Site icon DUNYA PAKISTAN

کپڑے سے بنے ماسک کوڈ 19 کو پھیلنے سے روکنے میں مددگار، تحقیق

Share

کپڑے کے ماسک نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کو پھیلنے سے روکنے میں موثر ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ 99 فیصد وائرل ذرات کو بلاک کردیتے ہیں۔

یہ بات کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

میکماسٹر یونیورسٹی کی تحقیق میں ایسے شواہد پیش کیے گئے جن میں کپڑے سے بنے عام فیس ماسکس کو کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے موثر قرار دیا گیا، خصوصاً ایسے ماسک جن میں سوتی کپڑے کی کئی تہیں استعمال کی گئی ہوں، جو وائرل ذرات کو ماحول میں پھیلنے سے روکنے میں مدد دیتی ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ اہم نکتہ یہ نہیں کہ کچھ ذرات ماسک میں داخل ہوجاتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ کچھ ذرات رک جاتے ہیں، خاص طور پر وہ جو ماسک پہننے والا کھانسی اور چھینک کے ذریعے خارج کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مثالی صورتحال میں تو ہم ایسے ماسک کا استعمال چاہتے ہیں جو دونوں اطراف کام کرتا ہوں، یعنی پہننے والے کو ماحول سے بچا کر وائرل ذرات کو ہوا اور سفطح پر پھیلنے سے روکتا ہو۔

اس تحقیق میں دہائیوں پرانے شواہد سمیت نئے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا اور ایسسے ٹھوس ثبوت دریافت کیے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کپڑے اور کپڑے سے بنے ماسک ہوا اور سطح میں جراثیموں کی آلودگی کی شرح کم کرتا ہو۔

سائنسدانوں نے کہا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کپڑا وائرل ذرات کو بلاک کرسکتا ہے یہاں تک کہ کچھ بڑے ذرات کو بھی۔

تحقیق کے نتائج جریدے اینالز آف انٹرنل میڈیسین میں شائع ہوئے۔

1960 اور 70 کی دہائیوں یں سائنسدانوں نے جائزہ لیا تھا کہ کیا کپڑے سے بنے ماسک پہننے والے سے ہٹ ککر دیگر کو تحفظ فراہم کرتا ہے یا نہیں، تو اس وقت دریافت کیا گیا تھا کہ 3 تہہ والا ماسک 99 فیصد تک جراثیم کی آلودگی کو کم کرتا ہے۔

ایک کمرشل ماسک عموماً سوتی کپڑے کی 4 تہوں سے بنا ہاتا ہے جو 99 فیصد تک ذرات کو بلاک کردیتا ہے بلکہ یہ میڈٰکل ماسک جتنا ہی موثر ہوتا ہے۔

کینیڈین سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ہماارا کام تو ایک پیچیدہ معمے کا ایک ٹکڑا ہے، اہم بات یہ ہے کہ ماسک بناتے ہوئے اس میں جتنی تہوں کا اضافہ کیا جائے گا، اندر اور باہر تحفظ اتنا زیادہ ہوگا، مگر اس سے سانس لینا مشکل ہوجائے گا، یہی وجہ ہے کہ 2 سال سے کم عمر بچوں اور سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کرنے والے افراد کو ماسک نہ پہننے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ کپڑے کے ماسکس کے لیے کونسا میٹریل اور ڈیزائن بہترین ثابت ہوسکتا ہے، جس سے بیشتر افراد کو خود ماسک تیار کرکے اپنے پیاروں کو محفوظ رکھنے میں مدد مل سکے گی۔

فیس ماسک کیوں ضروری ہے؟

اگر آپ کو معلوم نہ ہو تو جان لیں کہ کورونا وائرس کے بیشتر کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں متاثرہ افراد میں علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں یا کئی دن بعد نظر آتی ہیں۔

مگر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس کے مریض علامات ظاہر ہونے سے پہلے بھی اس بیماری کو دیگر صحت مند افراد میں منتقل کرسکتے ہیں، اب وہ کھانسی، چھینک کے ذرات سے براہ راست ہو یا ان ذرات سے آلودہ کسی ٹھوس چیز کو چھونے کے بعد ہاتھ کو ناک، منہ یا آنکھوں پر لگانے سے۔

ماہرین کے مطابق یہ واضح ہوچکا ہے کہ گھر سے باہر نکلنے پر فیس ماسک کے استعمال سے چین، جنوبی کوریا، جاپان اور دیگر ممالک میں کیسز کی شرح میں کمی لانے میں مدد ملی۔

درحقیقت فیس ماسک سے صرف آپ کو نہیں بلکہ دوسروں کو بھی تحفظ ملتا ہے۔

منہ کو ڈھانپنا ایسی رکاوٹ کا کام کرتا ہے جو آپ کو اور دیگر کو وائرل اور بیکٹریل ذرات سے تحفظ فراہم کرتا ہے کیونکہ بیشتر افراد لاعلمی میں دیگر افراد کو بیمار کردیتے ہیں یا کھانسی یا چیزوں کو چھو کر جراثیم پھیلا دیتے ہیں۔

امریکی ادارے سی ڈی سی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ ریڈفیلڈ کے مطابق ہوسکتا ہے کہ آپ کورونا وائرس سے متاثر ہوں اور علامات محسوس نہ ہوں مگر پھر بھی آپ وائرس کی منتقلی میں کردار ادا کرسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فیس ماسک کا استعمال ایک اچھا خیال ہے۔

Exit mobile version