ماہِ صیام کو ملت اسلامیہ میں نیکیوں کا موسم شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی صبحوں اور شاموں کا، دنوں اور شبوں کا اپنا لطف ہوتا ہے، لیکن اس بار یہ جذب و کیف کورونا کی ستم رانیوں کی نذر ہو گیا۔ عید سے دو دن قبل کراچی کا فضائی حادثہ دلوں کو لہو سے بھر گیا۔ پھر رویت ہلال کے مسئلے پر پیدا ہونے والی بدمزگی اپنی جگہ تھی۔ مفتی منیب الرحمن کی زیر قیادت رویت ہلال کمیٹی باقاعدہ ریاستی ادارہ ہے جس کی کریڈیبلٹی کو خود وفاقی حکومت کا ایک وزیر گزشتہ سال سے چیلنج کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس بار تو معاملہ حد سے گزر گیا تھا۔ وزیر موصوف نے اپنی وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کی ریسرچ کی روشنی میں، دوپہر ہی کو اعلان کر دیا تھا کہ مغرب کے بعد ٹھٹھہ، بدین اور سانگھڑ کی پٹی میں ہلالِ عید نظر آ جائے گا اور اتوار (24 مئی کو) عید ہو گی جبکہ وفاقی کابینہ میں انہی کے ایک رفیق، وزیر مذہبی امور کا کہنا تھا کہ رویت ہلال کا سرکاری اعلان متعلقہ کمیٹی ہی کرے گی‘ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی تو محض چاند، چاند کھیل رہے ہیں۔ اور شاید برسوں بعد یہ پہلا موقع تھا کہ ملک بھر میں مطلع صاف ہونے کے باوجود، چاند کی تلاش میں بہت دیر ہو گئی اور رویت ہلال کمیٹی کی طرف سے اس کے اعلان میں رات کے دس بج گئے۔ اس پر سوشل میڈیا تبصروں اور تجزیوں سے بھر گیا۔ سرکاری ترجمان اس کا کریڈٹ وزیراعظم عمران خان (اور ان کی حکومت) کو دے رہے تھے کہ اس بار پاکستان اور سعودی عرب میں ایک ہی روز عید ہو گی اور اندرونِ ملک بھی عید پر کوئی تنازعہ نہیں ہو گا۔ یہاں وہ اس حقیقت کو نظرانداز کر گئے کہ سعودی عرب میں، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی رمضان کا چاند، پاکستان سے ایک دن پہلے دیکھا گیا تھا، اور وہاں 23 مئی کو تیس روزے پورے ہو گئے تھے۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا (اور اس کو ساٹھ سال سے زائد ہو گیا) پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش (جو کبھی مشرقی پاکستان ہوتا تھا) میں ایک ہی روز عید ہوتی تھی۔ اس بار ہندوستان اور بنگلہ دیش میں عید ہم سے ایک روز بعد ہوئی (جبکہ رمضان شریف کا آغاز ایک ہی روز ہوا تھا)۔
ملک کے اندر ”ایک ہی روز، ایک ہی عید‘‘ والا مزا یوں کرکرا ہو گیا کہ سُنی اتحاد کونسل والوں نے مفتی منیب الرحمن کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے، اتوار کو روزہ رکھا اور سوموار کو عید منائی؛ البتہ اس بار پاکستان کو یہ ”منفرد اعزاز‘‘ ضرور حاصل ہوا کہ دنیا بھر میں رمضان کے تیس روزے تھے، اپنے ہاں سرکاری طور پر یہ رمضان 29 روزوں کا رہا۔ مفتی منیب الرحمن اپنے علم و فضل اور معتدل مزاجی کے باعث پاکستان کے سبھی فقہی مسالک میں عزت و احترام سے دیکھے جاتے ہیں، عام پاکستانیوں میں بھی وہ اعتبار اور وقار کے حامل ہیں (وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اور اسی طرح کے چند لوگوں کی بات اور ہے)۔ لیکن گزشتہ سال سے مفتی صاحب کو خود سرکار کے ایک حلقے کی طرف سے جس تضحیک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے (اور اس بار جس کی انتہا ہو گئی) ہمیں خوشی ہوتی، اگر ہفتے کی شب وہ رویت ہلال کا اعلان کرتے ہوئے، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے طعن و تشنیع کی بجائے، اس ذمہ داری سے رضاکارانہ سبکدوشی کا اعلان کر دیتے، جسے نبھاتے ہوئے ویسے بھی انہیں 19 سال کا غیرمعمولی طویل عرصہ ہوچکا ہے۔
