Site icon DUNYA PAKISTAN

کورونا وائرس: ماسک کی کون سی قسم وائرس کو کتنا روک سکتی ہے؟

Share

کپڑے اور کاغذ کے ماسک عوام میں کووِڈ-19 پھیلنے سے تو روک سکتے ہیں لیکن یہ کسی بھی طرح انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں استعمال کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔

یہاں انفیکشن کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے اور طبی عملے کو بلند ترین معیار کا حفاظتی سامان چاہیے ہوتا ہے تاکہ وہ خود کو وائرس سے مکمل طور پر محفوظ کر سکیں۔

ماسک کی سادہ ترین مثال سرجیکل ماسک ہے جو عام طور پر کپڑے یا کاغذ کی تین تہوں سے بنایا جاتا ہے۔ یہ چھینکوں یا کھانسی سے نکلنے والے قطروں کو تو روک لیتا ہے لیکن وائرس کے ذرات سے نہیں بچا پاتا جو صرف 100 نینو میٹر کے لگ بھگ ہوتے ہیں (ایک نینومیٹر ایک میٹر کا اربواں حصہ ہوتا ہے۔)

سانس کے لیے حفاظتی سامان بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک 3M کی ہیڈ آف سیفٹی ڈاکٹر نکی میک کلوہ بتاتی ہیں: ‘ایک ایسا ماسک جو آپ کے ناک اور منھش پر رہتا ہے لیکن آپ کے چہرے پر مضبوطی سے نہیں بیٹھتا، وہ آپ کے خارج کیے گئے ذرات کو پھیلنے سے تو روک سکتا ہے لیکن یہ ماسک آپ کو بہت چھوٹے ذرات اندر کھینچنے سے نہیں بچا سکتا۔’

دوسری جانب ریسپائریٹر چہرے پر مضبوطی سے ٹھہر جاتے ہیں تاکہ نہ کوئی ہوا لیک ہو کر باہر جا سکے نہ ہی لیک ہو کر اندر آ سکے۔ انھیں پہننے کا طریقہ بھی نسبتاً دقت طلب ہوتا ہے۔

ڈاکٹر میک کلوہ کہتی ہیں: ‘جب آپ سانس اندر کھینچتے ہیں تو ہوا فلٹر میں سے ہو کر گزرتی ہے اور اس فلٹر کو کارکردگی کے ایک مخصوص معیار تک پرکھا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ یہ اعتماد کر سکتے ہیں کہ اگر آپ کا چہرہ مضبوطی سے سیل ہے، تو ریسپائریٹر ان ذرات کی تعداد گھٹا رہا ہے جو آپ اندر کھینچ رہے ہیں۔

ہنی ویل کا بنایا گیا ایک ماسک۔ مختلف اقسام کے ماسک وائرس سے مختلف سطح کی حفاظت فراہم کرتے ہیں

ریسپائریٹر مختلف اقسام کے ہوتے ہیں۔ ان کی سادہ ترین قسم عام ماسک جیسی ہوتی ہے لیکن انھیں فلٹرنگ فیس پیس (ایف ایف پی) کہتے ہیں۔ کچھ استعمال کے بعد پھینک دینے کے لیے ہوتے ہیں جبکہ کچھ کو جراثیم سے پاک کر کے دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پیشہ ورانہ حفاظت اور صحت کے ذمہ دار امریکی ادارے نیشنل انسٹیٹوٹ فار آکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ (این آئی او ایس ایچ) نے ایف ایف پی ریسپائریٹرز کی درجہ بندی اس لحاظ سے کی ہے کہ وہ کتنے ذرات کو آپ کے نظامِ تنفس تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔ چنانچہ این 95 اور این 99 ماسک بالترتیب 95 اور 99 فیصد ذرات کو روکتے ہیں جبکہ این 100 ڈیوائسز 99.97 فیصد ذرات کو روک لیتی ہیں۔

یورپ میں ریسپائریٹرز کی درجہ بندی مختلف انداز میں کی جاتی ہے۔ یہاں ایف ایف پی 1 قرار دیے گئے ریسپائریٹر کم از کم 80 فیصد ذرات کو فلٹر کر دیتے ہیں، ایف ایف پی 2 کم از کم 94 فیصد، اور ایف ایف پی 3 این 100 کی طرح 99.97 فیصد ذرات کو روک دیتے ہیں۔

