ہماری ہی طرح اگر آپ بھی سوشل میڈیا ٹرینڈز کو فالو کرتے ہیں اور کبھی کبھی بات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے یہ دیکھ کر حیران بھی ہوتے ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ یہ کہانی جس کا ہم ذکر کرنے لگے ہیں آپ کی نظر سے ضرور گزری ہو گی۔
ہوا یوں کہ عید کے روز نیوز چینل جی این این پر اینکر نیلم اسلم نے حسب معمول خبریں پڑھنا شروع کیں۔ لیکن اس مرتبہ لوگوں کی توجہ بظاہر خبروں سے زیادہ اُن کے پہناوے اور تیاری پر مرکوز ہو گئی۔
دراصل معمول سے ہٹ کر نیلم اسلم نے زرق وبرق لباس کے ساتھ ساتھ ماتھے پر ایک بڑا سا جھومر پہن رکھا تھا۔ بس پھر کیا تھا، ٹوئٹر کو تو ہم آپ جانتے ہی ہیں، سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔
بہت سے لوگوں نے کہا کہ آخر عید تھی، عید پر تو سب تیار ہوتے ہیں۔ یعنی کچھ کو ان کا اس طرح سکرین پر آنا اچھا لگا۔ لیکن کچھ لوگوں نے اعتراض بھی کیا کہ کراچی میں طیارے کے حادثے کے بعد اس طرح کا لباس وہ بھی ایک نیوز اینکر کے لیے مناسب نہیں۔ یعنی ایسی دلخراش خبر پڑھتے وقت شاید اس طرح تیار ہونا نامناسب تھا۔
نیوز اینکر طارق متین نے نیلم اسلم کا خبریں پڑھتے ہوئے سکرین شاٹ ٹوئٹر پر شیئر کیا اور اسی بارے میں اپنی ٹویٹ میں کہا کہ کیا یہ سانحہ کراچی کے بعد کی عید ہے۔
اس پر نیلم اسلم نے ٹوئٹر پر اُن کو جواب دیا کہ باقی سب نیوز چینلز پر عید ٹرانسمیشن اور عید شوز پر بھی تنقید کریں اور تصویریں بھی شیئر کریں۔
اس ٹویٹ کو بہت سے لوگوں نے ری ٹویٹ کیا اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اسامہ ورک نامی سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ’وہ ایک محنتی اور کام کرنے والی پروفیشنل ہیں۔ وہ ایک رحم دل انسان ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر دوسروں پر تبصرے نہیں کرتیں، وہ وہی کرتی ہیں جو اُنھیں پسند ہے۔‘
یوں نیلم اسلم کا لباس اور اُن کی تیاری اُس روز موضوع بحث رہی۔ بہت سے لوگوں نے اُن کی تعریف کی اور انھیں ناقدین کو نظر انداز کرنے کے لیے کہا۔ یہ سلسلہ عید کے روز سے جاری ہے۔
نیلم اسلم نے خود ایک بار پھر اپنی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی اور کہا کہ ’اگر میرے بارے میں بحث ختم ہو گئی ہو تو تھوڑا سا وقت اپنے گھر والوں کو بھی دے دیں، وہ بھی اچھے لوگ ہیں اُن کو بھی نوٹس کر لیا کریں۔ عید مبارک۔‘
اس بارے میں جب بی بی سی نے نیلم اسلم سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ انھیں اس بارے میں بہت زیادہ مثبت ردعمل بھی موصول ہوا ہے۔
کیا پاکستان میں نیوز اینکرز کے لیے کوئی ‘ڈریس کوڈ’ ہے؟
خیر ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اس بارے میں بات کی جائے کہ آخر یہ فیصلہ کیسے کیا جاتا ہے کہ اینکر کیا پہن سکتے ہیں کیا نہیں۔ کیا ہر ادارے کے اپنے ضوابط ہوتے ہیں؟ یا پھر آپ جو چاہیں وہ پہن لیں؟
عائشہ بخش نیوز اینکر اور ٹاک شو ہوسٹ ہیں جو جیو اور اے آر وائی جیسے بڑے نجی چینلز کے لیے ایک طویل عرصے تک کام کر چکی ہیں۔ عائشہ بخش آجکل خود بھی نیلم اسلم کی طرح جی این این سے وابستہ ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہر چیز کا ایک ڈیکورم ضرور ہوتا ہے کہ وہ کس طرح سے ہونی چاہیے اور ہر ادارے میں ان چیزوں کے لیے شعبے ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان معاملات کو دیکھیں۔ جب ایسے ڈیپارٹمنٹ اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتے تو ایسی باتیں ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جو کچھ دیکھنے والوں کو اچھی نہ لگیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اگر اُسی دن دوسرے چینلز کو دیکھیں تو اُن پر بھی ایسی ہی چیزیں ہو رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک نیوز پریزینٹر کے طور پر دیکھیں تو اس میں اُس کا قصور نہیں کیونکہ ہمارا نیوز میڈیم آہستہ آہستہ بہت کمرشل ہوتا جا رہا ہے۔ خبر کو خبر کے طور پر اہمیت ملنی چاہیے۔ اور ناظرین کے لیے خبر ہی ہائی لائیٹ ہونی چاہیے لیکن وہ چیزیں کم ہوتی جا رہی ہے یا ختم ہو رہی ہیں۔‘
