دنیا اگر بدل گئی ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ نہیں بدلی، تو ہمیں بھی اس کے ساتھ ساتھ بدلنا ہو گا۔ مثال کے طور پہ ہوائی سفر کو ہم ایک قدرتی امر سمجھنے لگے تھے‘ لیکن اس وبا کی تباہ کاریوں میں ہوائی انڈسٹری بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کوئی سوچ نہ سکتا تھا کہ ماڈرن دنیا کے ائیرپورٹ کبھی ویران بھی ہو جائیں گے لیکن ہمارے سامنے ایسا ہوا ہے۔ دنیا کی بڑی ائیر لائنوں کی سالانہ آمدنی ہمارے جیسے ملکوں سے زیادہ تھی۔ اب انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ اپنے جہازوں کا کیا کریں۔
یہ ایک مثال ہے۔ ٹریول انڈسٹری برباد ہو کے رہ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ٹورزم بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ جب کوئی آجا نہیں سکتا تو ٹورزم خاک اپنی پرانی شکل میں رہ سکتا ہے۔ یہ تباہ حال سیکٹر دوبارہ زندہ بھی ہوئے تو اپنی پرانی شکل میں نہیں آسکیں گے۔ صرف مادی چیزیں متاثر نہیں ہوئیں۔ انسانی سوچ کو بھی بدلنا پڑاہے۔ جس معاشی اور سماجی ماڈل کو ہم اٹل سمجھتے تھے اس کے بارے میں نئے تصورات جنم لے رہے ہیں۔
اگلے روز ایک انگریزی اخبار میں لاہور کے ریستورانوں کے بارے میں ایک سٹوری چھپی۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ شاید پچاس فیصد ریستوران نئی پیدا ہونے والی صورتحال کے اثرات برداشت نہ کر سکیں۔ بہتوں کو شاید اپنے کاروبار پہ تالے لگانے پڑیں۔ اگر ایسا ہوا تو کتنی بڑی تبدیلی ہوگی۔ جو لو گ اس کاروبار میں ملوث ہیں یا جو اس میں نوکریاں کرتے ہیں اُن کو نئے راستے تلاش کرنے پڑیں گے۔ نئی نوکریوں کے دروازوں پہ دستک دینی پڑے گی۔
حالات کے بارے میں جہاں صدمات سہنے پڑے ہیں وہاں نئے مواقع بھی نظر آتے ہیں۔ پاکستان ایک لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ ہمارا انحصار ٹورزم جیسی انڈسٹری پہ کبھی نہ تھا۔ یہاں ٹورسٹ آتا کون تھا اور آتا بھی کیوں۔ دوبئی جیسی اکانومی کتنی مضبوط لگتی تھی لیکن اب پتہ چلا کہ وہ کس بحران کا شکار ہورہی ہے۔ سہارا اس اکانومی کا زیادہ تر ٹورزم، تفریح اور باہر کے پیسے پہ تھا۔ یہ تینوں چیزیں نئے حالات کی وجہ سے تقریباً تباہ ہوکے رہ گئی ہیں۔ ہمارا حال ایسا نہیں ہے۔ یہاں نہ ٹورزم نہ تفریح کے مواقع، نہ باہر کا پیسہ۔ ہم تھے اور ہماری مانگے تانگے کی آمدنی۔ ہم میں تھوڑی سوچ ہو تو باآسانی بہت سی نئی چیزوں کی طرف جاسکتے ہیں۔ اپنے لئے نئے مواقع پیدا کرسکتے ہیں۔ شرط البتہ یہ ہے کہ تھوڑی سوچ ہو اور تھوڑی ہمت۔
