21 برس تک لندن کی بسوں میں سونے والے شخص کی کہانی
جب سنی کی برطانیہ میں پناہ کے لیے درخواست مسترد ہوئی تو انھوں نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک لندن میں چلنے والی بسوں میں اپنی راتیں کاٹیں۔ لیکن لندن کی ان بسوں کے نچلے حصے میں رات کو سونا کیسا ہوتا ہے؟
سرد موسم اپنے عروج پر ہے اور سنی تحمل سے بیٹھے انتظار کر رہے ہیں۔ تیز ہوائیں ان کی جیکٹ سے ٹکرا رہی ہیں۔
آدھی رات کے اس پہر ان کی ٹانگیں تھک چکی ہیں لیکن وہ اس کے باوجود مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ بس رکتی ہے اور اس کا سائڈ شیشہ سڑک کنارے درخت کی شاخوں سے ٹکراتا ہے۔ اس کے رکتے ہی ان کے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔
وہ دوسرے مسافروں کو پہلے سوار ہونے کی جگہ دیتے ہیں۔ پھر وہ ڈرائیور کے جانے مانے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے انھیں خوش آمدید کہتے ہیں اور سر جھکاتے ہوئے اپنا ’اویسٹر‘ بس کارڈ رقم جمع کرانے کی جگہ درج کرتے ہیں۔
بس پر سوار ہوتے ہی انھیں یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ نچلے حصے میں آخری نشست خالی ہے۔ آگے سفر لمبا ہے تو وہ اس نشست پر سکون سے بیٹھ جاتے ہیں۔ سنی اپنے بستے کو اپنے پیٹ کے ساتھ جکڑ لیتے ہیں۔ انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھ اب گرم ہو رہے ہیں اور وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
سنی اب بس میں فرائیڈ چکن کی بو اور رات کو لندن کی ٹریفک کے شور کو بھول چکے ہیں۔ ان کا ذہن کہیں اور مائل ہو رہا ہے۔
وہ اپنی جوانی کے دن یاد کر رہے ہیں جب وہ نائجیریا کے ایک قید خانے کی دیواروں کے بیچ عبادت کرتے ہوئے سزائے موت کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا جرم جمہوریت کے لیے آواز اٹھانا تھا۔
اسی دوران ایک سکیورٹی اہلکار ان کی جیل میں داخل ہوتا ہے، انھیں پیروں کے بل اٹھاتا ہے اور خاموشی سے انھیں قید خانے کی عمارت سے باہر سورج کی چکمدار روشنی میں لے جاتا ہے، جہاں ایک گاڑی ان کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
سنی کے خاندان اور دوستوں نے ان کی آزادی کے لیے قید خانے کے اہلکاروں سے لے کر لندن جانے والی پرواز کی ایئر ہوسٹس تک سب کو پیسے ادا کر دیے ہیں۔
سنی اچھے سے آرام کر رہے ہیں کہ ایسے میں شراب نوشی کے بعد کچھ مرد بس میں داخل ہو کر اس کے اوپر کے حصے میں سوار ہو جاتے ہیں اور اپنی بے سُری آوازوں میں گانا گانے لگتے ہیں۔ سنی کو احساس ہوجاتا ہے کہ صبح کے تین یا چار بج چکے ہیں، جو عام طور پر پریشانی کا وقت ہوتا ہے۔
اسی وقت کے دوران سنی اکثر دیکھتے ہیں کہ ان کے اردگرد تین مختلف گروہ ہوتے ہیں۔ یہ جدید لندن کا ایک واضح سروے ہے۔