لیکن ساتھ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’ہم پہلے سے بہت زیادہ تنقید کرنے لگے ہیں۔‘
دنیا بھر کے معتبر نیوز اداروں میں جہاں بہتر پریزنٹیشن پر زور دیا جاتا ہے، وہیں نیوز اینکرز کے بارے میں ڈریس کوڈ بھی ہوتا ہے۔
عنبر شمسی آج کل پاکستانی چینل سما ٹی وی کے ساتھ منسلک ہیں اور ماضی میں بی بی سی کے ساتھ بھی کام کر چکی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں بھی اینکرز کے لیے ڈریس کوڈ ہوتا ہے۔ جس میں بنیادی چیز یہ ہے کہ ’نیوز اینکر ایسے کپڑے پہنیں جن میں ایسی چیزیں نہ ہوں جو بہت زیادہ نمایاں ہوں، سادگی سے پہنیں اور بہت زیادہ زیور نہ پہنیں۔‘
عنبر شمسی نے کہا کہ ’عید پر اکثر نیوز کاسٹرز تیار ہوتی ہیں، چمک دمک والے کپڑے بھی پہنتی ہیں لیکن پھر بھی ایک حد ہوتی ہے۔‘
عنبر شمسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’لوگوں کو حق ہے کہ وہ جو پہننا چاہیں وہ پہنیں لیکن جب آپ کام پر جاتے ہیں یا سکول جاتے ہیں تو ایک ڈریس کوڈ ہوتا ہے اور اسی طرح نیوز کاسٹرز کے لیے بھی ایک ڈریس کوڈ ہوتا ہے۔ خاص تہوار ہوں اور اُس موقع پر زیادہ تیار ہو رہے ہوں تب بھی ان اصولوں کا لحاظ کرنا ہوتا ہے۔‘
عنبر شمسی کہتی ہیں کہ ’ایک نیوز کاسٹر کا بنیادی کام خبر سنانا ہے۔ یہ کرتے آپ اچھے لگیں، پریزینٹیبل لگیں، خوبصورت بھی لگ سکتے ہیں لیکن جو کام کر رہے ہیں جو خبر سنا رہے ہیں، اُس سے توجہ نہ ہٹے۔‘
تو کیا عنبر شمسی نے کبھی بیخیالی میں ایسا کچھ پہن لیا جو ان اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں پہننا چاہیے تھا؟
’میں ایک دن کام پر پہنچی اور میں نے بڑے جھمکے پہنے ہوئے تھے تو مجھے کہا گیا کہ میں انہیں نہ پہنوں۔ ویسے تو مجھے اتنا عرصہ ہو گیا ہے کہ علم ہے کہ کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں لیکن پھر بھی کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے۔ ڈریس کوڈ ضرور ہونا چاہیے لیکن اس طرح کے واقعات کو اتنا زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینے چاہیے۔‘
بات تو صحیح ہے لیکن یہ آخر کار سوشل میڈیا ہے جہاں ہر چیز کو سنجیدگی سے لینے کے لیے لوگ تیار بیٹھے ہوتے ہیں!
کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ نیلم اسلم کو تنقید کا نشانہ اُن کی صنف کے وجہ سے بنایا گیا ہے۔ صحافی عمیر سولنگی نے لکھا کہ ’میں نے تو عید ہی نہیں منائی لیکن جو مرد حضرات نیوز اینکرز کی تصاویر لگا کر طنز کر رہے ہیں کہ عید سادگی سے کیوں نہیں منائی، کیا ان کے گھر کی عورتوں نے نئے کپڑے نہیں بنوائے؟ منافقت کی بھی حد ہوتی ہے۔ صرف اینکرز کو نشانہ مت بنائیں تقریباً پوری قوم نے ہی عید سادگی سے نہیں منائی۔‘
اسی طرح کی بات عائشہ بخش نے بھی کی۔ ان کا خیال ہے کہ ’ہمارے معاشرے میں مرد کے پاس جو گنجائش ہے وہ عورت کے پاس نہیں۔ گھر سے لے کر دفتر تک۔ سڑک سے لے کر بس سٹاپ تک یہی حال ہے اور یہ حقیقت ہے۔‘
لیکن عنبر شمسی کہتی ہیں کہ ’یہ کہنا کہ تنقید صرف خواتین پر ہوتی ہے شاید مکمل طور پر درست نہ ہو کیونکہ رمضان میں ایک معروف ٹی وی شو میں میزبان اداکار فہد مصطفیٰ کی ٹی شرٹ بھی تنقید کا نشانہ بنی کیونکہ اُس ٹی شرٹ سے اُن کی چھاتی زیادہ ظاہر ہو رہی تھی، تو مرد بھی تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔‘