یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزف بوریل: ’عالمی طاقت کا توازن امریکہ سے ایشیا منتقل ہو رہا ہے‘
یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزف بوریل نے کہا ہے کہ ماہرین جس ’ایشائی صدی‘ کی آمد کی پیشگوئی کر رہے تھے اس کا شاید کورونا کی وبا کے دوران ظہور ہو چکا ہے اور اب یورپی یونین کو اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے چین کے حوالے سے ایک ٹھوس پالیسی بنانی ہوگی۔
جوزف بوریل نے پیر کو جرمنی کے سفارت کاروں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’تجزیہ کار کافی عرصے سے امریکہ کی سربراہی میں چلنے والے عالمی نظام کے خاتمے اور ایشیائی صدی کی آمد کا باتیں کر رہے تھے۔‘
یورپی یونین کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’اب یہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور ہم پر کسی ایک سائیڈ کا انتخاب کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا ہے کہ ایسے شواہد ہیں کہ چین عالمی طاقت کے طور پر امریکہ کی جگہ لے رہا ہے اور یورپی یونین کو چین کے حوالے سے ایک مضبوط پالیسی طے کرنی ہوگی۔
یورپی یونین کے ایک سینیئر سفارت کار کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب چین ہانگ گانگ میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے سکیورٹی کے حوالے سے نئے قوانین بنا رہا ہے۔
یورپی وزیر خارجہ جوزف بوریل نے کہا کہ تاریخ میں کووڈ-19 کی وبا کو ایک ایسے فیصلہ کن موڑ کے طور پر دیکھا جائے گا جب دہائیوں بعد امریکہ دنیا کی رہنمائی کرتا ہوا نظر نہیں آ رہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ اور چین کی رقابت کی وجہ سے عالمی ادارے ایسا کردار ادا نہیں کر پا رہے جس کی اس مشکل گھڑی میں ضرورت تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کو اپنے مفادات اور اپنی قدروں کو سامنے رکھنا ہو گا اور کسی کا آلہ کار بننے سے بچنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ یورپ کو ایک مشترکہ تعزویراتی کلچر کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو اس وقت اس کے پاس نہیں ہے۔
جوزف بوریل نے کہا کہ چین کا عروج متاثر کن ہے لیکن یورپی یونین اور چین کے موجودہ تعلقات اعتماد، شفافیت اور باہمی تعاون پر قائم نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہم اجتماعی نظم و ضبط کے ساتھ چین کے ساتھ اپنے معلامات طے کریں تبھی ہمارے پاس کوئی موقع ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موسم خزاں میں یورپی یونین اور چین کی سربراہی کانفرنس میں ہمارے پاس موقع ہو گا کہ اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر چین کے حوالے سے اپنی پالیسی مرتب کریں۔
انھوں نے کہا یورپی یونین کو چین کے حوالے سے مضبوط پالیسی طے کرنا ہو گی جس میں دوسرے جمہوری ایشیائی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات بھی ضروری ہیں۔