہ بڑے دور رس نتائج کے حامل ہیں۔ ان میں قیدیوں کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم تک کا اہتمام شامل ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی پر جیل میں پڑے رہنے والے قیدیوں کی جرمانے کی رقم ادا کرکے رہائی اور عید پر تحائف کے علاوہ سب سے اہم کام پنشنروں کی ماہانہ پینشن ہے‘ جو وہ پہلے صرف نیشنل بینک کے باہر لمبی لمبی قطاریں بنا کر وصول کرتے تھے‘ اب وہ اپنی پینشن اپنے بینک اکانٹ میں وصول کرتے ہیں۔ اب ہمارے ایک اور عزیز دوست ڈاکٹر انعام الحق جاوید اس ادارے کا حصہ ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ حسب سابق یہاں بھی اپنے حسن انتظام سے مزید بہتری لائیں گے۔ میں نے شاہ جی سے دریافت کیا کہ کیا دیگر محکمے عوام کی سہولت کے لیے فوری اور سستا انصاف مہیا نہیں کر سکتے؟ شاہ جی کہنے لگے: کر سکتے ہیں بشرطیکہ درمیان میں وکیلوں کی بھسوڑی نہ ڈالی جائے۔ میں نے شاہ جی سے تفصیل دریافت کی تو وہ کہنے لگے: آپ مجھ پر رحم کریں‘ میں کورٹ کچہری نہیں بھگت سکتا۔