پہلے گروہ میں وہ لوگ ہیں جو اچھی زندگی کے لیے برطانیہ آتے ہیں۔ وہ صفائی وغیرہ جیسی نوکریوں کے لیے وقت پر پہنچنا چاہتے ہیں۔
دوسرا گروہ مقامی برطانوی باشندوں کا ہے جو اونچی آواز میں بات کرتے ہیں، فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں اور نائٹ کلب سے واپس اپنے گھر جا رہے ہوتے ہیں۔
اور آخری گروہ ان بے گھر افراد کا ہوتا ہے جن کے پاس جانے کو کوئی جگہ نہیں ہوتی اور ان کے لیے بس میں سفر کرنا آرام کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔
سنی دوسروں کی موجودگی کو ناپسند نہیں کرتے۔ انھوں نے وقت کے ساتھ دوسروں کے شور سے لطف حاصل کرنا سیکھا ہے۔ جب وہ ہنستے ہیں تو سنی بھی خوش ہوتے ہیں۔ یہ دلچسپ ہے کہ کچھ جام پینے کے بعد طبقاتی فرق مٹ جاتا ہے۔ مُحتاط رہنے والے برطانوی شہری اپنے آداب بھول جاتے ہیں تاکہ وہ وقتی طور پر خود سے برابر ان بے گھر افراد سے گفتگو کر سکیں۔
سنی یاد کرتے ہیں کہ آخری مرتبہ وہ کب شراب کے نشے میں دھت ان افراد کی طرح خوش تھے۔
شاید یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ میں پناہ کے لیے ان کی درخواست کا جائزہ لیا جا رہا تھا۔ اس وقت انھیں امید تھی کہ انھیں دوسری زندگی کا موقع مل جائے گا۔ وہ دستاویزی فلم سیکھنے کی کلاس میں شامل ہو گئے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ لندن میں رہنے والے بے گھر افراد پر ایک ویڈیو بنائیں گے۔ انھیں معلوم نہیں تھا کہ جلد وہ خود بھی ان جیسی زندگی گزارنے لگیں گے۔
سنی نے بہادری دکھاتے ہوئے اچھے مستقبل کی خواہش کی جرات کی تھی۔ وہ ملکہ برطانیہ کے اس ملک میں محفوظ محسوس کر رہے تھے۔ نائجیریا بھر میں لوگ نوآبادیاتی دور کے پرانے پوسٹرز کی مدد سے ان کی شخصیت سے واقف ہیں۔ لیکن پھر ان کی پناہ کی درخواست مسترد ہوگئی۔
اب ان کے پاس صرف دو راستے تھے۔ پہلا یہ کہ وہ ایک فوجی آمر کی سختیوں کے باوجود اپنے ملک واپس جائیں، جہاں بالآخر انھیں سزائے موت دی جائے گی۔ دوسرا راستہ یہ کہ وہ کہیں چھپ جائیں۔
یہ ان کے لیے یقیناً ایک مشکل فیصلہ نہیں تھا۔
تو اس طرح لندن کی بسوں پر 21 برس تک خانہ بدوشی کا یہ سفر شروع ہوا۔ سنی کو جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ یہ طریقہ سڑکوں پر رہنے کے مقابلے زیادہ محفوظ اور گرمائش سے بھرپور تھا۔
پہلی مرتبہ انھیں ایک گرجا گھر کی خاتون پادری نے اپنے خلوص میں پورے ماہ تک چلنے والا بس پاس خرید کر دیا تھا جس کی مدد سے وہ کئی راتوں کا کرایہ بچا سکتے تھے۔ اس خاتون نے پھر ہر مہینے ایسا کرنا شروع کر دیا اور جب وہ آس پاس نہ ہوتیں تو ان کے کئی دوست پیسے ادا کر دیتے۔
وہ سنی گرجا گھر میں رضاکار کے طور پر کام کرنے لگے۔ وہ اپنی زندگی میں لندن میں کئی گرجا گھروں میں گئے۔ جب ان کا کام ختم ہوجاتا تو وہ ویسٹ منسٹر ریفرنس لائبریری چلے جاتے جہاں وہ دن بھر کی خبریں جانتے یا شروع کی گئی کتاب دوبارہ پڑھنے لگتے۔
