حسان قمبرانی کی مبینہ گمشدگی: ’بھائی لاپتہ ہے تو عید کیسے مناؤں؟‘
عید پر تو لوگوں کو خوشی منانے سے فرصت ہی نہیں ملتی لیکن بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی آصفہ قمبرانی عید پر خوشی نہیں منا سکیں۔
وہ عید پر خوشی منانے کے بجائے ایک چھوٹے سے بچے کے ہمراہ عید کے پہلے روز احتجاج کے لیے کوئٹہ پریس کلب پہنچیں۔
آصفہ قمبرانی کو عید کی خوشیاں چھوڑ کر احتجاجی مظاہرے میں شرکت کیوں کرنی پڑی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ایک بھائی محمد حسان قمبرانی گذشتہ تین ماہ سے زائد کے عرصے سے لاپتہ ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ عید اب ان کے لیے اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد کے لیے مسرت کا موقع نہیں رہا۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ عید کے پہلے روز کوئٹہ پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ پہنچیں اور اس کے بعد اس احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی جو کہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ دار گذشتہ کئی سال سے ہر عید کے پہلے روز منعقد کرتے ہیں۔
مظاہرے کے موقع پر آصفہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے بھائی طالب علم ہیں جن کو سریاب روڈ کے علاقے کلی قمبرانی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
آصفہ کی باتوں سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ بہت زیادہ تشویش اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔
آصفہ نے کہا کہ عید ایک مسرت کا دن ہے لیکن جن بہنوں کے بھائی یا کوئی اور رشتہ دار جیتے جی لاپتہ ہوں تو عید یا خوشی کا کوئی اور تہوار ان کو کیا مسرت دے سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اب خوشی منانے کے بجائے وہ اور لاپتہ افراد کے دیگر رشتے دار اپنے بھائیوں کی تلاش میں دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
مظاہرے میں شریک آصفہ کے قریب کھڑے بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے بتایا کہ احسان قمبرانی کی جبری گمشدگی سے چند سال قبل آصفہ کے ایک اور بھائی سلمان قمبرانی کو بھی جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔
ماما قدیر نے بتایا کہ گمشدگی کے کچھ عرصہ بعد سلمان قمبرانی کی تشدد زدہ لاش ملی تھی۔ اب دوسرے بھائی کی گمشدگی کے بعد آصفہ اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کی تشویش میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بلوچستان میں عید پر احتجاج کا سلسلہ کب شروع ہوا؟
بلوچستان میں لوگوں کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ اگرچہ 2002 میں شروع ہوا تھا لیکن ان گمشدگیوں کے خلاف 11سال قبل باقاعدہ علامتی بھوک ہڑتالی کمیپ قائم کیا گیا۔
یہ کیمپ لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ ہر سال دونوں عیدوں پر احتجاجی مظاہرہ بھی منعقد کیا جاتا ہے۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ احسان قمبرانی کی طرح بلوچستان سے ہزاروں افراد لاپتہ ہیں۔ ان کی بازیابی کے لیے 11سال سے ہر عید پر لاپتہ افراد کے رشتہ دار احتجاج کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ سادہ ہے۔ ’وہ مطالبہ یہ ہے کہ جتنے لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے ان کو منظر عام پر لاکر اس ملک کے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ عدالتیں ان کو جو بھی سزائیں دیں وہ اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائیزیشن کے عہدیدار بھی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مظاہروں میں شرکت کرتے ہیں۔
کوئٹہ پریس کلب کے باہر ہونے والے مظاہرے میں شریک اس تنظیم کی چیئر پرسن بی بی گل بلوچ نے کہا کہ دنیا بھر میں عید مسلمانوں کے لیے خوشی کا تہوار ہے لیکن بلوچستان میں وہ لوگ عید کے دن بھی احتجاج کرتے ہیں جن کے پیارے لاپتہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس احتجاج کا مقصد دنیا کو یہ احساس دلانا ہے کہ اگر کسی کا رشتہ دار لاپتہ ہو تو وہ یا اس کے خاندان کے دوسرے افراد عید پر کس طرح خوشی منا سکتے ہیں۔