جہاں بین الاقوامی سفر متاثر ہواہے کسی نے ان حالات میں یہاں کیوں آنا ہے لیکن ہماری اپنی آبادی تو ہے ۔ بائیس کروڑ چھوٹی تعداد نہیں۔ یہ خود ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ اس آبادی میں بیشتر کے حالات اچھے نہ ہوں گے لیکن پاکستان میں پیسے کی کمی نہیں۔ کچھ طبقات ہیں جن کے پاس وافر پیسہ ہے اور انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اس پیسے کا کیا کریں۔ باہر سے ٹورزم نہ ہو‘ اندرونی طور پہ ٹورزم کے مواقع پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ فرسودہ قوانین ختم کیے جائیں، ایسے قوانین جن کا جنم پاکستان کی پیدائش کے ساتھ نہ ہوا تھابلکہ بہت بعد میں ہماری خرابیِ دماغ کی وجہ سے اُن کا نفاذ ہوا۔ ایسے قوانین کا جواز نہ قیام پاکستان میں ملتاہے نہ قائد اعظم کے افکار میں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان کو قانون کی کتابوں سے نکالا جائے اور تاریخ کی کتابوں کا حصہ بنادیا جائے۔ آپ یہ ایک اقدام کریں تو پاکستان کا ماحول سالوں میں نہیں راتوں رات بدل جائے۔
فرسودہ قوانین کے بدلنے سے صرف سماجی ماحول بہتر نہیں ہوگا بلکہ کام کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ سروس سیکٹراور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو فروغ ملے گا اور نوکریوں کے حوالے سے لوگوں کی وہاں کھپت ہو سکے گی۔ ہمارے شہروں کے جو پرانے حصے ہیں انہیں ہم نے تباہ حال کرکے رکھا دیاہے۔ توجہ ان پہ ہونی چاہیے تھی تاکہ ان میں انویسٹمنٹ ہوتی اور لوگوں کا رخ ان کی طرف جاتا۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں میں ٹورزم کے مراکز اُن کے پرانے حصے ہیں۔ ہمارے ہاں بالکل الٹ ہواہے۔ اندرون شہر برباد اور شہروں کا پھیلاؤ بے ہنگم طریقے سے۔ لاہور کو دیکھ لیجیے، حلیہ بگڑ کے رہ گیا ہے۔ کوئی اور ملک ہوتا تو تفریح یا انٹرٹینمنٹ کا سنٹر پرانا لاہور ہوتا، مغلوں اور انگریزوں کالاہور۔ جسے ہم اندرون کہتے ہیں وہ مغلوں کا شہرتھا۔ مال روڈ کے اردگرد انگریزوں کا شہرہے۔ پرانے وقتوں میں شہر کے یہی دوحصے سب سے بارونق تھے ۔ اب لاہور کا پھیلاؤ پتہ نہیں کہاں تک جا پہنچاہے اور امیر طبقات نئی نئی ہاؤسنگ کالونیوں میں مسکن ڈھونڈتے ہیں۔
کچھ دن پہلے نیویارک ٹائمز میں ایک سٹوری پڑھ رہاتھا کہ کیسے اٹلی میں شہروں کے ورکر نوکریاں اب دیہات اور زراعت میں تلاش کرنے لگے ہیں۔ وجہ واضح ہے۔ شہر کی نوکریوں پہ کلہاڑا چلاہے۔ لوگوں نے اپنا گزارہ تو کرنا ہے۔ جہاں کوئی جگہ ملے اُسے حاصل کرنے کیلئے کوشش کرنی ہے۔ ہمارے ہاں بھی شہروں کی معیشت سُکڑے اور نوکریاں محدود ہوں تو لوگ کہاں جائیں گے۔ شاید زراعت کی طرف رُخ کرنا پڑے۔ مستقبل قریب میں یہاں کون سی فیکٹریاں لگنی ہیں۔ کون سی مصنوعات ہم نے تیارکرنی ہیں۔ لیکن زمین تو پڑی ہے اور جس قسم کا دھیان اُس پہ ہونا چاہیے وہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ ایسے میں یہ قیاس کیاجا سکتاہے کہ کچھ پڑھے لکھے لوگ زراعت کی طرف جانے کا سوچیں۔