پھر وہ شاید کسی رستوران کے منیجر سے بچا ہوا کھانا مانگتے تھے۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ انھیں انکار کیا جاتا۔
لیکن ٹھیک 9 بجے تک وہ ایک بس پر سوار ہوجاتے اور برطانیہ کے دارالحکومت کے تین یا کبھی کبھار چار چکر لگاتے۔
انھوں نے جلد ہی یہ جان لیا کہ آرام کے لیے شہر کی بہترین بسیں کون سی ہیں۔ ان کے لیے این 29 ایک قابل اعتماد بس تھی جو ٹریفلگر سکوائر سے شمال میں ووڈ گرین کے مضافات تک جاتی ہے۔ لیکن این 25 ایک ایسی بس تھی جو 24 گھنٹے چلتی تھی اور اس پر لمبے سفر سے پرسکون نیند کے مزے لیے جاسکتے تھے۔
ٹریفک میں انھیں مرکزی لندن سے اسکس میں الفورڈ پہنچنے میں دو گھنٹے لگتے۔ اگر ان کی قسمت اچھی ہوتی تو ڈرائیور انھیں اڈے پر بس میں ہی سونے کی اجازت دے دیتا۔
زیادہ تر ان چار یا پانچ بے گھر مسافروں کو نیند سے جگا کر اگلے ڈرائیور کے آنے تک زبردستی باہر نکال دیا جاتا۔
ان میں سے زیادہ تر لاچار برطانوی یا افریقی خواتین ہوتیں جو سڑکوں پر جنسی تشدد سے بچنے کے لیے بس میں پناہ لے لیتی تھیں۔ ان کے پاس اپنے بیگ ہوتے تھے اور وہ سنی کی شکر گزار ہوتیں جو انھیں سامان لادنے اور اتارنے میں اپنی مدد فراہم کیا کرتے تھے۔
لیکن سنی ہمیشہ کم سامان کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ اپنے ساتھ ایک چھوٹے بیگ کی مدد سے وہ دن کے اوقات میں بے گھر ہونے کی ذلت سے بچ سکتے تھے۔
کچھ بے گھر افراد تو سیٹوں کو کھینچ کر پھیلا لیا کرتے لیکن سنی دوسرے مسافروں کو تنگ کرنا اچھا نہیں سمجھتے تھے۔
انھیں سب سیکھنے میں کچھ وقت لگا۔ پہلے انھیں یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ کہاں بیٹھنا ہے۔ لیکن بعد میں ایک بار ایسا بھی ہوا کہ ان کی دو مسافروں سے اس بات پر لڑائی ہوئی جب انھوں نے آگے بیٹھی ایک خاتون کے بالوں میں آگ لگانے کی کوشش کی۔ انھوں نے ان افراد کا پیچھا کرتے ہوئے انھیں بھگا دیا تاہم وہ ہر ممکن کوشش کرتے رہے کہ مزید لڑائی نہ ہو۔
وہ کہتے ہیں کہ نچلے حصے میں اچھے، خاندانی اور بڑی عمر کے افراد بیٹھتے ہیں۔ ڈرائیور کے پاس بیٹھنے سے کم ہی کوئی پریشانی ہوتی تھی۔ پچھلی سیٹیں ذہنی سکون اور آرام کے لیے بہترین ہوتی ہیں۔
لیکن کئی پریشان کن چیزیں بھی رہتی ہیں جیسے بس کی آواز، رات کو نیون لائٹس کی روشنی، سفر کرتے وقت شور کرنے والے مسافر اور انجن کی گنگناہٹ۔ بس میں پوری رات دو گھنٹوں کی نیند بھی ایک کامیابی سمجھی جاسکتی تھی۔
صبح ہونے یا انھیں بھوک لگنے میں سے جب کبھی ایک صورت پیدا ہو تو وہ میکڈونلڈز چلے جاتے تھے۔
وہ کبھی بھیک نہ مانگتے لیکن لیسسٹر سکوائر کی برانچ کا دوستانہ عملہ انھیں کھانا دے دیتا اور باتھ روم میں شیو کرنے کی اجازت بھی۔
