یہ قسمت کی خوبی نہیں،طیارے کے مشینی نظام کی ناکامی کا ناقابل یقین شاخسانہ ہے۔
“احمد علی کورار “
یہ زندگی کی پہلی عید گزری جو گزشہ تمام عیدوں سے مختلف تھی اور ایسے موقع پر آئی جب دنیا کورونا جیسی عفریت سے نبردآزما ہے۔جس نے
پورے نظام زندگی کو ہیچ کر دیا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی تہوار اس جذبے سے نہیں منایا جا رہا جس طرح عام زندگی میں منایا جاتا تھا۔
دنیااب اسی کوشش میں ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح نظام زندگی کو معمول پر لائے۔کبھی کبھی مثبت اشارے بھی ملتے ہیں کبھی کبھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ کورونا کم بخت کبھی معدوم نہیں ہونے والا لہذا اس کے ساتھ رہنا سیکھیں۔
ابھی میں انھی سوچوں میں غرق تھا کہ کب کورونا سے نجات پائیں گے اور کب زندگی معمول پر آئے گی۔ اچانک ایک درد انگیز خبر نظر سے گزری کراچی میں مسافر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا جب موت پہلے سے رقص کر رہی ہو ایسے میں اس خبر نے تو مزید زخموں کو ارزاں کردیا ایک تو کورونا کے خوف نے ذہن زچ کر دیے وجود ایک خوف کی کیفیت سے گزر رہا ہے ہر دن نئی خبر سننے کو ملتی ہے۔
اس دردناک واقعے نے تو محو حیرت کر دیا۔پی آئی اے کا بدنصیب طیارہ درد انگیزی کی المناک داستان رقم کر گیا۔اہلِ وطن کے دل غم و اندوہ سے چھلنی ہو گئے۔حادثے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور پورا ملک آناً فاناً سوگ میں ڈوب گیا۔ہر آنکھ پر نم ہے حادثہ ایک دم ہو گیا۔
اللہ ایسے ناگہانی آفات سے محفوظ رکھے۔
اس طرح کے واقعات سالوں تک فراموش نہیں کیے جاتے وہ اذہان میں گھر کر جاتے ہیں۔
ایک بڑی تعداد عازم سفر تھی جو عید منانے اپنے گھروں کو جارہی تھی ان کے پیارے ان کی راہ تک رہے تھے لیکن ہر کوئی اس سے انجان تھا کہ یہ ان کی زندگی کا آخری سفر ہے۔
موت ایک منٹ کی دوری پر منڈلا رہی ہے لیکن انسان بے خبر اپنی منزل تک پہنچنے کا انتظار کر رہا ہے۔لیکن وہ اس سے ناواقف ہے کہ وہ تو اپنی اصل منزل تک پہنچنے والا ہے۔یہ اٹل حقیقت ہے کہ موت کہیں بھی کسی وقت بھی آسکتی ہے موت برحق ہے اور انسان اس سے بے خبر ہے۔
لیکن اس واقعے نے سوال چھوڑا ہے کہ لوگ واقعی حادثے کا شکار ہوئے ہیں یا یہ نا اہلی کا شکار ہوئے۔
پاکستان میں طیارہ حادثات کی ایک تاریخ ہے اگر ایک نظر ہم ماضی قریب پر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی ایسے حادثات رونما ہو ئے جس سے کئی انسانی جانوں کا زیاں ہوا۔
ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں 83 حادثات ہوئے جس میں 1039 افراد جاں بحق ہوئے۔سو بڑے حادثات میں 2010 کا کریش شامل ہے جس میں 152 افراد جاں بحق ہوئے۔
اگست 1989 گلگت سے اڑان بھرنے والا طیارہ مسافروں سمیت لا پتہ ہو گیا کوشش بسیا ر کے باوجو آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔
اب کے حا دثے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے نزدیک یہ قسمت کی خوبی نہیں طیارہ کے مشینی نظام کی ناکامی کا ناقابل یقین شاخسانہ تھا۔
کیونکہ طیارے کی انجنز کا بند ہو جانا ہینڈ لنگ گئیر کا کام نہ کر نا ابہام پیدا کرتا ہے کہ کیا طیارے میں تکنیکی مسلہ تھا جو بر وقت درست نہیں کیا گیا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایئر بس A320کے غم انگیز سانحہ کی شفاف تحقیقات کو یقینی بنائے ۔
ماضی کے برعکس اس طیارہ کی دلگداز اور الم ناک سانحہ کی مکمل غیر جانبدارانہ تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے، حادثہ کی ابتدائی رپورٹ میں کئی پہلو مزید شفاف تکنیکی چھان بین تفصیل کے ساتھ قوم کے سامنے لائی جانی چاہیے۔
اس سے کوئی مفر نہیں کہ موت تو ایک دن ضرور آنی ہے مگر مر نے والے ہر بار کسی حادثے سے نہیں نا اہلی سے مرتے ہوں تو سوال تو جنم لیتے ہیں جن کے جواب دینا ضروری ہے۔