اور پھر باری آتی ہے پاورڈ ایئر پیوریفائنگ ریسپائریٹر یا پی اے پی آر کی جو ہیلمٹ جیسے نظر آتے ہیں۔

یہ این 100 یا ایف ایف پی 3 کی ہی طرح مؤثر ہوتے ہیں۔

ریسپائریٹر بنانے والی ایک بڑی کمپنی ہنی ویل سیفٹی کے چیف مارکیٹنگ افسر برائن ہووی کہتے ہیں: ‘یہ ایک جامع حل ہوتا ہے۔ اس میں ایک چہرے کی شیلڈ ہوتی ہے اور ایک نالی جو بیلٹ میں موجود ایک آلے سے منسلک ہوتی ہے۔ اس آلے میں ایک موٹر ہوتی ہے جو ہوا کو پمپ کر کے فلٹر سے گزارتی ہے۔ یہ ایک سفید سوٹ کا حصہ ہوتا ہے چنانچہ یہ نہایت جامع تحفظ فراہم کرتا ہے۔’

یونیورسٹی آف ساؤتھیمپٹن میں انجینیئرز نے ایک ایسا پی اے پی آر تیار کیا ہے جو وہ یونیورسٹی ہاسپٹل ساؤتھیمپٹن کو فراہم کر رہے ہیں۔ اب تک ایسے 1000 سوٹ عملے کے زیرِ استعمال ہیں۔

یونیورسٹی آف ساؤتھیمپٹن میں بنایا گیا یہ آلہ محققین کے مطابق بیرونی ذرات سے تقریباً مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے

فی الوقت یہ سرکاری طور پر منظوری کے مرحلے سے گزر رہا ہے اس لیے اسے ہسپتالوں میں ابتدائی طبی امداد یا انتہائی نگہداشت کے شعبوں میں استعمال نہیں کیا جاتا جہاں ایف ایف پی 3 ریسپائریٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم دو کمپنیاں انھیں تیار کر رہی ہیں اور مختلف جگہوں پر ایسے پانچ ہزار جوڑوں کے آرڈر کر دیے گئے ہیں۔

آزمائش کے مرحلے میں ایک سونگھنے کا ٹیسٹ ہوتا ہے جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا اسے پہننے والا شخص باہر کی کوئی بُو محسوس کر سکتا ہے یا نہیں۔ اس کے بعد ایک اور ٹیسٹ میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا واقعی باریک ذرات فلٹر ہو رہے ہیں یا نہیں۔

یونیورسٹی کے بائیو انجینیئرنگ سائنس ریسرچ گروپ کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ایلکس ڈکنسن سمجھاتے ہیں: ‘ہم اس شیلڈ کے اندر اور باہر ایک ایک پیٹری ڈش لگاتے ہیں اور فلٹر میں سے ایک ہزار لیٹر ہوا گزارتے ہیں۔ ہم انھیں 37 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر رکھ دیتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ فلٹر اور شیلڈ سے کالونی بنانے والے کتنے بیکٹیریا منتقل ہوئے ہیں۔ ہمارے پہلے تجربے میں ہمیں شیلڈ کے اندر بیکٹیریا کی افزائش نظر نہیں آئی لیکن اتنے عرصے میں باہر موجود پلیٹ پر دس کالونیاں بن چکی تھیں۔

برطانوی ادارہ برائے معیارات برٹش سٹینڈرڈز انسٹیٹیوٹ اس وقت اس آلے کو یورپی معیارات کے مقابلے میں پرکھ رہا ہے جس کے بعد ٹیم کو امید ہے کہ یہ ساؤتھیمپٹن اور دیگر جگہوں پر زیادہ وسیع طور پر استعمال کیا جائے گا۔

ابتدائی آزمائش سے گزرنے کے بعد یہ آلہ اب سرکاری طور پر منظوری کے مرحلے میں ہے

ہسپتال کے کنسلٹنٹ اور طبِ تنفس کے پروفیسر پال ایلکنگٹن کہتے ہیں: ‘آپ کو زیادہ بہتر نظر آتا ہے اور آپ بہتر انداز میں بات کر سکتے ہیں۔ آپ کی کارکردگی بہتر ہوجاتی ہے اور آپ بار بار اپنا حفاظتی سوٹ اتارے اور پہنے بغیر ایک مریض سے دوسرے مریض تک جا سکتے ہیں۔’

پال بتاتے ہیں کہ ‘ایک مرتبہ جب ہم نے اس کی فراہمی شروع کی تو عملے کے ایک رکن نے مجھے کہا کہ اب وہ زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔’

حال ہی میں ریسپائریٹرز کی طلب بنیادی طور پر تعمیرات اور پیداوار جیسی صنعتوں میں ہوتی تھی۔

ڈاکٹر میک کلوہ کہتی ہیں: ‘اگر ہم چھ ماہ پہلے تک بھی دیکھیں، تو طبی شعبے سے پورے چہرے کے ریسپائریٹرز مثلاً ایف ایف پی 2 یا ایف ایف پی 3 کی طلب بہت کم تھی۔ اس وقت یہ صرف تپ دق یا خسرہ کے مریضوں کے قریب استعمال کرتے تھے تاہم اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں طبی شعبہ ریسپائریٹرز کو زیادہ سے زیادہ استعمال کر رہا ہے۔’

نتیجتاً تیارکنندگان طلب کو پورا کرنے کے لیے لگاتار کام کر رہے ہیں۔

ہنی ویل کے برائن ہووی کہتے ہیں: ‘ہم نے اپنے موجودہ کارخانوں کی صلاحیت بڑھانے اور نئے کارخانے لگانے میں خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ میں رہوڈ آئیلینڈ میں واقع ہمارے کارخانے میں حال ہی میں ہماری ابتدائی مصنوعات تیار ہوئی ہیں اور گذشتہ ہفتے ہم نے پانچ لاکھ آلے تیار کیے۔’

وہ کہتے ہیں کہ کمپنی اسی طرح ریاست ایریزونا کے شہر فینِکس میں بھی اپنی منصوعات کی تیاری شروع کر رہی ہے۔ ‘یہ نئے کارخانے ہر ماہ تقریباً دو کروڑ آلے تیار کر رہے ہیں اور ہم دنیا بھر میں نئے کارخانے لگانے کے لیے بھی مواقعے تلاش کر رہے ہیں۔’

ہنی ویل کے ایک کارخانے میں ماسک تیار ہو کر باہر آ رہے ہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پیداوار میں اضافے کرنے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے

ڈاکٹر میک کلوہ کہتی ہیں کہ 3M بھی اپنی پیداوار میں اضافہ کر رہی ہے، مزید شفٹس میں کام کر رہی ہے اور کام کو بہتر بنا رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں: ‘ہم وہی مصنوعات پہلے سے زیادہ جلدی بنا سکتے ہیں اور ہم اب کچھ مصنوعات میں معمولی تبدیلیوں پر بھی غور کر رہے ہیں، مثال کے طور پر نئے ہیڈ بینڈز۔’

تو کیا عالمی سطح پر طلب کو پورا کیا جا سکے گا؟

برائن ہووی کہتے ہیں: ‘مستقبل قریب میں تو شاید بدقسمتی سے ایسا ممکن نہ ہوسکے۔ ہم نے طلب میں جو اضافہ دیکھا ہے وہ غیر معمولی رہا ہے اور چونکہ لوگ اسے اب عام استعمال کی چیز تصور کرنے لگے ہیں اس لیے طلب اس کی عالمی سطح پر پیداوار اور فراہمی سے کہیں زیادہ ہے۔’

مگر وہ کہتے ہیں کہ ان کی حکومتوں کے ساتھ مستقبل کی تیاری کے حوالے سے اچھی بات چیت چل رہی ہے اور وہ یقینی بنا رہے ہیں کہ سٹریٹجک ذخیروں کو فراہمی میں کسی قسم کی کمی نہ ہو۔

‘اگر خدانخواستہ ایسی کوئی صورتحال دوبارہ پیدا ہوئی تو اجتماعی طور پر ہم زیادہ جلدی اور مؤثر انداز میں ردِعمل دے سکیں گے۔’

Exit mobile version