یا اگر وہ وقت پر پہنچتے تو ہارنگے میں 24 گھنٹے چلنے والی بس این 29 میں اس کے آدھے سفر کے دوران سوار ہوجاتے۔ یہاں وہ سکون تھا جو مرکزی لندن کی شاخوں میں بہت نایاب چیز تھی۔ وہ یہاں اپنے سر کو میز پر رکھ کر آرام سے سو سکتے تھے۔
کچھ کرسمس کے موقعوں پر سنی نے اپنی یہ عادت چھوڑی اور سردیوں کے دوران گرجا گھروں میں قائم کی جانے والی پناہ گاہوں میں رہنے لگے۔
سات مختلف گرجا گھروں نے ایک شیڈول بنا رکھا تھا۔ لیکن یہ شہر کے مختلف مقامات میں پھیلے ہوئے تھے اور یہاں بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوتے۔ سنی کے مطابق یہ لوگ ’واکنگ ڈیڈ‘ یا زندہ لاشوں کی طرح چلتے ہوئے شام کو داخلے کے کرفیو سے پہلے اپنے بستروں تک پہنچتے تھے۔
سنی کو احساس ہوا کہ وہ پتھر کے فرش پر کندھے سے کندھا ملا کر سونے کے بجائے بس میں آرام کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ تمباکو، شراب اور بغیر نہائے لوگوں کی بدبو میں نیند آنا مشکل تھا۔ اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ وہاں ان لوگوں کی چیخنے کی آوازیں بھی آتی تھیں جنھیں بظاہر بُرے خواب آتے تھے۔
لندن کی بسوں میں بیٹھے سنی نے برطانیہ کے دارالحکومت کی شکل بدلتے ہوئے دیکھی۔ آہستہ آہستہ کل آبادی میں سفید فام لوگوں کی آبادی کم ہوتی گئی۔ بے گھر افراد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ان مختلف مقامات میں وہ لوگوں کی بولی یا ان کے چہروں سے یہ معلوم کر لیتے کہ یہ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھیں اپنی چھٹی حس سے کچھ بُرا ہونے سے قبل اس کا علم ہوجاتا۔ وہ چہرے کے تاثرات میں انتباہی نشانیاں ڈھونڈ لیتے، پریشانی کا باعث بننے والے نوجوانوں کو پہچان لیتے اور کسی نسل پرست شخص کو اس کے ہونٹوں کی حرکات سے بھانپ لیتے۔
کچھ لوگوں کے جمع ہونے سے بھی اکثر لڑائی جھگڑے ہوتے تھے۔ جیسے شراب نوشی کے بعد آئے فٹبال کے شائقین اور ایک نقاب پوش خاتون کی آمد، مائیکروفون استعمال کرنے والے لوگ اور تھکے ہوئے مسافر، گینگ کے ممبر اور ان کے مقامی دشمن۔
سنہ 2016 میں بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد کے مہینوں میں تارکین وطن سے بد سلوکی عام ہوگئی۔ ’گھر واپس جاؤ‘ کی دھمکی ایک باقاعدہ عمل تھا۔
لیکن سنی اپنے حالات کا قصور وار برطانوی حکومت کو نہیں ٹھہراتے۔ اگر ان کا اپنا ملک ان کے ساتھ اتنا بُرا نہ رہا ہوتا تو وہ کبھی اسے چھوڑتے ہی نہ۔
آخر کار لیسٹر سکوائر پر نوٹرے ڈیم چرچ نے ان کی طرف سے ان کی برطانیہ میں رہنے کی درخواست دائر کر دی۔ اگر لوگ یہ ثابت کر دیں کہ وہ 20 سال سے برطانیہ میں رہ رہے ہیں تو وہ یہاں مقیم ہونے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ لیکن سنی نے یہ تمام وقت اپنا ریکارڈ اور پہچان چھپاتے ہوئے گزارا تھا۔ اب وہ یہ کیسے ثابت کر سکتے تھے کہ وہ اتنے وقت تک یہاں موجود تھے؟