ہمارے خطۂ چکوال اور اردگرد کے اضلاع کو دیکھ لیجیے۔ باغات کی طرف دھیان کچھ لوگوں کا جا رہاہے۔ زیتون کی افزائش کافی ہورہی ہے۔ انگور کی طرف رجحان خاصا ہوا ہے۔ لیکن پرابلم وہی پاکستان کا پرابلم ہے۔ دوسرے ممالک میں افزائشِ انگور کا ایک خاص مقصد ہوتاہے۔ یہاں انگور تو آپ نے اُگا لیا لیکن اُس کی پھرکھپت کہاں ہوگی۔ مطلب آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ پرانے افغانستان یعنی مجاہدین اور طالبان سے پہلے کے افغانستان میں انگور کی فصل سے بہت عمدہ پروڈکٹ تیار ہوتا تھا۔ یہ سنی سنائی بات نہیں اپنا مشاہدہ تھا۔ اُس پرانے افغانستان کے کابل میں دو اٹالین ریستوران ہوا کرتے تھے۔ کیا اعلیٰ پائے کا اٹالین کھانا اُن میں دستیاب ہوتا۔ اورکھانے کے ساتھ جو مشروبات ہوتے وہ خالصتاً افغانستان کی تیارکردہ تھے۔
وہ زمانے گئے۔ افغانستان اپنے حالات کے تحت بدل گیا، ہماری اپنی مجبوریاں تھیں۔ مجبوریوں کا نام انہیں کیوں دیں، کوتاہیاں تھیں۔ آنکھوں کو بند کیا کرنا تھا، ذہنوں پہ تالے لگا لیے اور اس کیفیت میں وہ فیصلے کیے جن کے ممکنہ نتائج سے بحیثیت مجموعی ہم غافل تھے۔ بہرحال اِس دنیا میں کم ہی چیزیں ہیں جنہیں آپ دائمی کا لقب دے سکیں۔ اگر حالات بنتے ہیں تو بدل بھی جاتے ہیں۔ یہ کوئی لازم نہیں کہ1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں جوفیصلے ہوئے وہ ایک دائمی حقیقت بن چکے ہیں۔ تب کے حالات اور تھے۔ بہت وقت گزر چکا ہے۔ ہم میں عقل اورہمت ہونی چاہیے کہ پرانے کمبلوں کے استعمال سے اب چھٹکارا حاصل کریں۔
دیکھا جائے تو یہ وبا اوراس سے پیدا شدہ حالات ہمیں ایک نئی سوچ کی دعوت دے رہے ہیں۔ ایک دنیا چند ماہ پہلے کی تھی جب اس وبا کے اثرات واضح طور پہ نمودار نہیں ہوئے تھے۔ اُس دنیا کے تقاضے بدل چکے ہیں۔ معاشی سرگرمیاں تو رہیں گی کیونکہ انسانوں نے ہر حال میں جینا ہے‘ لیکن بہت سی معاشی سرگرمیوں کا انداز بدل جائے گا۔ مثال کے طورپہ ہوائی سفر ختم تو نہیں ہوگا لیکن اس کی نوعیت بدلی ہوئی ہوگی۔ دنیا دریافت کرنے لوگ پھر بھی نکلیں گے لیکن ٹورزم کا انداز بدل جائے گا۔ ہمارے عرب دوستوں کی معیشتوں کو دیکھ لیجیے۔ ایک تو تیل کی قیمت اتنی کم ہوئی ہے دوسرا باہر کے لوگوں کا آنا جانا کم ہواہے۔ اُن کے لئے بھی چیلنج ہے کہ نئی راہیں تلاش کریں ۔
ایک چیزنہیں بدلی اور وہ ہے برصغیر کی سوچ۔ یہ لائن آف کنٹرول پہ فائرنگ، موجودہ حالات میں اس کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ ہندوستان میں ایک حکومت ایسی ہے جس سے بات کرنا مشکل ہے۔ اس کی اپنی سوچ اور ترجیحات ہیں۔ لیکن کہیں سے معجزہ رونما ہو سکے اور پاکستان اور ہندوستان کی روایتی دشمنی میں کچھ کمی آسکے۔