عید گزر گئی اور اب فرزند لال حویلی کے بقول ”ٹارزن‘‘ نے اپنا کام شروع کرنا ہے (جھاڑو پھرنے کا یہ عمل اس کے بقول 31 جولائی تک مکمل ہو جائے گا) عید کی نماز کے بعد میڈیا سے گفتگو میں، اور مختلف چینلز کے عید سپیشل شوز میں بھی شیخ کا اصرار تھا کہ اس کا دوست مشکل میں ہے، اب ”سافٹ ویئر‘‘ کی تبدیلی سے بھی فرق نہیں پڑے گا کہ اس کا وقت گزر چکا۔ ایک جگہ تو وہ صاف الفاظ میں کہہ رہا تھا کہ عید کے بعد شہباز کی گرفتاری یقینی ہے۔ ادھر عطاء اللہ تارڑ کے بعد شہباز شریف کے پرسنل سٹاف کے ایک اہم رکن بدر شہباز میں بھی کورونا پازیٹو کی تصدیق ہوئی ہے۔ بدر نے عید کی نماز بھی شہباز صاحب کے ساتھ پڑھی تھی جس کے بعد شہباز صاحب بھی قرنطینہ میں چلے گئے مخالفین جسے2 جون کو نیب کی طلبی سے جوڑ رہے ہیں‘ لیکن وہ جو کہتے ہیں، بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، تو شہباز صاحب بھی کب تک قرنطینہ میں رہیں گے؟ ویسے بھی ذہنی طور پر (اور جسمانی طور پر بھی) وہ گرفتاری کے لیے تیار ہیں، تب ہی تو انہوں نے 21 مئی ہی کو ایک ٹی وی انٹرویو میں قوم کو یوم تکبیر کی مبارک باد دے دی تھی۔ میزبان کے استفسار پر کہ ابھی تو اس میں ایک ہفتہ پڑا ہے، شہباز صاحب کا جواب تھا کہ انہوں نے اس موقع کو اس کے لیے غنیمت جانا ہے (کہ پھر التفاتِ دل دوستاں رہے، نہ رہے۔)
جمعرات کی سہ پہر جب یہ سطور قلم بند کی جا رہی تھیں، مسلم لیگ (ن) ملک بھر میں یوم تکبیر منا رہی تھی، بائیس سال قبل پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی یاد کا دن۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ملک کے اندر اور باہر، بہت کچھ لکھا جا چکا۔ شاید پاکستانیوں سے بھی زیادہ امریکیوں نے لکھا۔ شہباز شریف نے اپنے پیغام میں، بجا طور پر اس کے آغاز کا کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو کو دیا اور اس کے بعد، میاں نواز شریف تک پاکستان کے تمام حکمرانوں، اور اس پروگرام سے وابستہ تمام سائنسدانوں اور سہولت کاروں کو، جن کی بدولت یہ پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہوا… اور 28 مئی 1998ء کو نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ میں پاکستان نے باقاعدہ دھماکوں کے ذریعے، اپنی ایٹمی صلاحیت کا اعلان کر دیا۔
امریکیوں کو ڈاکٹر قدیر اور اس کی کہوٹہ لیبارٹریز کی سُن گن تو بہت بعد میں ہوئی۔ انہیں بھٹو صاحب کے دور میں، فرانس کے ساتھ چشمہ ری پراسیسنگ پلانٹ کے سودے کی فکر تھی‘ اور اسی کی منسوخی کے لیے ان کا سارا دبائو تھا۔ وہ بھٹو صاحب (اور فرانس کے بھی) اس مؤقف کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ ری پراسیسنگ کا یہ پروگرام توانائی کے پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ انہیں تو 1974ء میں اندرا گاندھی کے ایٹمی دھماکوں پر بھٹو صاحب کا یہ اعلان یاد تھا کہ گھاس کھائیں گے، ایٹم بم بنائیں گے۔ طویل خط و کتابت کے بعد ڈاکٹر قدیر 1976ء میں پاکستان آ گئے اور راولپنڈی کی پرانی بیرکوں میں کام کا آغاز کیا۔ جولائی 1977ء میں بھٹو صاحب کی معزولی کے بعد امریکی ضیاء الحق پر، فرانسیسی ری پراسیسنگ پلانٹ والے معاہدے کی منسوخی کے لیے دبائو ڈالنے لگے۔ جس پر ضیاء الحق کا جواب ہوتا کہ وہ تو 90 دن کے لیے آئے ہیں، فرانس کے ساتھ معاہدہ ایک منتخب سیاسی حکومت نے کیا تھا، اور نئی منتخب حکومت ہی اس حوالے سے کسی فیصلے کی مجاز ہو گی۔ اُنہی دنوں صدر کارٹر تہران سے دہلی جا رہے تھے۔ پاکستان کی تمام تر سفارتی کاوشوں کے باوجود وہ اسلام آباد میں چند گھنٹے کے سٹاپ اوور پر بھی آمادہ نہ ہوئے۔ جنرل ضیاء کے صاف انکار پر امریکہ نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں مزید سخت کر دیں۔ پاکستان سے مایوس ہو کر امریکیوں نے پیرس پر دبائو بڑھانا شروع کیا۔ یہاں تک کہ فرانس نے اس معاہدے کی منسوخی کا یکطرفہ اعلان کر دیا جس پر جنرل ضیاء الحق کا تبصرہ تھا، ”فرانس ایک باوقار قوم ہے، میں نہیں سمجھتا کہ وہ یہ معاہدہ توڑ دے گی‘‘۔
سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کا، پاکستان کے لیے سب سے بڑا ثمر یہ تھا کہ ہم نے اپنا ایٹمی پروگرام مکمل کر لیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں پاکستان نے کولڈ ٹیسٹ کر لیا تھا۔
وزیراعظم نواز شریف ECO سربراہ کانفرنس کے سلسلے میں قازقستان میں تھے جب گیارہ مئی (1998ء) کو انڈیا کی واجپائی حکومت نے تین ایٹمی دھماکے کیے۔ (دو دن بعد 13 مئی کو مزید دو دھماکے۔) نواز شریف 15 مئی کو وطن واپس پہنچے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے وابستہ سینئر سائنسدانوں کو بلایا اور پوچھا ”آپ کتنی دیر میں دھماکے کر سکتے ہیں؟‘‘۔ ”ایک ہفتے کے اندر انشاء اللہ‘‘۔ اور 20 مئی کو سائنسدانوں کو ”چاغی‘‘ پہنچنے کے لیے کہہ دیا گیا۔
28 مئی کو دھماکوں کے بعد، ہم ملک بھر کے سینئر اخبار نویسوں کی اس ٹیم میں شامل تھے، جسے چاغی کے اس تاریخی مقام پر جانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وزیر اطلاعات سید مشاہد حسین، ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ڈاکٹر اشفاق احمد بھی ساتھ تھے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ یہ سرنگ جس میں دھماکے کیے گئے، اس کے بنانے کا فیصلہ جولائی 1977ء میں ہوا جس کے بعد ایم ایچ چغتائی نے اپنے رفقا کے ساتھ یہاں ڈیرے لیے۔ 1982ء میں کام مکمل ہو گیا۔ کوئٹہ سے تقریباً 347 کلومیٹر، دالبندین سے 90 کلومیٹر اور شاہراہ آر سی ڈی سے ایک گھنٹے کی مسافت پر، اس جگہ کا انتخاب خوب سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔ سرنگ میں سامان کی نقل و حمل کے لیے باقاعدہ پٹری بچھائی گئی۔ تابکاری کو روکنے کے لیے مضبوط ترین دیواریں تعمیر کی گئیں، جن میں ہزاروں ٹن سیمنٹ اور کنکریٹ استعمال ہوا۔ 1996ء میں مزید کام کر کے اسے دھماکے کے قابل بنا دیا گیا۔ بڑے بڑے جنریٹرز کے ذریعے ایئرکنڈیشنرز اور ریفریجریٹرز کا اہتمام بھی کر دیا گیا تھا۔
نواز شریف حکومت پر دبائو کے لیے امریکہ (اور اس کے اتحادیوں) نے کیا کیا حربے استعمال کیے اس کی تفصیل، امریکن سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل زینی کی کتاب Battle Ready میں بھی موجود ہے۔
ادھر بے نظیر بھٹو ایک جلسۂ عام میں اپنی چوڑیاں اتار کر پھینک رہی تھیں کہ دھماکے نہیں کر سکتے، تو چوڑیاں پہن لو۔ ایک بزرگ ایڈیٹر وزیر اعظم سے کہہ رہے تھے، دھماکے کرو گے تو امریکہ تمہارا دھماکہ کر دے گا۔ نہیں کرو گے تو قوم تمہارا دھماکہ کر دے گی۔ اُدھر چاغی میں سائنسدان دھماکے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ 28 مئی کو ڈاکٹر قدیر اور ڈاکٹر اشفاق بھی پہنچ گئے۔ تین بج کر ایک منٹ پر وزیراعظم کی کال آئی۔ تین بج کر دس منٹ پر آخری بار سب چیزیں دوبارہ ٹیسٹ کی گئیں۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے تلاوت شروع کی اور تین بج کر سولہ منٹ پر بٹن دبا دیا گیا۔ یہ سعادت چیف سائینٹفک آفیسر محمد ارشد کی قسمت میں لکھی تھی۔ کنٹرول روم دھماکے کے مقام سے دس فضائی کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ کنٹرول روم میں نصب مانیٹر پر دھماکے کی آواز، پہاڑ کے ٹوٹنے اور اس کی رنگت بدلنے اور پتھروں کے گرنے کے مناظر ابھر رہے تھے۔ تب سب کی زبانوں پر اللہ اکبر کی صدائیں تھیں اور سجدۂ شکر میں گر گئے تھے۔