دفترِ داخلہ سے آئے ایک خط کے مطابق: ’ہمیں علم ہے کہ فی الحال آپ بے گھر ہیں لیکن پھر بھی ہمیں دستاویزی ثبوت چاہییں تاکہ ہم 1995 سے آج کی تاریخ تک جاری رہنے والی رہائش ظاہر کر سکیں۔‘
’ان شواہد میں یوٹیلیٹی بل، بینک سٹیٹمنٹ اور کرایہ نامہ ہو سکتے ہیں۔‘
سنی نے ایک دوست بس ڈرائیور سے درخواست کی کہ وہ ان کے حق میں ایک خط لکھیں۔ انھوں نے ایسا کرتے ہوئے لکھا کہ ’سنی باقاعدگی سے رات کے وقت سفر کیا کرتے تھے۔‘
جن گرجا گھروں میں سنی نے رضاکارانہ طور پر کام کیا تھا انھوں نے بھی ان کی حمایت کے لیے بیانات اور پرانی تصاویر بھجوائیں جن میں خیراتی کاموں کے دوران ان کی موجودگی کا ثبوت ملتا تھا۔
اور آج کل سنی خود تصاویر کھینچتے ہیں۔ وہ اپنے بستے سے اپنا ڈسپوز ایبل کیمرہ نکال کر تصویر لیتے ہیں۔ یہ کیمرہ انھیں فوٹوگرافی پراجیکٹ میں اپنی آپ بیتی بیان کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔
اس کیمرے میں صرف کچھ ہی تصاویر کی جگہ باقی ہے۔ سنی کیمرے کو اپنی آنکھوں کے قریب لے جاتے ہیں اور تصویر کھینچنے کے لیے فلیش کے بٹن کو دباتے ہیں۔ پھر وہ یہ بٹن چھوڑ کر تصویر بنا لیتے ہیں۔
اس تصویر میں صرف بس کے نچلے حصے میں کئی خالی سیٹیں نظر نہیں آ رہیں بلکہ اس میں ایک آزاد شخص کی زندگی دیکھی جا سکتی ہے۔
55 برس کی عمر میں سنہ 2017 میں سنی کو یہاں رہنے کا ایک بہانہ مل گیا تھا۔ اس میں ایک سال لگا لیکن بالآخر انھیں یہاں رہنے، کام کرنے اور پناہ لینے کا حق مل گیا۔ اور وہ شکر گزار تھے۔
یہ تقریباً ان کا سٹاپ ہے جو جنوبی لندن کے مضافات میں موقع ہے۔ انھیں اب بھی اپنی منزل تک سفر کرنے کی عادت نہیں۔ اور اب بھی وہ کبھی کبھار رات کے وقت بس پر سفر کرتے ہیں جو اتنے عرصے تک ان کے لیے ایک پناہ بنی رہی۔ یہ اب بھی ایک ایسی جگہ ہے جہاں وہ اپنے ذہن کا سکون حاصل کر سکتے ہیں۔
سنی جب خود کو ہوا میں بلند کرنے کے لیے چھلانگ لگاتے ہیں تو ان کے گھٹنوں میں سے آواز سنائی دیتی ہے۔ وہ بوڑھے ہورہے ہیں اور اس مشقت نے انھیں اپنی عمر سے زیادہ بوڑھا کر دیا ہے۔
وہ ڈرائیور کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور دھیان سے نیچے اتر کر فٹ پاتھ پر آجاتے ہیں۔ وہ تیز ہوا میں چلتے ہوئے اپنے بستر کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ اور سردی میں ان کی مسکراہٹ سے ان کے پھٹے ہونٹ نمایاں ہو جاتے ہیں۔
سنی کا اصل نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے اس تحریر کے لیے ونیشیا مینگس کے ساتھ ایک سال تک کام کیا۔ اس تحریر کو سنی کے انٹرویوز، تصاویر اور ان کی کھینچی گئی تصاویر کی مدد سے لکھا گیا ہے جس سے ان کی شناخت محفوظ رکھی جا سکے۔