Site icon DUNYA PAKISTAN

کورونا وائرس: لاک ڈاؤن کے دوران ایک جوڑے کی اپنی نوزائیدہ بچی کی خاطر طویل سفر کی داستان

Share

پہلی مرتبہ ماں باپ بننے والا ایک جوڑا اپنے نوزائیدہ بچے کو دیکھنے کی خاطر انڈیا کی سنسان شاہراہوں پر محو سفر تھا۔

یہ وسط اپریل کی بات ہے۔ یہ وقت تھا جب کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انڈیا سخت ترین لاک ڈاؤن کی زد میں تھا اور ملک میں تقریباً سب کچھ بند تھا۔

پولیس چوکیوں پر پولیس والوں نے اس جوڑے کو روکا، ان کے شناختی کاغذات کی جانچ پڑتال کی اور پوچھا کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران سڑک پر کیوں سفر کر رہے ہیں۔

انھوں نے جواب دیا کہ ’ہم اپنے پہلے پیدا ہونے والے بچے کو دیکھنے جا رہے ہیں۔‘

پولیس اہلکار حیرت سے گاڑی میں سوار خاتون کو گھور رہے تھے۔

’آپ کا کیا مطلب ہے؟ آپ اپنے نومولود بچے سے ملنے جا رہے ہیں؟ بچہ کہاں ہے؟‘ پولیس اہلکاروں کی آنکھیں جوڑے کی ایس یو وی گاڑی کے اندر بچے کو تلاش کرتی ہیں۔

یہ جوڑا وضاحت کرتا ہے کہ گجرات کے شہر آنند میں ایک ہفتہ سے زیادہ عرصہ قبل ان کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی ہے۔ یہ شہر انڈیا کی مغربی ریاست گجرات میں ہے جسے ملک کا ’دودھ کا دارالحکومت‘ کہا جاتا ہے۔

یہ جوڑا جنوبی انڈیا میں اپنے آبائی شہر بنگلور سے تقریباً 1600 کلومیٹر (994 میل) دور اپنی نوزائیدہ بیٹی کو اپنے گھر لے جانے کے لیے سفر کر رہے تھے۔

بچی کے والد راکیش (فرضی نام) نے مجھے بتایا کہ ’(پولیس والوں کو سب بتانے کے باوجود) کافی الجھن تھی۔ لیکن آخرکار انھوں نے ہمارے کاغذات کی جانچ پڑتال کی اور ہمیں آگے جانے دیا۔‘

لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کی بچی انڈیا بھر کے مختلف کلینکس میں پھنسے ہوئے درجنوں ’سروگیٹ‘ بچوں میں سے ایک تھی۔

سروگیسی ایسے عمل کا نام ہے جس میں کوئی خاتون (نہ کہ بچے کی اصل ماں) کسی جوڑے کے بچے کو پیدا کرنے کی حامی بھرتی ہے۔ ایسی خواتین کی خدمات عموماً پیسوں کے عوض حاصل کی جاتی ہیں اور وہ جوڑے اس عمل کو اولاد حاصل کرنے کے لیے اپناتے ہیں جن میں خاتون میں حمل ٹھہرنا طبی طور پر نامکمن ہو، تاہم اس کی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔

مارچ کے آخر سے جب سے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا آنند کے آکانشا ہسپتال اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں پیدا ہونے والے 28 بچوں میں سے وہ ایک بچی تھی۔ ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اب بھی کم سے کم دس ایسے بچے اپنے والدین کے آنے کے انتظار میں تھے۔

’سروگیسی کا گڑھ‘

انڈیا میں سروگیسی ایک ترقی پزیر صنعت ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر سال 1500 بچے سروگیسی کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں۔

انڈیا کو دنیا کا ’سروگیسی ہب‘ کہا جاتا ہے جہاں بیرون ملک مقیم متعدد بانجھ جوڑوں مقامی خواتین کو اپنے ایمبریو ولادت تک اپنے پیٹ میں پالنے کے لیے پیسے دیتے ہیں۔

