نقطہ نظر

عید کے رنگ

Share

” مدیحہ ریاض “
عید نام ہے خوشیوں ، رنگوں اورقہقوں کھلکھلاہٹوں کا۔عید کادن پیغام ہے امن و محبت ،بھائی چارے اور رواداری کا۔عید کا دن مسرتوں سے بھرپور دن ہوتا ہے ہر طرف کھلکھلاتے مسکراتے چہرے بہار کا سماں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ایک گہما گہمی کا دن جس میں ایسا شورو غل کہ پاس کھڑے انسان کی آواز سنائی تک نہ دے لیکن اس شور و غل میں بھی محبتیں اور خوشیاں محو رقصاں ہیں۔ عام دنوں میں دیر سے اٹھنے والے بچے عید کے روز والدین کے بیدار سے ہونے کے قبل ہی جاگے ہوتے ہیں۔بچیاں بیدار ہونے کے بعد جلدی سے پانی کی طرف رخ کرتی ہیں تاکہ ہاتھ دھونے کے فورا مہندی کا رنگ دیکھ سکیں کہ ہاتھوں پر مہندی کا رنگ کیسا چڑھا ہے۔ مائیں صبح منہ اندھیرے ہی جاگ جاتی ہیں ۔نماز اور تلاوت قرآن کے پاک کے بعد فورا باورچی خانے کا رخ کرتی ہیں اور چولہا چوکی سنبھال لیتی ہیں۔ہر گھر کے اپنے طور طریقے اور کھانے ہوتے ہیں کوئی میٹھے میں زردہ، سویاں تو کوئی شیر خورما پسند کرتا ہے۔اکثر گھروں میں میٹھے میں کھیر اور فیر؎نی بنتی ہے۔پھر اس کے بعدخواتین گھر کے مردوں کی تیاری میں مدد کراتی ہیں تودوسری طرف بچوں کو تیار کرتی ہیں اورساتھ ساتھ انکی شکایات بھی سن رہی ہوتی ہیں ۔کسی کو اپنے جوتے کھلے لگ رہے ہوتے ہیں تو کسی کو اپنے کپڑوں کا رنگ پسند نہیں آتا۔ بچوں کو تیار کرنے کے بعد بچیوں کو تیار کرتی ہیں ان کے مسائل بھی کسی سے کم نہیں ۔کسی کے ہاتھوں پر مہندی کا رنگ نہیں چڑھا ،کسی کے بالوں کا ڈیزائن ٹھیک سے نہیں بن رہا تو کسی کے مسکارا نہیں لگ رہا ٹھیک سے الغرض جتنی بچیاں اتنے ہی گھمبیر مسائل۔ لیکن عید کا مزہ ان چھوٹے چھوٹے مسائل کی وجہ سے ہی دو چند ہو جاتا ہے۔ گھر کے مرد عید کی نماز کے بعدجب گھر تشریف لاتے ہیں تو گھر گھر کم عدالت کا منظر زیادہ لگتا ہے ۔ہر کوئی اپنی اپنی بولی بو ل رہاہوتا ہے۔ بچے والدین کے گرد گھیر ا تنگ کئے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ عیدی دئیے بغیر والدین کی بخشش نہیں ہوتی۔ ہر والدین بچوں کو اپنی استطاعت کے مطابق عید دیتے ہیں۔ بچوں کے چہروں پر خوشی والدین کے لئے کسی عید سے کم نہیں ۔