مجھ پر کل منکشف ہوا کہ جنت کے اصل حقدار میرے محلے دار حاجی نذیر صاحب ہیں۔ میں چونکہ ایک طے شدہ گنہگار ہوں اسلئے مجھ پر شاید کبھی یہ عقدہ نہ کھلتا لہٰذا حاجی صاحب کو مجبوراً خود ہی یہ بات بتانا پڑی۔ حاجی صاحب ایک صاحبِ کرامت انسان ہیں، اپنے آستانے پہ دم درود بھی کرتے ہیں، چلّے بھی کاٹتے ہیں، تعویذ دھاگا بھی کرتے ہیں اور ایزی لوڈ کی سہولت بھی رکھی ہوئی ہے۔ آپ پہلے میری طرح ایک شدید گنہگار انسان تھے، چہرے سے نحوست ٹپکتی تھی لیکن جب سے خود کو جنت کا حقدار سمجھنا شروع کیا ہے ماشاء اللہ سارا دن نور میں گھرے رہتے ہیں، کبھی نور محمد آ رہا ہے، کبھی نور دین جا رہا ہے… سنا ہے سید نور کو بھی قرب و جوار میں منڈلاتے دیکھا گیا ہے۔ حاجی صاحب میرے بارے میں بڑے متفکر رہتے ہیں، کئی دفعہ بتا چکے ہیں کہ خواب میں تمہارے حوالے سے کوئی اچھے اشارے نہیں مل رہے۔ کافی تپش سی محسوس ہوتی ہے۔ میں نے عرض کی کہ یا حاجی! مجھے کیا کرنا چاہیے؟ پیار سے بولے ’’کسی اللہ والے کے مرید ہو جائو‘‘۔ میں نے ایسے کسی بندے کا ایڈریس پوچھا تو غصہ کر گئے ’’ہم کیا ہنومان کے پجاری بیٹھے ہیں، بدبخت انسان ہم ہی تو ہیں اللہ والے‘‘۔ میں نے غور سے ان کی طرف دیکھا، پھر سہم کر کہا ’’تو کیا آپ مجھے اپنا مرید بنانا چاہتے ہیں؟‘‘۔ اُن کی بھنویں تن گئیں ’’ابے جملہ ٹھیک کر، ہم اللہ والے ہیں، ہم مرید نہیں بناتے، لوگ ہمیں مرشد بناتے ہیں اور یوں خودبخود ہمارے مرید ہو جاتے ہیں‘‘۔ اتنے میں ایک صاحب اندر آئے، جھک کر حاجی صاحب کو سلام کیا، حاجی صاحب نے اپنا دائیاں ہاتھ آگے بڑھایا، آنے والے نے حاجی صاحب کے ہاتھ پر ایک بوسہ دیا اور الٹے قدموں واپس پلٹ گیا۔ پوچھا ’’یہ کون تھا؟‘‘ مسکرا کر بولے ’’جنت کا مسافر‘‘۔ میں ہڑبڑا گیا، آپ کو کیسے پتا چلا؟ گھور کر بولے، اللہ والوں کی نظریں بڑی دور تک دیکھ سکتی ہیں۔ میں نے جلدی سے کہا، حاجی صاحب آج تاریخ کیا ہے؟ انہوں نے چونک کرغور سے دیوار پر لٹکے کیلنڈر کی طرف دیکھا، پھر عینک کی تلاش میں ادھر اُدھر ہاتھ مارا، نہ ملی تو بیزاری سے بولے ’’خود ہی دیکھ لو، یہاں سے صاف نظر نہیں آ رہا‘‘۔
حاجی صاحب کو میرے سمیت ہر اُس نام پر اعتراض ہے جو اسلامی نہیں، میں نے ایک دفعہ پوچھا کہ حاجی صاحب! نام تو نام ہوتا ہے۔ غرّا کر بولے ’’گویا اب اسلامی ناموں سے بھی انکار کرو گے؟‘‘۔ میں نے بے بسی سے کہا ’’انکار نہیں کر رہا چونکہ جاہل ہوں اس لیے رہنمائی حاصل کرنا چاہ رہا ہوں کیونکہ جو نام ہم یہاں پاکستان میں رکھتے ہیں ایسے نام اکثر اسلامی ممالک میں نہیں رکھے جاتے، تو کیا وہ نام غیر اسلامی ہوتے ہیں؟ یہ سنتے ہی حاجی صاحب کا پارہ چڑھ گیا ’’اے عورتوں کے نام والے مستقل جہنمی انسان، تجھ سے بحث فضول ہے کیونکہ دوزخ بڑی شدت سے تیرا انتظار کر رہی ہے‘‘۔ حاجی صاحب شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ ان کا یہ شعر تو آستانے کے دروازے پر لکھا ہوا ہے ’پانی پانی کر گئی مجھ کو حاجی نذیر کی یہ بات… نذرانہ اپنے ہاتھ سے بکسے میں ڈالیں‘۔ میں نے توجہ دلائی کہ شعر بے وزن ہے۔ دانت پیس کر بولے ’جاہل انسان کہاں سے بے وزن ہے، دونوں لائنیں پوری پوری ایک ساتھ تو لکھی ہوئی ہیں۔ میں نے جلدی سے کہا ’ہاں لیکن لائنیں برابر ہونے کا مطلب وزن تو نہیں ہوتا… ویسے یہ کون سی بحر ہے؟‘‘ حاجی صاحب نے کچھ دیر سکوت اختیار کیا، پھر لاپروائی سے بولے ’بحرالکاہل۔ حاجی صاحب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کا دم کیا ہوا پانی پی کر کینسر کا مریض بھی ٹھیک ہو جاتاہے، شاید ٹھیک ہی کہتے ہیں کیونکہ میں نے ایک دو کینسر کے مریضوں کو حاجی صاحب کا دم کیا ہوا پانی لے جاتے دیکھا ہے، وہ دوبارہ واپس نہیں آئے، یقیناً صحت یاب ہوگئے ہوں گے۔ ایک دفعہ محلے کا چوکیدار حشمت خان بیمار ہوا تو میں اُس کی عیادت کو گیا، اُس نے جاتے ہی ایک گزارش کی کہ حاجی صاحب سے پانی دم کرا کے لادو۔ میں نے بڑا سمجھایا کہ پانی کو چھوڑو، ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں لیکن وہ نہیں مانا، مجبوراً مجھے حاجی صاحب کے آستانے پر حاضر ہونا پڑا، مجھے دیکھتے ہی ان کی باچھیں کھل گئیں، لہک کر بولے ’’آئو آئو… جنت پکی کرانے آئے ہو؟‘‘۔ میں نے گہرا سانس لیا، نہیں، آپ کے ایک ماننے والے کے لیے دم کیا ہوا پانی لینے آیا ہوں۔ انہوں نے کچھ دیر سوچا، پھر آہستہ سے بولے ’’اگر میرے پانی سے مریض کو آرام آگیا تو کہو گے کہ حاجی صاحب اللہ والے ہیں؟‘‘۔ میں نے انتہائی عقیدت سے کہا ’’نہیں‘‘۔ دانت پیس کر بولے ’’جو مجھ جیسے اللہ والے کو ماننے سے انکار کرتا ہے وہ کچھ دن بعد رات کو سوتے میں باگڑ بلا بن جاتا ہے‘‘۔ میں نے سر ہلایا ’’اور جو آپ جیسوں کو مانتا ہے اُس پر غالباً جاگتے میں ہی یہ کیفیت طاری ہوتی ہے‘‘۔ حاجی صاحب نے غضبناک نظروں سے میری طرف دیکھا، پھر کڑک کر بولے ’’دم کیا ہوا پانی سو روپے کا ہے، لائے ہو پیسے؟‘‘ میری آنکھیں پھیل گئیں ’’اتنا مہنگا پانی؟‘‘ اطمینان سے بولے ’’پیسے پانی کے نہیں، ہماری ریاضت کے ہیں اور اس اعتبار سے بہت کم ہیں، مفت ہی سمجھو‘‘۔ میں نے فوراً جیب سے سو کا نوٹ نکالا اور حاجی صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حاجی صاحب نے نوٹ اپنی بوری کے نیچے رکھا اور سائیڈ پر پڑی ایک سادہ پانی کی بوتل کا ڈھکن کھول کر اُس میں پوری قوت سے چھ پھونکیں ماریں اور بوتل میرے حوالے کرتے ہوئے بولے ’’مریض کو کہنا، ہر دو گھنٹے بعد ایک گھونٹ پی لے‘‘۔ میں نے بوتل وصول کی اور الٹے قدموں واپس آ گیا۔ اللہ نے کرم کیا اور خان صاحب دو دن بعد بھلے چنگے ہو گئے کیونکہ میں اُن کے لیے ڈاکٹر کی ’’دم کی ہوئی دوائی‘‘ لے گیا تھا۔