لیکن اس غیر منظم کاروبار کے متعلق خدشات بڑھ رہے ہیں۔

سنہ 2018 میں انڈین پارلیمان کے سامنے ایک مسودہ قانون رکھا گیا جس کے تحت تجارتی سروگیسی پر پابندی عائد ہو جائے گی تاہم کوئی بھی بانجھ جوڑا اپنے کسی قریبی رشتہ دار کی کرائے کی کوکھ حاصل کر سکے گا۔ یہ قانون پارلیمان سے منظوری کا منتظر ہے۔

اب بنگلور سے تعلق رکھنے والا یہ اس عمل کے ذریعے کسی دوسرے شہر میں پیدا ہونے والی اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے ایک تکلیف دہ سفر پر نکلا تھا۔

47 سالہ راکیش مینیجمنٹ کنسلٹنٹ ہیں اور ان کی 41 سالہ اہلیہ انیتا انسٹرکشن ڈیزائنر ہے۔

ان کی شادی سنہ 2003 میں ہوئی اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک انھوں نے اپنے ہاں بچے کی پیدائش کے لیے آئی وی ایف اور آئی یو آئی سمیت بہت سے دیگر طریقہ علاج آزمائے۔ وہ پانچ بار اسقاط حمل کے مراحل سے گزریں۔

بالاآخر گذشتہ سال انھوں نے حمل کے لیے کرائے کی کوکھ تلاش کرنے کا فیصلہ کیا اور سروگیسی کے ذریعہ ایک بچہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے گجرات کے کلینک میں ممکنہ سروگیٹ ماں سے ملاقات کی جن کی عمر تیس کی دہائی میں رہی ہو گی، اس خاتون کے اپنے دو بچے تھے۔

ان کے بطن سے چھ اپریل کو ایک صحت مند اور 2.9 کلو وزن کی بچی کی پیدائش ہوئی۔ اس کے والدین ملک کے دوسرے کونے میں پھنسے ہوئے تھے۔ انھوں نے کلینک کے ذریعے بھیجی گئی بچی کی تصاویر اور موبائل فون ویڈیوز دیکھیں۔ ان ویڈیوز میں سے ایک ویڈیو میں نوزائیدہ بچی آواز اور روشنی پر اپنا ردعمل دے رہی ہے، دوسرے میں اسے فارمولا دودھ پلایا جا رہا ہے۔ راکیش اور ان کی اہلیہ نے اس بچی کو ’خوشیوں کا خزانہ‘ قرار دیا۔

راکیش نے مجھے بتایا کہ ’یہ سب ہضم کرنے میں کچھ وقت لگا تھا۔ اور پھر میری اہلیہ نے رونا شروع کر دیا۔ یہ ایک جذباتی لمحہ تھا لیکن ہمیں اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ ہماری اصل مشکلات اب شروع ہوں گی۔‘

انڈیا میں گجرات کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ریاست ہے

کورونا کے باعث انڈیا میں روڈ، ریل اور ہوائی ٹرانسپورٹ معطل کر دی گئی تھی۔ ہنگامی صورتحال میں لوگوں کو آہستہ آہستہ ٹریول پاس دیا جا رہا تھا۔ اس جوڑے نے پاس حاصل کرنے کے لیے ایک درجن سے زائد اہلکاروں کے در پر دستک دی۔ بہت سے لوگوں کو فوری طور اس جلد بازی کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔

ایک اہلکار نے کہا کہ ’اوہ اچھا، آپ کی اہلیہ نے گجرات میں بچے کو پیدا کیا ہے اور آپ لوگ ان کے پاس جانا چاہتے ہیں۔‘

ایک دوسرے اہلکار نے حیرت سے کہا ’آپ کی بیوی یہاں ہے اور کوئی اور حاملہ ہے؟ آپ اسے یہاں آنے کے لیے کیوں نہیں کہتے ہیں؟‘

پھر ایک اور عہدیدار نے پوچھا کہ ’یہ ایک ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہے، ٹھیک ہے؟ تو پھر کیا جلدی ہے؟ بچہ وہیں رہ سکتا ہے؟‘

’یہاں کیا ایمرجنسی ہے؟‘

آخرکار گجرات میں واقع کلینک کے ڈاکٹر نے حکام کو ایک ای میل بھیجی جس میں بتایا گیا کہ والدین کو اپنے سروگیٹ بچے کو فوری طور پر لینے کی ضرورت کیوں ہے۔ کلینک کے سربراہ ڈاکٹر نینا پٹیل نے مجھے بتایا کہ ’یہ ایک انوکھی صورتحال ہے۔ ہم وقت پر بچے کو ان کے والدین کے حوالے نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم دباؤ کا شکار ہیں۔ اور کلینک میں 39 سروگیٹ مائيں حاملہ ہیں۔‘

14 اپریل کی شام کو آخرکار انھیں تین پاسز ملے۔ اپنے اور ڈرائیور کے لیے۔

صرف ایک ٹیکسی آپریٹر نے طویل مسافت کے اس سفر کے لیے سینیٹائزڈ ٹویوٹا ایس یو وی فراہم کرنے کی حامی بھری۔ آپریٹر نے بتایا کہ انھیں 30 منٹ تک ہی اے سی کو چلانے کی اجازت ہے اور پھر کھڑکی کھول کر تازہ ہوا آنے دینا ہے اور پھر 30 منٹ تک اے سی چلا سکتے ہیں۔

اگلے دو دن اور ایک رات تک وہ شاہراہوں پر گاڑی میں سفر کرتے رہے۔ رات کو وہ پیٹرول کے لیے پیٹرول سٹیشن پر رکتے۔ موبائل فون چارج کرتے اور رات کا کھانا کھاتے۔ انھوں نے سفر کے لیے پکا ہوا کھانا، 10 لیٹر پانی، بسکٹ، جام اور ڈبل روٹی لے رکھی تھی۔ رات کے کھانے کے بعد ڈرائیور تین گھنٹے تک سوتا رہتا۔

راکیش نے کہا کہ ’موسم گرم سے گرم تر ہو رہا تھا۔ ہم بالکل نہیں سوئے۔ ہم نے کتنی پولیس چوکیاں گزاریں کچھ یاد نہیں، لیکن جب ہم کسی چوکی سے گزرتے تو ہم اپنی رفتار تیز کر دیتے۔‘

بچی انند کے ایک کلینک میں پیدا ہوئی تھی

’یہ (سفر) تھکا دینے والا تھا۔ ہر چوکی پر ہمیں گاڑی سے نیچے اترنا ہوتا، اپنے پاس دکھانے ہوتے اور اپنا درجہ حرارت چیک کروانا پڑتا، اپنی تمام تفصیلات درج کروانی ہوتیں، بچے کے متعلق حیران کُن سوالات کے جوابات دینے ہوتے اور پھر آگے بڑھنا ہوتا تھا۔‘

لیکن آنند سے چند گھنٹے کے فاصلے پر وہ وہاں پہنچے جو شہر میں داخل ہونے سے پہلے آخری پولیس چوکی تھی۔

وہاں کے پولیس والوں نے یہ کہتے ہوئے تمام ٹریفک روک دی تھی کہ وہ انھیں شہر میں داخل نہیں ہونے دیں گے کیونکہ گجرات میں انفیکشن کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا اور بیرونی لوگوں کے داخلے پر سخت پابندیاں عائد تھیں۔

اس صورتحال میں تناؤ مزید بڑھ گیا۔ نصف درجن پھنسی ہوئی گاڑیوں کے مسافر بحث میں الجھ گئے اور ویڈیو کیمرے کی مدد سےایک پولیس والا ہر چیز ریکارڈ کر رہا تھا۔

ایک جوڑا ایک چھوٹے بچے کے ساتھ دہلی جا رہا تھا۔ اسے ابھی ایک ہزار کلومیٹر (621 میل) کا فاصلہ مزید طے کرنا تھا جہاں اس شخص کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا۔

وہ بار بار پولیس سے کہہ رہا تھا کہ ’میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے۔ تم مجھے کیوں ہراساں کر رہے ہو؟‘

چار گھنٹے بعد آخرکار پولیس اہلکاروں نے گاڑیوں کو سفر جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔ مسافروں کو دوبارہ اپنے تمام کاغذات دکھانا پڑے۔

اس کلینک میں اپنے بچے کو دیکھنے سے قبل اس جوڑے کے لیے دو ہفتوں کے قرنطینہ کے لیے شہر میں ایک متمول کمیونٹی میں ایک اپارٹمنٹ کا انتظام کیا گیا تھا۔ جب گھبراہٹ کا شکار مقامی لوگوں نے احتجاج کیا تو وہ دونوں اپارٹمنٹ سے ہسپتال منتقل ہو گئے، جہاں وہ ایک کمرے میں تقریبا ایک ہفتے تک رہے۔

یکم مئی کو ان کا قرنطینہ کا دورانیہ ختم ہوا اور وہ اپنے بچے کو دیکھنے کے قابل ہوئے، یعنی بچی کی پیدائش کے تین ہفتوں بعد۔

راکیش اور انیتا نے غسل کیا، اپنے کمرے کو صاف کیا، دستانے پہنے، چہرے پر ماسک پہنا اور انتظار کرنے لگے۔

انڈیا کے بہت سے کلینکس میں ایسے بچے اپنے والدین کے منتظر ہیں جو سروگیسی عمل کے ذریعے پیدا ہوئے ہیں

راکیش اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دوپہر کے بعد نرسیں اسے لے کر آئی تھیں۔

’انیتا رونے لگی۔ اس نے کہا مجھے دو منٹ دو اور پھر میں اسے (بچی کو) پکڑوں گی۔ ہم نے دستانے اتارے اور اسے اٹھایا۔

’ہم نے پوچھا کہ کیا ہم اسے چوم سکتے ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا نہیں۔ ہم نے اس کے لیے نیلے رنگ کا لباس لیا تھا۔ انھوں نے ہمیں اسے پہنانے کی اجازت دے دی۔‘

’میرا گلا بھر آیا تھا۔ آخر کار یہ ہو ہی گیا۔ بچی ہماری گود میں ہے۔ بہت زیادہ انتظار کے بعد۔ میں اس لمحے کو کبھی نہیں بھول سکتا۔‘

’پتا ہے جب ہم نے اسے اٹھایا تو وہ روئی نہیں۔ وہ صرف حیرت سے ہمارے عجیب و غریب چہروں کو گھورتی رہی۔‘

لیکن اب وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ اسے گھر کب لے جا سکتے ہیں۔ طویل عرصے سے جاری لاک ڈاؤن میں قدرے نرمی آئی ہے لیکن پبلک ٹرانسپورٹ، ریل اور ہوائی سفر اب بھی معطل ہے۔ سڑک کے ذریعے بنگلور واپسی کا سفر قریب آ رہا ہے۔ ڈاکٹروں نے سفر کی اجازت دے دی ہے۔

لہذا جوڑے نے سینیٹائزر کی بوتلیں، دودھ پلانے کی بوتلیں، گرم پانی کے لیے فلاسکس، فارمولہ فیڈ کے دس ڈبے اور ڈائپرز کے دو درجن پیکٹ واپسی کے سفر کے لیے خریدے ہیں۔ راکیش نے کہا کہ ’یہ اب ایک مختلف سفر ہونے والا ہے۔‘

وہ کسی ایسی گاڑی کا انتظار کر رہے ہیں جو انھیں گھر تک لے جائے۔

انیتا نے مجھے بتایا کہ ’یہ ان کے صبر اور استقامت کا امتحان رہا۔ بچے کی خواہش کے سفر میں بہت نشیب و فراز تھے۔‘

’بیٹی کو دیکھنے کے انتظار نے اس آزمائش کو مزید طویل کر دیا۔ اس آزمائش نے مجھے ایک زیادہ اچھا انسان بننے اور ایک زیادہ صبر والی ماں بننے میں مدد کی ہے۔‘

Exit mobile version